وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهٗ وَاَنَّ اللّٰهَ رَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌ۞- سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 20
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهٗ وَاَنَّ اللّٰهَ رَءُوۡفٌ رَّحِيۡمٌ۞
ترجمہ:
اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ کہ اللہ بہت شفیق اور بےحد مہربان ہے (تو تم پر عذاب آجاتا) ؏
آیت نمبر 20 کی تفسیر
………(النور : ٢٠ )
اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی اور یہ بھی کہ اللہ بہت شفقت کرنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے تو اللہ کا عذاب تم کو اپنی گرفت میں لے لیتا کیونکہ تم نے بہت سنگین جرم کیا تھا۔
حضرت عائشہ (رض) پر تہمت کی مفصل حدیث
عروہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ (رض) نے فرمایا کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی سفر پر جانے کا ارادہ فرماتے تو اپنی ازواج میں سے کسی کو ساتھ لے جانے کے لئے قرعہ اندازی فرماتے “ پس جس کا قرعہ نکل آتا اس کو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ساتھ سفر میں لے جاتے ‘ حضرت عائشہ نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک غزوہ (غزوہ بنو مصطلق) میں ازواج کو ساتھ لے جانے کے لئے قرعہ اندازی کی تو میرا قرعہ نکل آیا، سو میں حجاب (پردہ) کے احکام نازل ہوا، اور الدمیاطی نے کہا صحیح یہ ہے کہ پردہ کا حکم چار ہجری میں نازل ہوا، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ بنو المصطلق کے لئے شعبان پانچ ہجری میں نکلے تھے اور اسی میں یہ تمہت والا واقعہ پیش آیا تھا۔ فتح الباری ج ٩ ص ٣٩٩۔ ٣٩٨ بیروت، ١٤٢٠ ھ) مجھے ھودج (کجاوہ، پالان) میں بٹھایا جاتا اور ھودج سے اتارا جاتا، ہم روانہ ہوئے حتیٰ کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس غزوہ سے فارغ ہوئے اور واپس لوٹے اور ہم مدینہ کے قریب پہنچ گئے تو ایک رات آپ نے کوچ کا حکم دیا، جب آپ نے کوچ کا حکم دیا تو قضاء حاجت کو گئی اور لشکر سے دور نکل گئی جب میں قضاء حاجت سے فارغ ہوگئی تو میں اپنے کجاوہ کی طرف بڑھی، اچانک مجھے معلوم ہوا کہ میرا سیپوں کا ہار ٹوٹ کر گرگیا ، میں نے وہ ہار تلاش کیا اور اس نے تلاش نے مجھے روک لیا، اور وہ لوگ جو میرے ھودج کو اتھا کر اونٹ پر رکھتے تھے انہوں نے ھودج کو اٹھا کر میرے اونٹ پر رکھ دیا، اں کا یہ گمان تھا کہ میں ھودج میں بیٹھی ہوئی ہوں، اس زمانہ میں عورتیں ہلکی پھلکی ہوتی تھیں ان پر گوشت چڑھا ہوا نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ بہت تھوڑا کھانا کھاتی تھیں، اس لئے جب لوگوں نے میرے ھودج کو اٹھایا تو وہ ان کو خلاف معمول نہیں لگا، اور میں اس وقت کم عمر لڑکی تھی، انہوں نے اونٹ کوا ٹھایا اور روانہ ہوگئے، ادھ رلچکر کے چلے جانے کے بعد مجھے ہار مل گیا میں اپنی پڑائو میں پہنچی وہاں پر کوئی بلانے والا تھا نہ جواب دینے والا، میں نے اس جگہ کا قصد کیا جہاں پر میں پہلے ٹھہری ہوئی تھی، میرا یہ گمان تھا کہ عنقریب وہ مجھے گم پائیں گے تو وہ واپس میری طرف آئیں گے، میں اس جگہ بیٹھی ہوتئی تھی حتیٰ کہ مجھ پر نیند غالب آگئی اور میں سو گئی، اور حضرت صفوان بن المعطل السلمی الذکوانی (رض) لشکر کے پیچھے تھے تاکہ لشکر کی کوئی چیز پیچھے رہ جائے تو وہ اس کو ساتھ لے آئیں وہ رات کو چلتے رہے حتیٰ کہ صبح کے وقت اس جگہ پہنچے جہاں میں سوئی ہوئی تھی، انہوں نے ایک سوئے ہوئے انسان کو دیکھا وہ میرے پاس آئے اور جب انہوں نے مجھے دیکھا تو مجھے پہنچان لیا، پردہ کے احکام نازل ہونے سے پہلے انہوں نے مجھے دیکھا تھا، جب انہوں نے مجھے پہچانا تو کہا انا اللہ وانا الیہ رجعون یہ سن کر میں بیدار ہوگئی، میں نے اپنی چادر سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا، اور اللہ کی قسم ! انہوں نے مجھے سے کوئی بات نہیں کی اور سوائے انا اللہ وانا الیہ راجعون کہنے کے میں نے ان سے کوئی بات نہیں سنی حتیٰ کہ انہوں نے اپنی اونٹنی کو بٹھایا، اور اس میں اس پر سوار ہوگئی، وہ اونٹنی کو کھنچتے ہوئے آگے آگے چلے، حتیٰ کہ ہم اس وقت لشکر کے پاس پہنچے جب وہ دوپہر کے وقت سائے میں پڑائو ڈالے ہوئے تھے، پس جو ہلاک ہوا وہ ہلاک ہوگیا، اور جس نے اس تہمت کو پھیلانے میں سب سے زیادہ حصہ لیا تھا وہ عبد اللہ بن ابھی ابن سلول تھا، ہم مدینہ میں پہنچے، مدینہ پہنچنے کے بعد میں ایک ماہ تک بیما رہی، اور لوگوں میں اس تہمت کا چرچا رہا، مجھے اس میں سے کسی بات کا پتا نہیں تھا اور میری بیماری کے ایام میں مجھ پر توجہ کیا کرتے تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر تشریف لاتے اور پوچھتے تمہارا کیا حال ہے اور پھر واپس تشریف لے جاتے، اس سے مجھے رنج ہوتا تھا اور مجھے کسی خرابی کا پتا نہیں تھا، حتیٰ کہ ایک دن میں کم زوری کی حالت میں نکلی، میرے ستھ مسطح کی ماں بھی میدان کی طرف گئیں اور یہ میدان ہماری قضاء حاجت کی جگہ تھی اور ہم صرف رات کے وقت ہی وہاں جاتے تھے، اس وقت تک ہمارے گھروں میں بیت الخلاء بنے ہوئے نہیں تھے، اور ہمارا معمول عرب کے پہلے لوگوں کی طرح تھا ہم رفع حاجت کے لئے میدان میں جاتے تھے، اور گھروں میں بیت الخلاء بنانے سے ہمیں اذیت ہوتی تھی، حضرت مسطح کی ماں جو حضرت ابوبکر صدیق (رض) کی خالہ تھیں، میں اور وہ میدان میں گئے اور فراغت کے بعد جب ہم لوٹ رہے تھے تو مسطح کی ماں چادر میں الجھ کر لڑ کھڑا گئیں، انہوں نے کہا مسطح ہلاک ہوجائے، میں نے ان سے کہا آپ نے بری بات کہی ہے کیا آپ ایسے شخص کو برا کہہ رہی ہیں جو مجاہدین بدر سے ہے، انہوں نے کہا کیا آپ نے نہیں سناوہ کیا کہتا ہے ! میں نے پوچھا وہ کیا کہتا ہے، تب انہوں نے مجھے تہمت لگانے والوں کی بات سنائی، پھر میری بیماری کے اوپر مزید بیماری بڑھ گئی، حضرت عائشہ نے فرمایا جب میں اپنے گھر لوٹی، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٓآئے، آپ نے سلام کیا اور پوچھا تمہارا کیا حال ہے ؟ میں نے کہا کیا آپ مجھے اپنے ماں باپ کے گھر جانے کی اجازت دیتے ہیں ؟ حضرت عائشہ نے کہا میرا ارادہ یہ تھا کہ میں اپنے ماں باپ کے گھر جا کر ان سے اس خبر کی تحقیق کروں گی، حضرت عائشہ نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اجازت دے دی، میں اپنے ماں باپ کے پاس گئی، میں نے ماں سے پوچھا، اے امی جان ! یہ لوگ کیس باتیں کر رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا اے بیٹی ! حوصلہ رکھو، کم ہی کوئی حسین عورت ہوگی جو اپنے شوہر کے نزدیک محبوب ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں مگر وہ اس پر غالب آنے کی کوشش کرتی ہیں، میں نے کہا سبحان اللہ ! کیا واقعہ لوگ ایسی باتیں کر رہے ہیں ! میرے آنسو تھمتے نہیں تھے اور میں نیند کو سرمہ نہیں بناس کی، حتیٰ کہ مجھے روتے روتے صبح ہوگئی، ادھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی بن ابی طالب اور حضرت اسامہ بن زید (رض) عنھما کو بلایا جب کہ وحی میں تاخیر ہوگئی تھی اور آپ ان سے اپنی اہلیہ کو الگ کرنے کے متعلق مشورہ کر رہے تھے، رہے حضرت اسامہ بن زید تو انہوں نے اس چیز کی طرف اشارہ کیا جس کا انہیں علم تھا کہ آپ کی اہلیہ اس تہمت سے بری ہیں، اور جس کا انہیں علم تھا کہ آپ کو اپنی اہلیہ سے کس قدر محبت ہے، انہوں نے کہا یا رسول اللہ ہم آپ کی اہلیہ کے متعلق سوا خیر اور نیکی کے اور کوئی بات نہیں جانتے، رہے حضرت علی ابن ابی طالب تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر کوئی تنگی نہیں کی اور حضرت عائشہ کے علاوہ اور بہت عورتیں ہیں اور آپ ان کی باندی (نوکرانی) سے پوچھیں وہ آپ کو سچ سچ بتائیں گی، حضرت عائشہ نے کہا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بریرہ (رض) کو بلایا آپ نے فرمایا اے بریرہ ! کیا تم نے کوئی اسی چیز دیکھی ہے جو تم کو شک میں ڈالے ؟ حضرت بریرہ نے کہا نہیں ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا ہے، میں نے اس سے زیادہ ان کی کوئی بات نہیں دیکھی کہ وہ کم عمر لڑکی ہیں، وہ آٹا گوندھتے گوندھتے سو جاتی ہیں، اور بکری آکر آٹا کھا جاتی ہے، پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کھڑے ہوئے اور اس دن آپ نے عبد اللہ بن ابی ابن سلول کی شکایت کی، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منبر پر کھڑے ہوئے ہو کر فرمایا : اے مسلمانو ! اس شخص کے خلاف میری کون مدد کرے گا جس کی اذیت رسانی میرے گھر تک پہنچ گئی ہے، سو میں نے اپنی اہلیہ پر سوائے خیر کے اور کوئی چیز نہیں جانی اور جس شخص کو انہوں نے ذکر کیا ہے اس کے متعلق بھی میں نے سوائے خیر کے اور کوئی چیز نہیں جانی اور وہ میرے گھر میں صرف میرے ساتھ ہی گیا ہے، تب حضرت سعد بن معاذ انصاری (رض) کھڑے ہوئے اور کہا اس معاملہ میں، میں آپ کی مدد کروں گا، اگر (قبیلہ) اوس میں سے کسی نے آپ کو ضرور پہنچایا ہے تو میں اس کی گردن اڑادوں گا اور اگر ہمارے بھائیوں میں سے (قبیلہ) خزرج میں سے کسی نے ضرر پہنچایا ہے تو آپ ان کے خلاف ہمیں حکم دیں ہم آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے، پھر قبیلہ خزرج کے سردار حضرت سعد بن عبادہ کھڑے ہوگئے اور اس سے پہلے وہ ایک نیک شخص تھے لیکن عصبیت نے ان کو بھڑکا دیا، انہوں نے حضرت سعد بن معاذ سے کہا اللہ کی قسم ! تم نے جھوٹ بولا ہے ! تم اس کو قتل نہیں کرسکتے اور نہ تم اس کو قتل کرنے پر قادر ہو، پھر حضرت سعد بن معاذ کے عم زاد حضرت اسید بن حضیر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے حضرت سعد بن عبادہ سے کہا اللہ کی قسم ! تم نے جھوٹ بولا ہے، ہم اس کو ضرور قتل کریں گے، تم منافق ہو اور منافقین کی طرف سے جھگڑ رہے ہو، پھر دونوں قبیلے اوس اور خزرج جوش میں آگئے، حتیٰ کہ انہوں نے ایک دوسرے کو قتل کرنے کا ارادہ کیا حالانکہ ان کے سامنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر کھڑے ہوئے تھے، پھر رسول الہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو مسلسل ٹھنڈا کرتے رہے حتیٰ کہ وہ خاموش ہوگئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی خاموش ہوگئے، حضرت عائشہ نے کہا اس پورے دن میری آنکھوں سے آنسو نہیں رکے، اور میں نے نیند کو سرمہ نہیں بنایا، صبح کو میرے پاس میرے والدین بیٹھے ہوئے تھے، میں نے دو راتیں اور ایک دن رو رو کر گزارے تھے، میں نے نیند کو سرمہ نہیں بنایا تھا نہ میرے آنسو رکھے تھے، میرے والدین یہ گمان کر رہے تھے کہ میرا رونا میرے جگر کو پاش پاش کر دے گا، جس وقت میرے ماں باپ میرے بیٹھے ہوئے تھے اور رو رہی تھی انصار کی ایک خاتون نے آنے کی اجازت طلب کی میں نے اس کو اجازت دی، وہ بھی میرے پاس بیٹھ کر رونے لگی، حضرت عائشہ نے کہا جس وقت ہم اسی کیفیت میں تھے، ہمارے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے، آپ سلام کرکے بیٹھ گے، اور جب سے یہ تہمت لگائی گئی تھی آپ میرے پاس نہیں بیٹھے تھے اور ایک ماہ تک آپ کی طرف سے میرے متعلق کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے تو آپ نے کلمہ شہادت پڑھا، پھر آپ نے فرمایا : اے عائشہ ! حمدو صلوٰۃ کے بعد، مجھے تمہارے متعلق ایسی ایسی بات پہنچی ہے اگر تم بری ہو تو عنقریب اللہ تمہاری برات نازل کردے گا، اور اگر (بالفرض) تم گناہ کی مرتکب ہوگئی ہو، تو تم اللہ سے استغفار کرو اور اس کی طرف توبہ کرو، کیونکہ جب بندہ اپنے گناہ کا اعتراف کرلیتا ہے پھر اللہ کی طرف توبہ کرتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے، حضرت عائشہ نے کہا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی ختم کرلی تو میرے آنسو خشک ہوگئے حتیٰ کہ میں نے ایک قطرہ بھی محسوس نہیں کیا، میں نے اپنے والد سے کہا کہ آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کا جواب دیں، انہوں نے کہا اللہ کی قسم ! میں نہیں جانتا کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا کہوں ! پھر میں نے اپنی والدہ سے کہا آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بات کا جواب دیں ! انہوں نے بھی کہا میں نہیں جانتی کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا کہوں ! حضرت عائشہ (رض) نے بتایا کہ میں نے کہا میں کم عمر لڑکی ہوں میں بہت زیادہ قرآن مجید نہیں پڑھتی ہے شک اللہ کی قسم میں جانتی ہوں کہ تم نے یہ بات سن لی ہے اور یہ بات تمہارے دلوں میں جاگزین ہوگئی ہے اور تم نے اس کی تصدیق کی ہے، پس اگر میں تم سے یہ کہوں کہ میں اس (تہمت) سے بری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بری ہوں تو تم اس کی تصدیق نہیں کرو گے اور اگر میں کسی (ناکردہ) کام کا اعتراف کرلوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں اس کام سے بری ہوں تو تم ضرورمیری تصدیق کرو گے، اور اللہ کی قسم ! میں تمہارے لئے صرف حضرت یوسف (علیہ السلام) کے والد کی مثال دیکھتی ہوں، انہوں نے فرمایا تھا :
…………(یوسف : ١٨)
پس صبر جمیل کرنا ہی بہتر ہے اور جو کچھ تم بیان کرتے ہو اس پر اللہ سے ہی مدد مطلوب ہے۔
حضرت عائشہ نے کہا پھر میں اس مجلس سے اٹھ کر بستر پر جا کر لیٹ گئی، اس وقت مجھے یہ یقین تھا کہ میں بری ہوں، اور اللہ میری برات کو ظاہر کردے گا، لیکن اللہ کی قسم میں یہ گمان نہیں کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے متعلق وحی نازل ہوئے فرمائے گا، اور میرے نزدیک میری حیثیت اس سے بہت کم تھی کہ میرے متعلق وحی نازل کی جائے جس کی تلاوت ہو، لیکن میرا گمان یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نیند میں ایسا خواب دکھا دے گا جس سے اللہ میری برات ظاہر فرما دے گا، پس اللہ کی قسم ابھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اٹھنے کا قصد نہیں کیا تھا، اور نہ گھر والوں میں سے کوئی نکلا تھا کہ آپ پر وحی نازل ہوگئی، پھر جس طرح (نزول وحی کے وقت) آپ پر پسینہ آتا تھا اس طرح آپ پر پسینہ آگیا، وہ بہت سخت سردی کا دن تھا پھر بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے سے موتیوں کی طرح پسینہ کے قطرے ٹپکنے لگے، ان آیات کے ثقل کی وجہ سے جو آپ پر نازل ہو رہی تھیں، پھر جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کیفیت منقطع ہوئی تو آپ ہنس رہے تھے، پھر جو پہلی بات آپ نے کہی وہ یہ تھی اے عائشہ ! بیشک اللہ عزوجل نے تم کو بری کردیا ہے، میری ماں نے کہا تم حضور کی طرف کھڑی ہو، میں نے کہا اللہ کی قسم میں حضور کی طرف کھڑی نہیں ہوں گی، اور میں اللہ عزوجل کے سوا اور کسی کی حمد نہیں کروں گی، پھر اللہ عزوجل نے یہ دس آیتیں نازل فرمائیں۔ ………(النور : ٢٠۔ ١١) جب اللہ عزوجل نے یہ دس آیتیں فرما دیں تو حضرت ابوبکر صدیق (رض) نے کہا مسطح نے عائشہ کے متعلق جو کچھ کہا ہے میں اس کے بعد اس پر کوئی چیز خرچ نہیں کروں گا، حضرت ابوبکر حضرت مسطح کو خرچ دیا کرتے تھے، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :
…………(النور : ٢٢ )
اور تم میں سے جو صاحب فضل اور کشادہ دست ہیں وہ قرابت داروں، مسکینوں اور اللہ کی راہ میں ہجرت کرنے والوں پر خرچ نہ کرنے کی قسم نہ کھائیں ان کو چاہیے کہ وہ معاف کردیں اور درگزر کریں، کیا تم نہیں چاہتے کہ اللہ تم کو بخش دے، او اللہ بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے۔
یہ آیت سن کو حضرت ابوبکر نے بےساختہ کہا کیوں نہیں ! بیشک میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ مجھے بخش دے، پھر حضرت ابوبکر، حضرت مسطح پر اسی طرح خرچ کرنے لگے جس طرح پہلے خرچ کرتے تھے اور حضرت ابوبکر نے کہا اللہ کی قسم میں مسطح پر اس خرچ کو کبھی بند نہیں کروں گا، حضرت عائشہ نے کہا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت زینت بن حجش سے میرے متعلق پوچھتے تھے، اے زینب کیا تم کو اس کی کسی بات کا عل ہے یا تم نے کوئی دیکھی ہے ؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ میں اپنے کانوں کی اور اپنی آنکھوں کی حفاظت کرتی ہیں، میں نے ان میں سواخیر اور نیکی کے اور کوئی چیز نہیں دیکھی، حضرت عائشہ نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج میں سے یہی وہ تھیں جو مجھ سے فائق اور برتر رہنا چاہتی تھیں، پس اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے تقویٰ اور پرہیز گاری کی وجہ سے محفوظ رکھا اور ان کی بہن حضرت حمنہ بنت حجش ان کی حمایت میں لڑتی تھیں، پس وہ تہمت لگانے والوں کے ساتھ ہلاک ہوگئیں۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٧٥، ٢٦٦١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٧٠، رقم الحدیث المسلسل : ٢٨٨٧، صفات المنافقین : ٥٦، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢١٣٨، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣١٨٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٣٤٧، ١٩٧٠، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٤٨٢١، عالم الکتب، مسند احمد ج ٢ ص ٦٠۔ ٥٩، قدیم، مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث : ٩٨١١، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٤٩٣١، ٤٩٢٩، صحیح ابن حبان رقم الحدیثـ: ٧١٠٠، المعجم الکبیر ج ٢٣ ص ١٥١۔ ١٣، سنن بیہقی ج ٧ ص ١٠١، تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر ج ٧ ص ٢٣١۔ ٢٢٨، رقم الحدیث : ٢٣٨٧، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ)
سورۃ نور کی ان دس آیات کی تفسیر اور اس حدیث کی تشریح میں ہم پہلے یہ بیان کریں گے کہ حضرت عائشہ (رض) کی برات میں وحی نازل ہونے سے پہلے بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت عائشہ (رض) کی اس تہمت سے برات کا علم تھا، اس کے بعد حضرت عائشہ (رض) کے فضائل بیان کریں گے، اس کے بعد اس حدیث سے مستنبط شدہ مسائل بیان کریں گے، پھر اس حدیث پر بعض علماء کے عقلی شبہات کا ازالہ کریں گے اور آخر میں حضرت عائشہ (رض) کے فضائل میں احادیث و آثار بیان کریں گے فنقول واباللہ التوفیق وبہ الاستعانۃ یلیق
سفر میں بیوی کو ساتھ لے جانے کے لئے قرعہ اندازی میں مذاہب
اس حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سفر میں کسی زوجہ کو ساتھ لے جانے کے لئے ازواجِ مطہرات کے درمیان قرعہ اندازی کرتے تھے،
علامہ یحییٰ بن شرف نووی لکھتے ہیں : امام مالک، امام شافعی، امام احمد اور جمہور علماء کے اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ بیویوں کو سفر میں لے جانے کے لئے قرعہ اندازی کرنا چاہیے اور اس سلسلہ میں بہ کثرت احادیث صحیحہ مشہورہ موجود ہیں، علامہ ابو عبید نے کہا کہ حضرت یونس، حضرت زکریا اور حضرت محمد و، تین انبیاء (علیہم السلام) نے اس پر عمل کیا ہے، علامہ ابن منذر نے کہا اس کے عمل پر بہ منزلہ اجماع ہے، امام ابوحنیفہ کے مشہور مذہب میں یہ باطل ہے، اور امام ابوحنیفہ سے اس کی اجازت بھی منقول ہے، امام ابوحنیفہ اور بعض دیگر علماء نے یہ کہا ہے کہ شوہر بغیر قرعہ اندازی کے اپنی جس بیوی کو چاہیے سفر میں ساتھ لے جاسکتا ہے کیونکہ یہ ہوسکتا ہے کہ ایک اس کے لئے سفر میں زیادہ مفید ہو اور دوسری بیوی گھر کے کام کاج اور گھر کی حفاظت میں زیادہ ماہر ہو، امام مالک سے بھی ایک یہی روایت ہے، علامہ ابن منذر نے کہا کہ قیاس کا بھی یہی تقاضا ہے، لیکن ہم نے احادیث پر عمل کیا ہے۔ (شرح مسلم ج ٢ س ٣٦٤، مطبوعہ کراچی )
مزہب احناف کی وضاحت علامہ عینی کے حوالے سے آرہی ہے ۔
نزول وحی سے پہلے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حضرت عائشہ کی برات کے متعلق علم، اور شبہات کے جوابات
اس حدیث میں ایک بحث یہ ہے کہ آیا نزول وحی سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت عائشہ (رض) کی پاکدامنی اور برات کا علم تھا یا نہیں ؟ سو اس مسئلہ میں تحقیق یہ ہے کہ نزول وحی سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عائشہ (رض) کی پاکدامنی کا یقینا علم تھا، کیونکہ جب اس مسئلہ پر بحث ہوئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
……(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٧٥٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٧٠)
بہ خدا مجھے اپنی اہلیہ میں پاکیزگی کے سوا اور کسی چیز کا علم نہیں ہے، اور انہوں نے جس شخص کے ساتھ تہمت لگائی ہے مجھے اس کے متعلق بھی صرف پاکیزگی کا علم ہے۔
باقی رہا یہ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جب حضرت ام المومنین کی پاکیزگی کا علم تھا تو آپ نے حضرت عائشہ کی طرف توجہ کم کیوں کردی تھی، اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کا ام المومنین کی طرف توجہ کم کرنا لاعلمی کی وجہ سے نہ تھا، بلکہ اس تہمت کے بعد آپ کی غیرت کا تقاضا یہ تھا کہ جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت عائشہ کی برات کا علان نہ ہوجائے اس وقت تک آپ توجہ کم رکھیں تاکہ کسی دشمن اسلام کو یہ کہنے کا موقع نہ ملے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس قسم کی تہمت سے کوئی نفرت نہیں تھی۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر آپ کو حضرت ام المومنین کی برات کا پہلے سے علم تھا تو آپ نے اس مسئلہ میں اصحاب سے استصواب کیوں کیا اور حضرت بریرہ سے حضرت عائشہ کے چال چلن کے متعلق استفسار کیوں کیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ سب اس لئے کیا تھا کہ کسی دشمن اسلام کو یہ کہنے کی گنجائش نہ ہو کہ دیکھو جب ان کے اپنے اہل پر تہمت لگی تو انہوں نے اس کے متعلق کوئی تحقیق اور تفتیش نہیں کی، آپ نے اس مسئلہ کی پوری تحقیق کی اور تفتیش کے تمام تقاجوں کو پورا کیا، حضرت عائشہ کی سوکن (حضرت زینت بن حجش) حضرت عائشہ کی خادمہ بریرہ اور دیگر قریبی ذرائع سے حضرت عائشہ کے چال چلن کے متعلق استفسار کیا حتیٰ کہ سب نے حضرت امام المومنین کی برات اور پاکیزگی کا اظہار کیا اور سب نے بیک زبان کہا کہ ہم حضرت عائشہ کے متعلق پاکیزگی کے سوا اور کچھ نہیں جانتے۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت عائشہ کی پاکیزگی کا علم تھا آپ نے حضرت عائشہ (رض) سے یہ کیوں فرمایا اگر تم سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے توبہ کرلو، اس کا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد بھی اتمام حجت کے لئے تھا اور اس قول کا مطلب یہ ہے کہ اگر بفرض محال تم سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہے، تو اللہ تعالیٰ سے توبہ کرلو، قرآن مجید میں اس قسم کی بہ کثرت مثالیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
………(یونس : ٩٤)
تو اگر آپ کو (بالفرض) اس چیز کے متعلق شک ہو جس کو ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تو آپ ان لوگوں سے سوال کیجئے جو آپ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ انبیاء کرام سے عہد لینے کے بعد فرماتا ہے :
………(زخرف)
آپ فرمائیے ! اگر (بہ فرض محال) رحمن کی کوئی اولاد ہوتی تو میں سب سے پہلے (اس کی) عبادت کرتا۔
سو اسی اعتبار سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر بالفرض تم سے کوئی گناہ ہوگیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے توبہ کرلو ! اور یہ تحقیق اور تفتیش کے تمام تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے فرمایا تھا، اور اس ارشاد میں امت کے لئے نمونہ رکھنا تھا کہ اپنے اہل کی رعایت سے تحقیق میں کوئی کمی نہ کی جائے اور یہ تعلیم دینی تھی کہ اگر کسی شخص کی بیوی سے غلطی ہوجائے تو وہ اس کو توبہ کی تلقین کرے اور یہ مسئلہ بتلانا تھا کہ جس شخص سے یہ غلطی سرزد ہوجائے وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرے تو اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردے گا۔
چوتھا سوال یہ ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کے جواب میں یہ کہا تھا کہ ” تم لوگوں نے یہ بات سنی ہے اور تمہارے دلوں میں یہ بات قرار پکڑ چکی ہے اور تم نے اس کی تصدیق بھی کردی ہے کہ اگر میں تم سے کہوں کہ میں بےگناہ ہوں تو تم ہرگز میری تصدیق نہ کرو گے “ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ (رض) کے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت عائشہ کی پاکدامنی کا علم نہیں تھا، اس کا جواب یہ ہے کہ معاذ اللہ ! اس خطاب میں حضرت عائشہ (رض) کا روئے سخن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف نہیں تھا، اس قول میں اگرچہ خطاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تھا لیکن یہ خطاب ان لوگوں کے لئے تھا جو مسلمان ہونے کے باوجود منافقین کے بہکانے سے تہمت لگانے میں مبتلا ہوگئے تھے۔
پانچواں سوال یہ ہے کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت عائشہ کی برات اور پاکیزگی کا علم تھا تو آپ اس قدر پریشان اور غمگین کیوں رہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ غم اور صدمہ کی وجہ یہی تو تھی کہ بےگناہ پر تہمت لگی ہے، نیز زیادہ غم اور پریشانی کا سبب یہ تھا کہ بعض مسلمان بھی تہمت لگانے والوں میں شامل ہوگئے تھے، ایسے میں اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) از خود حضرت عائشہ (رض) کی برات کا اعلان کرتے تو یہ خدشہ تھا کہ وہ مسلمان آپ کے متعلق یہ بدگمانی کرتے کہ آپ اپنے اہل کی رعایت فرما رہے ہیں اور آپ کے متعلق بدگمانی کرکے کافر ہوجاتے۔
کسی نبی کی زوجہ نے کبھی بدکاری نہیں کی
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت عائشہ (رض) کی پاک دامنی کا علم تھا اس پر ایک قوی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ کسی نبی کی بیوی نے کبھی بدکاری نہیں کی۔ تو جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہر نبی کی زوجہ کی پاک دامنی کا علم ہے تو اپنی زوجہء مطہرہ کی پاک دامنی کا علم کیسے نہیں ہوگا !
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
……(جامع البیان رقم الحدیث : ٢٦٧١٠، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)
ضحاک بیان کرتے ہیں کہ کسی نبی کی بیوی نے کبھی بدکاری نہیں کی۔
امام ابو لحسن بن احمد الواحدی نیشاپوری متوفی ٤٦٨ ھ بیان کرتے ہیں :
………(الوسیط ج ٤ ص ٣٢٢، مطبوعہ دارلکتب العلمیہ بیروت ١٤١٥ ھ)
حضرت ابن عباس (رض) عنھما نے فرمایا کسی نبی کی بیوی نے کبھی بدکاری نہیں کی۔
امام الحسین بن مسعود الفراء بغوی المتوفی ٥١٦ ھ نے بھی اس روایت کا ذکر کیا ہے۔
(معالم النتزیل ج ٤ ص ٣٣٨، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٤ ھ)
ابو القاسم محمود بن عمر الرمخشری الخوارزمی المتوفی ٥٣٨ ھ نے بھی اس روایت کا ذکر کیا ہے
(الکشاف ج ٤ ص ٥٧٦، مطبوعہ دار احیاء الثراث العربی بیروت ١٤١٧ ھ)
حافظ ابو القاسم علی بن الحسن المعروف بابن عساکر المتوفی ٥٧١ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
(تاریخ دمشق الکبیر ج ٥٣ ص ٢٤٤، رقم الحدیث : ١١٧٢٢، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ)
امام ابن جریر اور حافظ ابن عساکر کے حوالوں سے امام ابن جوزی متوفی ٥٩٧ ھ امام رازی متوفی ٦٠٦ ھ، علامہ قرطبی متوفی ٢٢٨، علامہ خازن متوفی ٧٢٥ ھ، علامہ ابو الحیان اندلسی متوفی ٧٥٤ ھ، حافط ابن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ، علامہ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ، شیخ محمد بن عیل بن محمد شوکانی متوفی ١٢٥٠ ھ علامہ آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ اور نواب صدیق حسن کا ں بھوپالی متوفی ١٣٠٧ ھ نے بھی اپنی تفاسیر میں اس حدیث کا ذکر کیا ہے۔
(زاد المسیر ج ٨ ص ٣١٥، تفسیر کبیر ج ٨ ص ٥٧٥، الجامع الاحکام القرآن جز ١٨ ص ١٨٦، الباب التاویل ج ٤ ص ٢٨٨، البحر المحیظ ج ١٠ ص ٢١٥، تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٤٣٣، الدر المنثورج ٨ ص ٢٢٨، فتح القدیر ج ٥ ص ٣٤١، روح المعانی جز ٢٨ ص ٢٤١ فتح البیان ١٤ ص ٢٢١، طبع جدید)
علامہ یحییٰ بن شرف نووی متوفی ٦٧٦ ھ نے بھی اس حدیث کا ذکر ہے۔ (شرح مسلم ج ٢ ص ٣٦٨، مطبوعہ کراچی)
خلاصہ یہ ہے کہ امام ابن منذر اور امام ابن عساکر اور دیگر ائمہ نے اپنی سندوں کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) عنما سے روایت کیا ہے کہ ” کسی نبی کی بیوی نے کبھی بدکاری نہیں کی “ تو پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی زوجہ مطہرہ حضرت ام المومنین عائشہ (رض) کی پاکد دامنی اور اس تہمت سے برات کے متعلق کیسے علم نہیں ہوگا !
حضرت عائشہ کی برأت پر علماء اہل سنت کے دلائل
امام رازی متوفی ٦٠٦ ھ اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
حضرت عائشہ کا نبی معصوم و کی زوجہ ہونا اس فاحشہ کے ارتکاب سے مانع ہے، کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کفار کو دین حق کی طرف دعوت دینے کے لئے مبعوث ہوئے ہیں اس لئے وجب ہے کہ ان میں کوئی ایسا عیب نہ ہو جو لوگوں کو ان سے متنفر کرے اور جس شخص کی بیوی بدکار ہو اس سے لوگ بہت نفرت کرتے ہیں، اگر یہ سوال ہو کہ نبی کا کافرہ ہونا کیوں جائز ہے جیسا کہ حضرت نوح اور حضرت لوط علیما السلام کی بیویاں کافرہ تھیں اور جب ان کا کافرہ ہونا جائز ہے تو فاجرہ ہونا کیوں جائز نہیں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ کفار کے نزدیک کفر موجب نفرت نہیں ہے اور بیوی کا فاجرہ ہونا ان کے نزدیک بھی موجب نفرت ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ اس واقعہ سے پہلے حضرت عائشہ کا یہ حال معروف تھا کہ وہ فحش کاموں کے اسباب اور محرکات سے بہت دور اور بالکل محفوظ تھیں اور جس شخصیت کا یہ حال معروف ہو اس کے ساتھ حسن ظن کرنا واجب تھا۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ اس فاحشہ کی تہمت لگانے والے منافقین اور ان کے متبعین تھے اور یہ بات معلوم ہے کہ دروغ گو دشمن کی اڑائی ہوتئی بات بےبنیاد ہوتی ہے، ان قرائن سے یہ معلوم ہوگیا کہ اس تہمت کا جھوٹا ہونا آپ کو نزول وحی سے پہلے ہی معلوم تھا۔
تہمت لگانے والوں میں رئیس المنافقین عبد اللہ ابن ابی بن سلول، زید بن رفاعہ، حسان بنثابت، مسطح بن اثاثہ، حنہ بنت حجش اور ان کے موافقین تھے۔
علامہ ابو البرکات نسفی لکھتے ہیں :
روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا کہ مجھے منافقین کے جھوٹ کا یقین ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس بات سے محفوظ رکھا ہے کہ آپ کے جسم پر مکھی بیٹھے، کیونکہ مکھی نجاست پر بیٹھ کر نجاست سے آلودہ ہوتی ہے، تو جب اللہ تعالیٰ نے اتنی معمولی نجاست والی چیز کے مس سے آپ کو محفوظ رکھا ہے تو آپ کو اس فاحشہ کے ساتھ متلوث ہونے والی عورت سے کیسے محفوظ نہیں رکھے گا، حضرت عثمان نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سائے کو زمین پر پڑنے سے محفوظ رکھا ہے تاکہ کسی انسان کا اس سائے پر قدم نہ پڑے تو جب کسی شخص کے لئے آپ کے سائے پر قدم رکھنا ممکن نہیں ہے تو کسی شخص کے لئے آپ کی زوجہ کی عزت کو پامال کرنا کس طرح ممکن ہوگا، اور حضرت علی (رض) نے کہا اللہ تعالیٰ نے جبریل کو بھیج کر آپ کو یہ خبر دی کہ آپ کے نعلین میں گھنائونی چیز ہے اور آپ کو یہ حکم دیا کہ آپ اپنے پیر سے وہ جوتی اتار دیں تاکہ آپ کے پیر میں وہ گھن والی چیز نہ لگے تو اگر بالفرض آپ کی زوجہ اس فاحشہ سے متلوث ہوگئی ہوتیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو ان سے الگ ہونے کا حکم ضرور دیتا، اور حضرت ابو ایوب انصاری نے اپنی بیوی سے کہا کیا تم کو اس چیز کی خبر ہے ؟ ان کی بیوی نے کہا یہ بتائو اگر تم حضرت صفوان بن معطل کی جگہ ہوتے تو کیا تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حرم محترم کے ساتھ کسی فاحشہ کا ارادہ کرسکتے تھے ؟ انہوں نے کہا ہرگز نہیں ! انہوں نے کہا کہ اگر میں حضرت عائشہ کی جگہ ہوتی تو کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ خیانت کا ارادہ نہ کرتی اور حضرت عائشہ مجھ سے افضل ہیں اور حضرت صفوان تم سے افضل ہیں تو ان کے متعلق اس فاحشہ کا تصور کیسے ہوسکتا ہے۔ (مدارک التنزیل ج ٣ ص ٣٤٣ )
حضرت عائشہ کی برأت پر علماء شیعہ کے دلائل
شیعہ مفسرین میں سے شیخ الطائفہ ابو جعفر طوی متوفی ٤٦٠ ھ لکھتے ہیں :
…………(التبیان ج ٣ ص ٣٤٣، دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤٠٣ ھ)
شیخ فتح اللہ کاشانی لکھتے ہیں :
یہ تہمت لگانے والے ظاہر اور باطن میں جھوٹے تھے، کیونکہ اگر وہ گواہ پیش کر ردیتے تو ظاہر میں تو جھوٹے نہ ہوتے لیکن باطن میں جھوٹے ہوتے، کیونکہ انبیاء (علیہم السلام) کی ازواج کے لئے یہ صورت ممتنع ہے اور جب وہ گواہ پیش نہیں کرسکے تو باطن کی طرح ظاہر میں بھی جھوٹے ہوئے۔ (منج الصادقین ج ٦ ص ٢٨٣۔ ٢٨٢، مطبوعہ خیابان ناصر خسرو ایران)
نیز شیخ کاشانی لکھتے ہیں :
کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج سے فاحشہ کا صدور لوگوں کی حضور سے نفرت کا موجب ہے، اور انبیاء (علیہم السلام) کفار کی طرف اس لئے بھیجئے جاتے ہیں کہ ان کو اللہ کے دین کی دعوت دیں، اس لئے واجب ہے کہ وہ ان چیزوں سے محفوط رہیں جو کفار کے تنفر کا موجب ہو اور بدکاری سب سے زیادہ تنفر کا موجب ہے، اس کے برخلاف کفر ان کے نزدیک تنفر کا موجب نہیں ہے، اس لئے واجب ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی ازواج اس فاحشہ سے محفوظ ہوں، اور یہ لازم نہیں ہے کہ وہ کفر سے بری ہوں۔ (منہج الصادقین ج ٦ ص ٢٨٤)
کیونکہ اللہ تعالیٰ حضرت عائشہ کو بری کردے گا اور ان کو ان کے صبر کرنے پر اجر عطا فرمائے گا اور تہمت لگانے والوں کو وہ سزا ملے گی جس کے وہ مستحق ہوئے ہیں۔ (مجمع البیان ج ٧ س ٢٠٦)
حضرت عائشہ (رض) کے فضائل
علامہ آلوسی لکھتے ہیں : ان آیات میں حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ (رض) کی بہت بڑی فضیلت ہے، اگر تم تمام قرآن کو کھنگال کر دیکھو تو تمہیں علم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی معصیت پر اتنی سخت وعید نازل نہیں فرمائی جتنی حضرت عائشہ کی تہمت پر وعید نازل فرمائی ہے اور جتنی سختی کے ساتھ اس سے منع فرمایا ہے اور یہ بھی حضرت عائشہ (رض) کی فضیلت ہے۔
امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا : میرے کچھ ایسے خصوصی فضائل ہیں جو اور کسی میں نہیں ہیں، البتہ جو چیزیں اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم بنت عمران کو عطا فرمائیں وہ مستثنی ہیں اور میں یہ نہیں کہتی کہ میں ان اوصاف کی وجہ سے دیگر ازواجِ مطہراتِ پر فخر کرتی ہوں، پوچھا گیا وہ کیا ہیں ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا : فرشتہ میری صورت لے کر نازل ہوا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سات سال کی عمر میں مجھ سے نکاح کیا نو سال کی عمر میں میری رخصتی ہوئی، میرے علاوہ اور کسی کنواری عورت کا حضور سے نکاح نہیں ہوا، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بستر پر تھی تو آپ پر وحی نازل ہوئی، میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک لوگوں میں سب سے زیادہ محبوب تھی، میرے متعلق قرآن مجید میں (دس) آیات نازل ہوئیں، میرے سو ازواجِ مطہرات میں سے کسی نے بھی حضرت جبریل کو نہیں دیکھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا میرے حجرے میں وصال ہوا، میرے اور فرشتے کے سوا اور کوئی آپ کے قریب نہیں تھا۔
(روح المعانی جز ١٨ ص ١٩٥۔ ١٩٤، دار الفکر، ١٤١٧ ھ)
امام رازی لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے چار شخصوں کی برأت بیان کی، حضرت یوسف (علیہ السلام) کی برأت ایک شاہد کی زبان سے بیان کی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف یہود نے ایک مکروہ بیماری کی نسبت کردی تو ان کی برأت ایک پتھر نے بیان کی، حضرت مریم کی برأت ان کے بیٹے نے بیان کی اور حضرت عائشہ کی برأت اللہ تعالیٰ نے قرآن مید کی دس آیات میں بیان کی جن کی قیامت تک تلاوت ہوتی رہے گی، روایت ہے کہ جب حضرت عائشہ (رض) کی وفات کا وقت قریب آیا تو حضرت ابن عباس نے آنے کی اجازت طلب کی، حضرت عائشہ نے فرمایا اب وہ آئے گا اور میری تعریف کرے گا، حضرت ابن الزبیر نے حضرت ابن عباس کو یہ بتایا، حضرت ابن عباس نے کہا جب تک ام المؤمنین مجھ کو اجازت نہیں دیں گی، میں نہیں آئوں گا، حضرت عائشہ نے اجازت دے دی، حضرت ابن عباس آئے تو حضرت عائشہ نے کہا میں دوزخ کے عاب سے اللہ کی پناہ مانگتی ہوں، حضرت ابن عباس نے کہا اے ام المؤمنین آپ کو دوزخ کے عذاب سے کیا خطرہ ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوزخ کے عذاب سے پناہ دے دی ہے، اور آپ کی برأت کے متعلق قرآن مجید میں آیات نازل کی ہیں جن کی مسجدوں میں تلاوت کی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو طیب قرار دیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : طیبات، طیبین کے لئے ہیں اور طیبون، طیبات کے لئے ہیں اور آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک ازواجِ مطہرات میں سب سے زیادہ محبوب تھیں، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طیب کے سوا کسی چیز سے محبت نہیں کرتے تھے، اللہ تعالیٰ نے آپ کے سبب سے تیمیم کا حکم نازل کیا اور فرمایا صعید ” پاک مٹی “ سے وضو کرو، (نیز آپ کی وجہ سے حد قذف مقرر ہوئی) روایت ہے کہ حضرت عائشہ اور حضرت زینب نے اپنی اپنی فضیلت بیان کی، حضرت زینب نے فرمایا میں وہ ہوں جس کا اللہ تعالیٰ نے نکاح کیا اور حضرت عائشہ نے فرمایا میں وہ ہوں جس کی اللہ تعالیٰ نے برأت بیان کی، جب ابن المعطل نے مجھے سواری پر سوار کیا، حضرت زینب نے پوچھا آپ نے سوار ہوتے وقت کیا کہا تھا، حضرت عائشہ نے فرمایا میں نے کہا تھا : حسبی اللہ ونعم الوکیل حضرت زینب نے کہا یہی مومنو کی نشانی ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٣٥٣، دار احیاء التراث العربی، ١٤١٥ ھ)
حدیث افک سے استنباط شدہ مسائل
علامہ یحییٰ بن شرف نووی لکھتے ہیں اس حدیث سے حسب ذیل مسائل مستنبط ہوتے ہیں :
(١) اس طویل حدیث کے تعد قطعات کو راویوں نے بیان کیا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ حدیث کی تقطیع کرنا جائز ہے، اور اس کے جواز پر اجماع ہے۔
(٢) ازواج کو سفر میں لے جانے کے لئے قرعہ اندازی کرنے کا جواز۔
(٣) خواتین کے غزوات میں شریک ہونے کا جواز۔
(٤) خواتین کے اونٹ پر سوار ہونے اور کجاوہ میں بیٹھنے کا جواز۔
(٥) سفر میں مردوں کا خواتین کی خدمت کرنے کا جواز۔
(٦) لشکر کی روانگی کا امیرے کے حکم پر موقوف ہونا۔
(٧) بیوی کا قضاء حاجت کے لئے شوہر کی اجازت کے بغیر جنگل میں جانے کا جواز۔
(٨) خواتین کے لئے سفر میں ہار پہننے کا جواز۔
(٩) غیر محرم کا عورت کو کجاوہ میں بٹھانے کا جواز اور یہ کہ غیر محرم سفر میں عورت کیساتھ بلا ضرورت بات نہ کرے۔
(١٠) عورتوں کے کم کھانے کا استحسان تاکہ جسم پر گوشت کی تہیں نہ چڑھیں۔
(١١) بعض آدمیوں کو لشکر کے پیچھے رکھنا تاکہ اگر کوئی شخص لشکر سے بچھر جائے تو وہ اس کو لشکر کے ساتھ لاحق کردے۔
(١٢) غمگین کی مدد کرنا، جو قافلہ سے بچھڑ گیا ہو اس کو قافلہ سے لاحق کرنا اور صاحب اقتدار کی تکریم کرنا جیسا کہ حضرت صفوان نے کیا۔
(١٣) خواتین کے ساتھ حسن ادب سے پیش آنا خصوصاً جنگل کی تنہائی میں، جیسا کہ حضرت صفوان نے از خود بغیر کہے سنے اونٹ کو بٹھایا اور اونٹ کے پیچھے پیچھے چلے۔
(١٤) ایثار کا بیان کیونکہ حجرت صفوان خود پیدل چلے اور حضرت عائشہ کو سوار کرایا۔
(١٥) دین اور دنیا کی کسی بھی مصیبت کے وقت انا للہ الیہ راجعون کہنے کا استحباب۔
(١٦) اجنبی شخص خواہ صالح ہو یا نہ ہو اس سے چہرہ کے پردہ کا بیان، کیونکہ حضرت عائشہ نے حضرت صفوان کو دیکھ کر اپنی چادر میں چہر چھپالیا۔
(١٧) بغیر طلب کے قسم کھانے کا بیان۔
(١٨) کسی شخص نے کسی پر تہمت لگائی ہو تو اس کا اس شخص سے ذکر نہ کرنے کا استحباب، کیونکہ ایک ماہ تک حضرت عائشہ (رض) کو اس تہمت کے متعلق نہیں بتایا گیا۔
(١٩) خاوند کا بیوی کے ستھ حسن معاشرت اور لطف کے ساتھ پیش آنا۔
(٢٠) جب بیوی کے متعلق کوئی تہمت سنی جائے تو اس سے لطف میں کمی کرنا، تاکہ بیوی اس کی وجہ دریافت کرے اور سبب پر مطلع ہونے کے بعد اس کا ازالہ کرے۔
(٢١) مریض سے اس کا حال پوچھنے کا استحباب۔
(٢٢) عورت جب جنگل میں قضاء حاجت کے لئے جائے تو رفاقت کے لئے اپنے ساتھ کسی خاتون کو لے جائے۔
(٢٣) اگر کسی شخص کا کوئی عزیز یا رشتہ دار کسی معزز شخص کو اذیب دے تو اس کو برا جاننا جس طرح حضرت مسطح کی ماں نے مسطح کی تہمت لگانے کا برا جانا۔
(٢٤) اہل بدر کی فضلیت اور ان کی طرف سے دفاع کرنا جیسا کہ حضرت عائشہ نے حضرت مسطح کی طرف سے دفاع کیا۔
(٢٥) اہل بدر کی مغفرت کا علان اس بات کو مستلزم نہیں کہ بعد میں وہ وہ گناہ کریں گے اور ان کو دنیاوی سزا نہیں ملے گی، کیونکہ حضرت مسطح نے تہمت لگائی اور ان پر حد قذف جاری ہوئی، البتہ ان کو موت سے پہلے تو بہ کی توفیق دی جائے گیا اور خاتمہ ایمان پر ہوگا۔
(٢٦) کسی قانون کا موثر بہ ماضی ہونا، کیونہ حد قذف کا حکم نازل ہونے سے پہلے جنہوں نے تہمت لگائی تھی ان پر بھی حد جاری کی گئی۔
(٢٧) بیوی کا اپنے میکے جانے کے لئے خاوند سے اجازت طلب کرنا۔
(٢٨) تعجب کے موقع پر سبھان اللہ کہنا۔
(٢٩) کسی شخص کا اپنا خانگی امور میں اپنے احباب اور عزیزوں سے مشورہ کرنا۔
(٣٠) کسی تہمت کے متعلق تحقیق اور تفتیش کرنا اور کسی کے احوال معلوم کرنا، البتہ بلا ضرورت تجسس کرنا منع ہے۔
(٣١) کسی پیش آمدہ حادثہ کے متعلق امام کا لوگوں سے خطاب کرنا۔
(٣٢) اگر کشی شخص کی طرف سے مسلمانوں کے امیر کو اذیت پہنچی ہو تو اس کی مسلمانوں سے شکایت کرنا۔
(٣٣) حضرت صفوان بن معطل (رض) کے فضائل جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شہادت اور حضرت عائشہ کے بیان سے ظاہر ہوئے۔
(٣٤) حضرت سعد بن معاذ اور حضرت اسید بن حضیر (رض) کی فضیلت۔
(٣٥) فتنہ کو بند کرنا، لوگوں کے جوش اور غضب کو ٹھنڈا کرنا اور لڑائی جھگرے کو بند کرانا۔
(٣٦) توبہ پر برانگیختہ کرنا اور توبہ کی قبولیت۔
(٣٧) بڑوں کی موجودگی میں چھوٹوں کا بڑوں کی طرف کلام کو مفوض کرنا، چناچہ حضرت عائشہ نے اپنے والدین سے کہا کہ وہ حضور سے بات کریں۔
(٣٨) قرآن مجید کی آیات سے استشہاد کرنا۔
(٣٩) جس شخص کو کوئی تازہ نعمت ملی ہو یا اس سے کوئی مصیبت دور ہوئی ہو اس کو مبارک باد دینا۔
(٤٠) حضرت عائشہ (رض) کی تہمت سے برأت، قطعی برأت ہے جو قرآن مجید میں منصوص ہے، سو جو انسان اس میں شک کرے گا وہ العیاذ باللہ کافر ہوجائے گا، حضرت ابن عباس وغیرہ نے کہا کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) میں سے کسی نبی کی زوجہ نے کبھی بدکاری نہیں کی، اور یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے۔
(٤١) جب کوئی تازہ نعمت ملے تو اس پر فوراً شکرادا کرنا، جس طرح عائشہ نے برأت کی آیات نازل ہونے کے بعد اللہ کا شکر ادا کیا۔
(٤٢) ولا یاتل اولو الفضل۔ میں حضرت ابوبکر کی فضیلت کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو صاحب فضل فرمایا۔
(٤٣) رشتہ دار اگرچہ بدسلوکی کریں پھر بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا، جیسا کہ حضرت ابوبکر کو حضرت مسطح کے ساتھ حسن سلوک کا حکم ہوا۔
(٤٤) لوگوں کو بدسلوکی کو معاف کرنا اور درگزر کرنے کا بیان۔
(٤٥) نیکی کے راستہ میں صدقہ اور خیرات کرنے سے استحباب۔
(٤٦) اگر کوئی شخص نیکی نہ کرنے کی قسم کھا لئے تو مستحب یہ ہے کہ وہ نیکی کرے اور قسم کا کفارہ دے، جس طرح حضرت ابوبکر نے کیا۔
(٤٧) حضرت ام المومنین زینب (رض) کی فضیلت
(٤٨) حضرت عائشہ (رض) کے خلق کی عظمت کیونکہ حضرت حسان کے تہمت لگانے کے باوجود حضرت عائشہ ان کی طرف سے مدافعت کرتی تھیں۔
(٤٩) مسلمانوں کا اپنے امیر کے اہل کی عزت و حرمت کے لیے غضب ناک ہونا، جس طرح حضرت سعد بن معاذ اور دیگر صحابہ غضب میں آئے۔
(٥٠) متعصب کو سب کرنے کا جواز جیسا کہ حضرت اسید بن حضیر نے حضرت سعد بن عبادہ سے کہا تم منافق ہو اور منافقوں کی طرف سے لڑ رہے ہو اور اس سے ان کی مراد نفاق حقیقی نہیں تھا۔ (شرح مسلم ج ص ٣٦٨۔ ٣٦٧، کراچی)
علامہ بدر الدین عینی لکھتے ہیں :
(١) علامہ نووی نے کہا ہے کہ امام ابوحنیفہ کا مشہور مذہب یہ ہے کہ سفر کے لیے ازواج میں قرعہ اندازی کرنا باطل ہے اور ان سے اجازت کی بھی حکایت ہے اور علامہ ابن مذر وغیرہ نے کہا کہ قیاس کا تقاضا قرعہ اندازی کو ترک کرنا ہم نے احادیث پر عمل کیا ہے۔ (علامہ عینی فرماتے ہیں) میں کہتا ہوں کہ امام ابوحنیفہ کا مشہور مذہب قرعہ اندازی کو باطل کرنا نہیں ہے، اور امام ابوحنیفہ نے یہ نہیں کہا بلکہ انہوں نے یہ کہا ہے کہ قیاس قرعہ اندازی کے خلاف ہے کیونکہ اس میں بیوی کے ساتھ لے جانے کو قرعہ پر معلق کرنا ہے اور یہ قمار ہے اس سے بیوی کے ساتھ جانے کا استحقاق ثابت نہیں ہوتا لیکن ہم نے احادیث کی بنا پر اس قیاس کو ترک کردیا، اور اس تعامل کی وجہ سے جس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد سے لے کر آج تک بغیر کسی اختلاف کے عمل ہوتا آیا ہے اور یہ احادیث اس پر محمول ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ازواج کی خوشنودی کے لیے ایسا کیا، اور اس پر دلیل یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر حضر میں بھی ازواج مطہرات کی باری میں مساوات واجب نہیں تھی اور قدوری میں یہ لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ سے یہ روایت ہے کہ سفر میں ازواج کا کوئی حق نہیں اور خاوند کی مرضی ہے وہ جس زوجہ کو چاہے سفر میں لے جائے اور علامہ اقطع نے اس کی شرح میں یہ لکھا کیونکہ خاوند پر یہ واجب نہیں ہے کہ وہ ان میں سے ایک معین کو سفر میں اپنے ساتھ لے جائے اور اولیٰ اور مستحب یہ ہے کہ ان کی خوشنودی کے لیے ان کے درمیان قرعہ اندازی کرے۔
(٢) عورتوں کا کسی ایک کو نیک قرار دینا جائز ہے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بریرہ اور حضرت ام المومنین زینب (رض) سے حضرت عائشہ کے متعلق پوچھا اور انہوں نے حضرت عائشہ کی فضیلت اور دین داری میں ان کے کمال کو بیان کیا، امام ابوحنیفہ نے اسی حدیث سے یہ استدلال کیا کہ بعض عورتوں کا بعض دوسری عورتوں کو نیک قرار دینا اور ان کو تعدیل کرنا جائز ہے۔
(٣) جو شخض رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو آپ کی اہلیہ یا آپ کی عزت کے متعلق ایذاء دے اس کو قتل کردیا جائے گا کیونکہ حضرت اسید بن حضیر (رض) نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے یہ کہا کہ اگر یہ شخص اوس میں سے ہے تو اس کو قتل کردیں گے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو رد نہیں کیا اور علامہ ابن بطال نے یہ کہا کہ اسی طرح جو شخص حضرت عائشہ (رض) کو اس چیز کے ساتھ سب کرے جس سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بری کردیا اس کو بھی قتل کردیا جائے گا کیونکہ وہ شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تکذیب کر رہا ہے، علامہ مہلب نے کہا میرا نظریہ یہ ہے کہ ازواج مطہرات میں سے جس زوجہ پر بھی زنا کی تہمت لگائی جائے گی اس تہمت لگانے والے کو قتل کردیا جائے گا۔
(٤) صبر جمیل کی دنیا اور آخرت میں تعریف اور تحسین ہے۔
(٥) جس شخص پر حد لگانے سے امت میں تفرقہ اور انتشار کا خدشہ ہو اس پر حد نہ لگائی جائے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابن سلول پر حد نہیں لگائی۔
(٦) کسی باطل چیز کا اعتراف کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ حضرت عائشہ نے کہا اگر میں اس گناہ کا اعتراف کرلوں حالانکہ اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ میں اس گناہ سے بری ہوں تو میری تصدیق کرو گے۔
(٧) وحی کا نزول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تابع نہیں تھا، کیونکہ اس موقع پر ایک ماہ تک آپ پر وحی نہیں کی گئی، اور یہ آپ کی نبوت کی دلیل ہے۔
(٨) عورتوں کا سون، چاندی موتی اور سپیوں کے زیورات پہننا جائز ہے۔
(٩) کسی گم شدہ چیز کو تلاش کرنا جس طرح حضرت عائشہ نے اپنے ہار کو تلاش کیا، اور مال کو ضائع ہونے سے بچانا جائز ہے۔
(١٠) کسی شخص کے متعلق جو خبر گشت کر رہی ہو اس کے متعلق تحقیق کرنا کہ آیا اس سے پہلے بھی اس نے ایسا کام کیا تھا یا نہیں۔ کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت بریرہ، حضرت اسامہ اور حضرت زینب وغیر ہم (رض) سے حضرت عائشہ (رض) کی تنہائی کے معمولات اور دیگر افعال کے متعلق سوالات کیے اور یہ کہ حکم ظاہری افعال پر لگایا جاتا ہے۔ (عمدۃ القاری جز ١٣ ص ٢٣٦۔ ٢٣٤ مصر ١٣٤٨ ھ)
حضرت عائشہ کا یہ کہنا کہ ” میں حضور کے لیے قیام نہیں کروں گی میں صرف اللہ کی حمد کروں گی “
جب حضرت عائشہ کی برات کے متعلق آیات نازل ہوئیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عائشہ ! اللہ کی حمد کرو اللہ نے تمہاری برات کردی ہے اور حضرت عائشہ کی والدہ نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم کے لیے کھڑی ہو تو حضرت عائشہ نے کہا بہ خدا میں ان کی طرف کھڑی نہیں ہوں گی اور میں صرف اللہ تعالیٰ کی حمد کروں گی۔
علامہ بدر الدین عینی اس کی شرح میں لکھتے ہیں۔
حضرت عائشہ کا یہ کلام بہ منزلہ عتاب تھا، کیونکہ مسلمانوں نے آپ کے معاملہ میں شک کیا حالانکہ ان کو حضرت عائشہ کی نیک چلنی اور پاکیزہ سیرت کا بخوبی علم تھا اور وہ جانتے تھے کہ ظالموں نے آپ پر جو بغیر کسی حجت اور دلیل کے جھوٹی تہمت لگائی ہے آپ کا دامن اس سے بری ہے۔ (علامہ عینی نے یہ عبارت علامہ نووی سے نقل کی ہے) (عمدۃ القاری جز ١٣ ص ١٣٤)
اس عبارت کے بعد علامہ نووی لکھتے ہیں :
حضرت عائشہ نے کہا میں صرف اپنے رب سبحانہ و تعالیٰ کی حمد کروں گی جس نے میری برات کو نازل کیا اور مجھ پر غیر متوقع انعام کیا، جیسا کہ حضرت عائشہ نے فرمایا تھا میں اپنے آپ کو اس سے بہت کم تر خیال کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے متعلق ایسی وحی نازل کرے گا جس کی تلاوت کی جائے۔ (شرح مسلم ج ٢ ص ٣٦٦ کراچی)
حضرت عائشہ نے جو فرمایا میں حضور کے سامنے کھڑی نہیں ہوں گی اور میں صرف اپنے رب کی حمد کروں گی اس کلام کے متعلق یہ وہم نہ کیا جائے کہ حضرت عائشہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم سے انکار کیا، معاذ اللہ ! یا آپ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ناراض تھیں جیسا کہ علامہ نووی اور علامہ عینی نے حضرت عائشہ کے اس کلام کو عتاب پر معمول کیا ہے، بلکہ حضرت عائشہ کا مطلب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اس پر جو عظیم احسان کیا ہے اور ان کو نعمت غیر مترقبہ عطا فرمائی ہے تو اس نعمت اور احسان پر سب سے پہلے صرف اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی حمد کرنی چاہیے ورنہ حضرت عائشہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم آپ کے شکر کا کیسے انکار کرسکتی ہے جبکہ یہ عظیم نعمت آپ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطے سے ہی ملی تھی، اس لیے آپ کے اس قول کا مطلب یہ تھا کہ میں سب سے پہلے آپ کی تعظیم اور آپ کا شکر نہیں بلکہ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اس کا شکر ادا کروں گی۔ !
حدیث افک پر بعض معاصرین کے اعتراضات
بعض معاصرین (قاضی عبدالدائم) نے حدیث مذکور پر آٹھ عقلی اعتراضات کیے ہیں اختصار کی وجہ سے ہم نے ان اعتراضات کا خلاصہ ان ہی کی کتاب سے نقل کیا ہے، اس کے بعد ہم اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی توفیق سے ان اعتراضات کے نمبر وار جواب عرض کریں گے۔
خدارا، بتائیے کہ میں اس روایت کو کیسے صحیح تسلیم کرلوں ! ! ! ؟
(١) وہ روایت جس میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبانی صدیقہ کائنات کو ان کنت الممت بذنب اور قارقت سے مخاطب کیا گیا ہو۔
(٢) وہ روایت جس کے مطابق رسول اللہ اپنی اس انتہائی چہیتی بیوی کو طلاق دینے کے بارے میں مشورہ کرنے لگے ہوں۔
(٣) وہ روایت جس میں حضرت علی کی طرف ایسا اشارہ منصوب کیا گیا ہو جس کا باب مدینۃ العلم سے تصور بھی نہ کیا جاسکتا ہو۔
(٤) وہ روایت جس کی رو سے رسول اللہ، صدیق اکبر (رض) اور ام رومان (رض) کو حضرت عائشہ سے گناہگار ہونے کا یقین ہو۔
(٥) وہ روایت جس میں حضرت منافقین کی الزام تراشی کو ام رومان (رض) نے خواہ مخواہ دیگر ازواج مطہرات کے سر منڈھ دیا ہو۔
(٦) وہ روایت جس حضرت حسان (رض) جیسے عندلیب باغ رسالت کو قذف صدیقہ جیسے مکروہ عمل میں ملوث کیا گیا ہو۔
(٧) وہ روایت جس میں اکابرین صحابہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں ایک دوسرے کو جھوٹا اور منافق کہتے دکھایا گیا ہو۔
(٨) وہ روایت جس میں سعد ابن عبادہ (رض) جیسے جلیل القدر صحابی اور ان کے پورے قبیلے خزرج کو رئیس المنافقین کا حامی ظاہر کیا گیا ہو۔
کیا ایسی روایات بھی صحیح اور قابل تسلیم ہوسکتی ہے ؟
اس روایت کے کرتا دھرتا ابن شہاب زہری ہیں جنہوں نے مختلف راویوں کے بیانات کو جوڑ جاڑ کر یہ ملغوبہ تیار کیا ہے، بعد میں اور لوگ بھی اس کو بیان کرنے لگ گئے۔ زہری صاحب کی اس روایت پر ہم کم از کم الفاظ میں جو تبصرہ کرسکتے ہیں وہ قرآنی الفاظ میں یہی ہے کہ :
ھذا افک مبین۔ یہ ایک کھلا ہوا جھوٹ اور افتراء ہے۔ (سید الوریٰ ج ٢ ص ٨٧۔ ٨٦ مطبوعہ برائٹ بکس لاہور ١٩٩٧ ء)
اعتراضات مذکورہ کے جوابات
(١) پہلا اعتراض یہ ہے کہ اس حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ سے فرمایا اگر تم سے گناہ سرزد ہوگیا ہے تو اللہ تعالیٰ سے توبہ اور استغفار کرو، حالانکہ اسی حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ دوران تفتیش نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا : اللہ کی قسم میں اپنی اہلیہ پر سوائے خیر اور نیکی کے اور کوئی چیز نہیں جانتا اور یہ تعارض بھی ہے اور معاذ اللہ حضرت عائشہ کے متعلق سوء ظن بھی ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کا یہ ارشاد اتمام حجت کے لیے تھا اور دشمنان اسلام کا منہ بند کرنے کے لیے تھا کہ دیکھو جب ان کی اپنی بیوی پر تہمت لگی تو اس کی انہوں نے کتنی رعایت کی اور اس ارشاد کا محمل یہ ہے کہ اگر بہ فرض محال تم سے یہ گناہ سرزد ہوگیا ہے تو تم اللہ تعالیٰ سے توبہ کرلو اور اس کی قرآن مجید میں بھی کئی مثالیں ہیں۔
فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ فَاسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَئُ وْنَ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِک سو اگر آپ کو (بہ فرض محال) اس کتاب میں شک ہو جس کو ہم نے آپ کی طرف نازل کیا ہے تو آپ ان لوگوں سے سوال کریں جو آپ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں۔
اس آیت کا ظاہر معنی یہ ہے کہ آپ کو قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے اور منزل من اللہ ہونے میں شک تھا اور اس شک کے ازالہ کے لیے آپ کو یہ تلقین کی گئی کہ آپ اپنے اطمینان کے لیے اہل کتاب سے معلومات کریں اور چونکہ اس آیت سے آپ کا قرآن میں شک کرنا ظاہر ہوتا ہے اور اپنے اطمینان کے لیے یہودیوں اور عیسائیوں کی طرف رجوع کرنے کا پتا چلتا ہے تو کیا اس بناء پر اس آیت کو بھی ترک کردیا جائے گا اور اس آیت کو بھی افک مبین اور کھلا ہوا جھوٹ قرار دیا جائے گا ! واضح رہے کہ قرآن مجید کے منزل من اللہ ہونے میں شک کرنا، حضرت عائشہ (رض) کی پاک دامنی میں شک کرنے کی بہ نسبت زیادہ سنگین اور زیادہ خطرناک ہے اور اگر اس آیت میں یہ توجیہہ کی جائے کہ اس کا معنی ہے اگر بہ فرض اس کتاب میں شک ہو تو ایسی توجیہہ اس حدیث میں کیوں نہیں ہوسکتی کہ اے عائشہ اگر بہ فرض محال تم سے گناہ سرزد ہوگیا ہے تو تم اللہ تعالیٰ سے توبہ اور استغفار کرلو کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اعتراف کر کے توبہ کرلیتا ہے تو اللہ اس کی توبہ قبول کرلیتا ہے اور اس میں امت کو یہ تعلیم دینی مقصود تھی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج مطہرات کو اس قبیح فعل سے سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے اور اس فعل کے ارتکاب پر انہیں دہرے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے اس کے باوجود جب حضرت عائشہ نے یہ فرمایا کہ اگر تم سے بالفرض اس کام کا صدور ہوگیا ہے تو تم توبہ کرو اللہ توبہ قبول فرمائے گا تو اگر امت کے کسی فرد سے یہ گناہ ہوجائے تو اس کو زیادہ پریشان اور مایوس نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اس کا گناہ ازواج مطہرات کے گناہ کی بہ نسبت آدھا ہے تو جب اس کا گناہ توبہ سے معاف ہوجائے گا تو اس کا گناہ بہ طریق اولیٰ معاف ہوجائے گا۔
(٢) دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس حدیث میں مذکور ہے کہ آپ چہیتی بیوی کو طلاق دینے کے لیے مشورہ کرنے لگے تھے، اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کا یہ مشورہ کرنا بھی دشمنان اسلام کا منہ بند کرنے کے لیے تھا جب نبی کی اپنی بیوی پر الزام لگا تو اس کی کوئی تفتیش اور تحقیق نہیں کی اور جانب داری سے کام لیا اور آپ کا یہ مشورہ اس لیے تھا کہ آپ کی حرم محترم کے متعلق آپ کے اصحاب کی آراء ظاہر ہوجائیں اور ان کے اذہان صاف ہوجائیں۔
(٣) تیسرا اعتراض یہ ہے کہ اس حدیث میں حضرت علی (رض) سے ایسا مشورہ منسوب کیا ہے جس کا آپ سے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، اس کا جواب یہ ہے کہ مشورہ اسی لیے کیا جاتا ہے کہ مختلف آراء ظاہر ہوں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں تو فرشتوں نے کہا کیا تو زمین میں ایسی مخلوق بنانے والا ہے جو زمین پر فساد کرے گی اور خون ریزی کرے گی فرشتوں نے بعض فساق یا سرکش جنوں پر تمام اولاد آدم کو قیام کرلیا ان کا یہ قیاس اور اجتہاد درست نہ تھا لیکن اس سے فرشتوں کے علم اور ان کے مقام پر کوئی اثر نہیں پڑا، اسی طرح حضرت علی (رض) کا قیاس اور اجتہاد یہ تھا کہ ہرچند کہ حضرت عائشہ اس تہمت سے بری ہیں اور آپ سے یہ ناپاک کام متصور بھی نہیں ہے لیکن آپ پر یہ لازم اور ضروری تو نہیں ہے کہ آپ ایسی عورت کو نکاح میں رکھیں جس پر زنا کا الزام لگ چکا ہو خواہ وہ الزام جھوٹا ہو، اس کے سوا اور بہت عورتیں ہیں جیسے فرشتوں نے کہا تھا ایسی مخلوق کو خلیفہ بنانے کی کیا ضرورت ہے تیری تسبیح اور تقدیس کرنے کے لیے بہت فرشتے ہیں فرشتوں کا جواب صحیح تھا نہ حضرت علی کا جواب صحیح تھا لیکن اس جواب سے نہ فرشتوں کے علم اور ان کے مقام پر کوئی زد پڑی نہ حضرت علی (رض) کے علم اور مرتبہ پر کوئی زد پڑی، اور فرشتوں کے اس جواب کی وجہ سے اس آیت کا انکار ہوگا نہ حضرت علی کے اس جواب کی وجہ سے اس حدیث کا انکار ہوگا نہ یہ آیت واجب الرد ہوگی نہ یہ حدیث واجب الرد ہوگی۔ یہ حضرت علی (رض) کی زیادہ سے زیادہ اجتہاد کی غلطی ہے اور وہ باعث ملامت نہیں جیسے حضرت اسامہ بن زید (رض) نے کلمہ پڑھنے کے باوجود ایک شخص کو اس گمان سے قتل کردیا تھا کہ اس نے جان کے خوف سے کلمہ پڑھا ہے۔ (صحیح البخاری : ٦٨٧٢، صحیح مسلم : ٩٦)
(٤) چوتھا اعتراض یہ ہے کہ اس حدیث کی رو سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، صدیق اکبر، اور ام رومان کو حضرت عائشہ (رض) کے گنہگار ہونے کا یقین تھا معاصر مذکور نے یہ بالکل غلط لکھا ہے اور حدیث پر صریح افتراء اور بہتان ہے اس حدیث میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جس کا معنی یہ ہو کہ اس نفوس قدسیہ کو حضرت عائشہ کے گنہگار ہونے کا یقین تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صراحتہً فرمایا : مجھے اپنے اہل پر سوا نیکی کے اور کسی چیز کا علم نہیں اور یہ جو آپ نے فرمایا تھا اگر تم سے گناہ سرزد ہوگیا ہے تو تم اللہ سے توبہ کرو اس کا مطلب ہم پہلے اعتراض کے جواب میں ذکر کرچکے ہیں اور حضرت صدیق اکبر اور حضرت ام رومان سے جب حضرت عائشہ نے کہا کہ آپ میری طرف سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جواب دیں تو انہوں نے کہا تھا کہ ہمیں علم نہیں کہ ہم رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کیا کہیں اس کا یہ معنی کیسے ہوگیا کہ ہمیں تمہارے گنہگار ہونے کا علم اور یقین ہے۔
(٥) پانچواں اعتراض یہ ہے کہ وہ روایت جس میں منافقین کی الزام تراشی کو ام رومان نے خواہ مخواہ دیگر ازواج مطہرات کے سر منڈھ دیا ہو اس کا جواب یہ ہے کہ ابھی تو آپ نے یہ کہا تھا کہ حضرت ام رومان کو حضرت عائشہ کے گنہگار ہونے کا یقین تھا اور ایک سطر بعد آپ یہ لکھ رہے ہیں کہ حضرت ام رومان نے منافقین کے اس الزام کو حضرت عائشہ کی حمایت میں دیگر ازواج کے سر منڈھ دیا۔ جب حضرت ام رومان کو حضرت عائشہ کے گنہگار ہونے کا یقین تھا تو انہوں نے آپ کے قول کے مطابق اس الزام کو دیگر ازواج مطہرات کی طرف کیوں منسوب کیا یہ آپ کے کلام میں کھلا ہوا تعارض ہے اور واقعہ یہ ہے کہ حضرت ام رومان نے ایسا کچھ نہیں کیا تھا حدیث میں اس طرح ہے کہ میں نے اپنی ماں سے پوچھا اے امی جان یہ لوگ کیسی باتیں کر رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا اے بیٹی حوصلہ رکھو کم ہی کوئی حسین عورت ہوگی جو اپنے شوہر کے نزدیک محبوب ہو اور اس کی سوکنیں بھی ہوں مگر وہ اس پر غالب آنے کی کوشش کرتی ہیں، حضرت ام رومان نے عام رواج کے مطابق یہ بات کہی تھی اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ یہ تہمت دیگر ازواج مطہرات نے لگائی یا ان کے ایماء پر لگائی گئی تھی، یہ بھی اس حدیث پر صریح افتراء اور بہتان ہے۔
(٦) وہ روایت جس میں حضرت حسان جیسے عندلیب باغ رسالت کو قذف صدیقہ جیسے مکروہ عمل میں ملوث کیا گیا ہو اس اعتراض کے جواب میں ہم پوچھتے ہیں کہ کیا چوری کرنا مکروہ عمل نہیں ؟ کیا شراب پینا مکرو عمل نہیں ہے ! کیا زنا کرنا مکروہ عمل نہیں ! ! بنو مخزوم کی ایک معزز عورت فاطمہ بنت اسود نے چوری کی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا ایک ہاتھ کاٹ ڈالا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٦٤٨، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٣٩٦، سنن النسائی رقم الحدیث : ٤٩٠٢) نعمیان یا ابن النعیان کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لایا گیا وہ نشہ میں تھے ان کو درخت کی شاخوں اور جوتوں سے مارا گیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٧٧٥) عبداللہ نام کا ایک شخص جس کا لقب حمار تھا انہوں نے شراب پی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو کوڑے (درخت کی شاخیں) مارے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٧٨٠) بنو اسلم کے ایک شادی شدہ شخص نے آپ کے سامنے زنا کا اعتراف کیا تو آپ کے حکم سے اس کو رجم کردیا گیا (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٨١٤، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٤١٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٤٣٣، مسند احمد رقم الحدیث : ١٥١٥٥) حضرت ماعز نے آپ کے سامنے آ کر زنا کا اعتراف کیا تو آپ کے حکم سے ان کو رجم کردیا گیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٨٢٤) ایک کنوارے شخص نے ایک شادی شدہ عورت کے ساتھ زنا کیا تو آپ کے حکم سے اس کنوارے کو سو کوڑے لگائے گئے اور اس عورت کو رجم کردیا گیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٨٦٧، سنسن ابودائود رقم الحدیث : ٤٤٤٥، سنسن الترمذی رقم الحدیث : ١٤٣٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٦٥٤٩ )
یہ نفوس قدسیہ جن پر چوری، شراب نوشی اور زنا کی حد جاری کی گئی ہے، یہ صحابہ کرام تھے ان پر تطہیر کے لیے حد جاری کی گئی اور اس لیے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں تمام نیک اعمال کے لیے اسوہ حسنہ اور نمونہ ہے اگر یہ حضران ان جرائم کے مرتکب نہ ہوتے تو آپ کی زندگی میں حد جاری کرنے کا نمونہ نہ ہوتا اور آپ کی زندگی میں تمام احکام شرعیہ کے نفاذ کا نمونہ نہ ہوتا سو جس طرح ان حضرات صحابہ پر یہ حدود جاری کی گئیں اسی طرح حضرت حسان، حضرت مسطح اور حضرت حمنہ پر حد قذف جاری کی گئی اور اس کے حد کے جاری ہونے سے ان کی تطہیر ہوگئی اور اس سے ان کے مرتبہ اور مقام میں کوئی کمی نہیں آئی، یہ تمام صحابہ آسمان ہدایت کے ستارے ہیں ان کے لیے جنت اور اللہ کی رضا کی بشارت ہے۔ ان کا ایک کلو جو صدقہ کرنا بھی بعد والوں کے احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرنے سے افض ہے اور بعد کے تمام اخیار امت پر ان کی گردراہ کو بھی نہیں پہنچتے۔
(٧) ساتواں اعتراض یہ ہے کہ وہ روایت جس میں اکابرین صحابہ کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موجودگی میں ایک دوسرے کو جھوٹا اور منافق کہتے ہوئے دکھایا گیا ہو اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام عظیم مکارم اخلاق کے باوجود انسان تھے اور کبھی کبھی وہ بشری تقاضے سے مغلوب ہو کر جذبات کے دھارے میں بہہ جاتے تھے لیکن جب ان کو سمجھایا جاتا تو وہ پھر باہم شیر و شکر ہوجاتے تھے اس کی نظیر یہ آیت ہے۔
وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَاج فَاِنْمبَغَتْ اِحْدٰہُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِج فَاِنْ فَآئَ تْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوْاط اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن (الحجرات : ٩) اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو ، پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری پر زیادتی کرے تو سب اس زیادتی کرنے والی جماعت سے قتال کرو حتیٰ کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے پس اگر وہ رجوع کرلے تو ان کے درمیان انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل کرو بیشک اللہ عدل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ء اس آیت کے شان نزول میں لکھتے ہیں :
امام احمد، امام بخاری، امام مسلم، امام ابن جریر، امام ابن المنذر، امام ابن مردویہ اور امام بیہقی نے اپنی سنن میں حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے عرض کیا گیا کہ اگر آپ عبداللہ بی ابی کے پاس تشریف لے چلیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) دراز گوش پر سوار ہو کر اس کے پاس گئے اور آپ کے ساتھ آپ کے اصحاب بھی گئے وہ شور والی زمین تھی جب آپ اس کی طرف پہنچے تو اس نے کہا ایک طرف ہٹو اللہ کی قسم تمہارے دراز گوش کی بدبو مجھے اذیت پہنچا رہی ہے پس انصار میں سے ایک شخص نے کہا اللہ کی قسم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دراز گوش کی بو تیری بدبو سے اچھی ہے، اس سے عبداللہ بن ابی اور اس کی قوم کے لوگ غضبناک ہوگئے پھر دونوں طرف سے اصحاب غصہ میں آگئے اور انہوں نے ایک دوسرے کو درخت کی ٹہنیوں، ہاتھوں اور جوتوں سے مارنا شروع کردیا۔ تب یہ آیت نازل ہوئی، اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرائوں۔
کیا اب معاصر موصوف اس آیت کا بھی انکار کردیں گے کیونکہ اس میں صحابہ کرام کے آپس میں لڑنے کا ذکر ہے ایک فریق عبداللہ بن ابی کا حامی تھا اور دوسرا مخالف تھا۔
حافظ سیوطی نے اس آیت کا دوسرا شان نزول اس طرح ذکر کیا ہے :
امام سعید بن منصور، امام بن جریر اور امام ابن المنذر نے ابی مالک سے روایت کیا ہے کہ دو مسلمان آپس میں لڑ پڑے ایک قوم ایک فریق کی حمایت میں تھی اور دوسری قوم دوسرے فریق کی حمایت میں تھی وہ ہاتھوں اور جوتیوں کے ساتھ لڑ رہے تھے تب یہ آیت نازل ہوئی اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان کے درمیان صلح کرا دو ۔
نیز امام سیوطی نے امام عبد بن حمید اور امام ابن جریر کی سند سے مجاہد سے روایت کیا ہے کہ وہ اپس میں لاٹھیوں کے ساتھ لڑ پڑے تو یہ آیت نازل ہوئی اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا وہ آپس میں لاٹھیوں اور جوتیوں کے ساتھ لڑ پڑے تھے تو یہ آیت نازل ہوئی۔ (المدار المنشور ج ٧ ص ٥٦١۔ ٥٦٠، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٤ ھ)
اس آیت کے متعدد شان نزول ہیں لیکن ان سب میں یہ بات مشترک ہے کہ صحابہ کرام کے دو فریق عصبیت کی بناء پر ایک دوسرے سے لڑے اور ہاتھا پائی اور جو تم پیزار کی نوبت آگئی تو یہ آیت نازل ہوگئی، اور اس سے قطعی طور پر یہ معلوم ہوگیا کہ عصیبت کی بناء پر صحابہ کرام کا لڑنا ایسی نرالی اور انوکھی چیز نہیں ہے جس کی بناء پر حدیث صحیح کا انکار کیا جائے نیز ہم کہتے ہیں کہ صحابہ کرام آپس میں نہ لڑتے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے درمیان صلح نہ کراتے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس آیت کے حکم پر عمل کیسے کرتے اور آپ کی زندگی میں دو لڑنے والے فریقوں کے درمیان صلح کرانے کا اسوہ کیسے متحقق ہوتا مانا کہ دو فریقوں کا عصیبت کی بناء پر ایک دوسرے سے لڑنا غطاء ہے لیکن صحابہ کرام کی خطائیں ابرار کی نیکیوں سے بھی افضل ہیں ان کی ان خطائوں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زندگی میں صلح کرانے کا اسوہ پایا گیا، سو کسی شخص کو ان کی خطائوں پر طعن نہیں کرنا چاہیے اور نہ اس بناء پر کسی صحیح حدیث کا انکار کرنا چاہیے کیونکہ ان کی خطائیں بھی تکمیل دین کا ذریعہ ہے۔
نیز یہ بھی واضح رہے کہ حضرت سعد بن عبادہ (رض) نے ابوبکر (رض) کے ہاتھ پر بیعت بھی نہیں کی تھی۔
(٨) آٹھواں اور آخری اعتراض یہ ہے کہ وہ روایت جس میں سعد بن عبادہ جیسے جلیل القدر صحابی اور ان کے پورے قبیلہ خزرج کو رئیس المنافقین (عبداللہ بن ابی) کا حامی ظاہر کیا گیا ہو، اس اعتراض کا جواب وہی ہے جو اعتراض نمبر ٧ کے جواب میں آگیا ہے اسی کو پھر پڑھ لیں۔
ہمارے مخلص اور محب دوست مولانا محمد ابراہیم فیضی نے مجھے ان اعتراضات کی طرف متوجہ کیا تھا، میں چونکہ چھتیس سال سے حدیث کی خدمت کر رہا ہوں اس لیے منکرین حدیث کی طرف سے کسی حدیث کا انکار اور اس پر اعتراض میرے علم میں آتا ہے تو میں اپنی پوری علمی توانائی کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث کی حمایت اور اس کا دفاع کرتا ہوں کیونکہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث سے شدید محبت اور جذباتی وابستگی ہے اور میں نے اپنی زندگی احادیث رسول کی خدمت کے لیے وقف کی ہوئی ہے۔
معاصر موصوف نے امام ابن شہاب زہری کو مفتری، کذاب اور بہتان تراش قرار دیا ہے اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے عام طور پر منکرین حدیث اس کے خلاف زہر اگلتے رہتے ہیں کیونکہ انہوں نے حدیث کی بہت خدمت کی ہے وہ علم اصول حدیث کے واضع ہیں اور تابعین میں سب سے زیادہ احادیث ان ہی کے پاس تھیں اس لیے ہم اس جلیل القدر حدیث کے امام کا سطور ذیل میں مختصر تعارف پیش کر رہے ہیں :
ابن شہاب الزہری کون تھے ! کیا تھے ! کیسے تھے !
امام محمد بن سعد متوفی ٢٣٠ ء ابن شہاب زہری کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :
الزہری کا نام ہے محمد بن مسلم بن عبیداللہ بن عبداللہ بن شہاب بن زہرہ ان کی کنیت ابوبکر ہے۔
ابراہیم بن سعد نے اپنے والد سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد جتنی احادیث ابن شہاب زہری نے جمع کی ہیں کسی نے جمع نہیں کیں۔ امام مالک بن انس نے کہا میں نے مدینہ میں صرف ایک فقیہ محدث پایا ہے پوچھا وہ کون ہے ؟ فرمایا ابن شہاب الزہری، ایوب نے کہا میں نے الزہری سے بڑا عالم کسی کو نہیں دیکھا، پوچھا حسن بصری کو بھی نہیں ؟ کہا میں نے ابن شہاب الزہری سے بڑا عالم کسی کو نہیں دیکھا۔
محمد بن عمر نے کہا الزہری اٹھاون ہجری میں حضرت معاویہ کی خلافت کے آخری ایام میں پیدا ہوئے اور ایک سو چوبیس ہجری میں بیمار ہو کر فوت ہوگئے انہوں نے وصیت کی تھی کہ ان کو عام شاہراہ پر دفن کردیا جائے علماء نے کہا زہری ثقہ تھے ان کے پاس بہت احادیث تھیں اور بہت علم تھا وہ جامع فقیہ تھے۔ (الطبقات الکبریٰ ج ٥ ص ٣٥٧۔ ٣٤٨، ملخصاً رقم : ١٠٦٥ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤١٨ ھ)
امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ء لکھتے ہیں :
الزہری نے حضرت سہل بن سعد، حضرت انس بن مالک اور حضرل ابوالطفیل (رض) سے احادیث کا سماع کیا ہے اور ان سے صالح بن کیسان، یحییٰ بن سعید، عکرمہ بن خالد، منصور اور قتادہ وغیرہ ہم نے احادیث روایت کی ہی، ایوب نے کہا میں نے الزہری سے بڑا عالم کوئی نہیں دیکھا، ابراہیم بن سعد نے اپنے والد سے روایت کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے بعد میں نے کسی شخص کو نہیں دیکھا جس نے اس قدر احادیث جمع کی ہوں۔ (التاریج الکبیر ج ١ ص ٢٢٣۔ ٢٢٢، ملخصاً رقم : ٦٩٣، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٢٢ )
حافظ جمال الدین ابوالحجاج یوسف المزی المتوفی ٧٤٢ ء لکھتے ہیں :
ابوبکر بن منجویہ نے کہا زہری نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دس اصحاب کی زیارت کی تھی، وہ اپنے زمانہ میں سب سے بڑے حافظ تھے، اور احادیث کے متون کو سب سے عمدہ بیان کرتے تھے اور وہ فاضل فقیہ تھے، سفین بن عینیہ نے عمرو بن دینار سے روایت کیا ہے میں نے الزہری سے بڑھ کر صریح حدیث بیان کرنے والا کوئی نہیں دیکھا وہ ردھم اور دینار کو اونٹ کی مینگنیوں سے زیادہ نہیں سمجھتے تھے معمر نے کہا الزہری اپنے میدان میں سب سے فائق تھے۔ (تہذیب الکمال ج ١٧ ص ٢٣٠۔ ٢٢٠ ملخصاً رقم : ٦١٩٥، مطبوعہ دارالفکر بیروت ١٤١٤ ھ)
حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں :
الزہری ائمہ اعلام میں سے ایک تھے وہ حجاز اور شام کے عالم تھے لیث نے کہا ابن شہباب کہتے تھے میں نے اپنے دل میں جس حدیث کو بھی امانت رکھا میں اس کو کبھی نہیں بھولا، امام نسائی نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تک پہنچنے والی احادیث چار ہیں : (١) الزہری از علی بن حسین از علی از رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (٢) الزہری از عبید اللہ از ابن عباس (٣) ایوب از محمد از عبیدہ از علی (٤) منصور از ابراہیم از علقمہ ازابن مسعود اور سب سے صریح حدیث الزہری روایت کرتے تھے۔ (تہذیب التہذیب ج ٩ ص ٣٨٧۔ ٣٨٥ رقم ٦٥٨٥، ملخصاً دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤١٥ ھ)
اس ہم اس بحث کے آخر میں حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ (رض) کی فضیلت میں احادیث کو بیان کرنا چاہتے ہیں۔
حضرت عائشہ (رض) کی فضیلت میں احادیث اور آثار
(١) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عائشہ یہ جبریل ہیں جو تم کو سلام کہہ رہے ہیں میں نے کہا و (علیہ السلام) و رحمتہ اللہ وبرکاتہ آپ ان چیزوں کو دیکھتے ہیں جس کو میں نہیں دیکھ سکتی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٧٦٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٤٧، سنبن ابو دائود رقم الحدیث : ٥٢٣٢، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٥٤٩٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٦٩٦)
(٢) حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مردوں میں بہت کامل گزرے ہیں اور عورتوں میں صرف مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ کامل ہیں اور عائشہ کی فضیلت عورتوں پر اس طرح ہے جیسے ثرید کی فضیلت تمام کھانوں پر ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٧٦٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٧١، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٨٣٤، سنن النسائی رقم الحدیث : ٦٨١٧، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٨٣٥٦ )
گوشت کے بنے ہوئے سالن میں روٹی کے ٹکڑے توڑ کر بھگو لیے جائیں تو اس کو ثرید کہتے ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اہل دنیا اور اہل جنت کے کھانوں کا سردار گوشت ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٣٠٥) خلاصہ یہ ہے کہ گوشت کا سالن یعنی ثرید تمام کھانوں کا سردار ہے اسی طرح حضرت عائشہ دنیا اور جنت کی عورتوں کی سردار ہیں اور یہ اس کے منافی نہیں ہے کہ حضرت فاطمہ جنت کی عورتوں کی سردار ہیں کیونکہ ایمان والیوں کی دونوں سردار ہیں۔
(٣) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عائشہ کی فضیلت عورتوں پر ایسی ہے جیسے ثرید کی فضیلت باقی کھانوں پر۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٧٧٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٤٦، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٨٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٢٨١، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٦٦٩٢)
(٤) قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) بیمار ہوئیں تو حضرت ابن عباس (رض) نے ان سے کہا آپ تو ان کے پاس جا رہی ہیں جو بہت سچے ہیں، یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر (رض) کے پاس۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٧٧١، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٢٦٤٨، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٤٩٦)
(۵)حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عمار اور حضرت حسن رضی اللہ عنہما کو کوفہ بھیجا تاکہ وہاں کے لوگوں کو اپنی مدد کے لیے تیار کریں تو حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے انہیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا مجھے خوب معلوم ہے لہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا و آخرت میں زوجہ ہیں لیکن اللہ تعالی نے تمہیں آزمائش میں ڈالا ہے کہ تم حضرت علی کی اتباع کرتے ہو یا حضرت عائشہ کی۔ صحیح البخاری ۳۷۷۲ مسند احمد مسند ابو یعلی
(٦) عروہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے حضرت اسماء (رض) سے عاریتہ ہار لیا وہ گم ہوگیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تلاش کرنے کے لیے اپنے اصحاب کو روانہ کیا پھر نماز کا وقت آگیا اور پانی نہ ہونے کی وجہ سے انہوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھ لی، جب وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے تو انہوں نے آپ سے اس چیز کی شکایت کی تو اللہ تعالیٰ نے تمیم کی آیت نازل فرمائی، تب حضرت اسید بن حضیر نے کہا اللہ آپ کو (حضرت عائشہ کو) جزاء خیر دے آپ پر جب بھی کوئی آفت نازل ہوئی اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اس سے نجات کی راہ نکال دی اور مسلمانوں کے لیے اس میں برکت رکھ دی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٧٧٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٦٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٥٦٨، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٣١٠ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٢٩٩)
(٧) عروہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مرض الموت میں تھے تو باری باری اپنی ازواج کے پاس جاتے اور فرماتے میں کل کس کے ہاں ہوں گا میں کل کس کے ہاں ہوں گا ؟ آپ حضرت عائشہ کے حجرے میں جانے پر حریص تھے حضرت عائشہ (رض) نے کہا جب میری یاد آئی تو آپ پر سکون ہوگئے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٧٧٤)
(٨) عروہ بیان کرتے ہیں کہ مسلمان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ہدیے اور تحفے پیش کرنے کے لیے اس دن کے انتظار میں رہتے تھے جب آپ حضرت عائشہ (رض) کے حجرے میں ہوں، حضرت عائشہ نے کہا پس میری سہیلیاں (سوکنیں) حضرت ام سلمہ (رض) کے گھر جمع ہوئیں اور انہوں نے کہا اے ام سلمہ اللہ کی قسم مسلمان اپنے ہدیے بھیجنے کے لیے حضرت عائشہ کی باری کا انتظار کرتے ہیں اور ہم بھی اسی طرح اچھائی چاہتے ہیں جس طرح حضرت عائشہ اچھائی چاہتی ہیں پس تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہو کہ آپ لوگوں کو یہ حکم دیں کہ آپ جہاں بھی ہوں یا جس زوجہ کی باری میں ہوں وہ آپ کو ہدیے پیش کریں، حضرت ام سلمہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ عرض کیا وہ کہتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ سن کر مجھ سے منہ پھیرلیا جب آپ میری طرف مڑے تو میں نے دوبارہ یہی عرض کیا آپ نے پھر مجھ سے منہ پھیرلیا جب میں نے تیسری بار یہ عرض کیا تو آپ نے فرمایا اے ام سلمہ مجھے عائشہ کے متعلق اذیت نہ پہنچائو بیشک تم میں سے کسی زوجہ کے بستر پر میری طرف وحی نازل نہیں ہوئی سوائے عائشہ کے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٧٧٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٤١، ٢٤٤٢، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٩٥١، ٣٩٤٤) اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ حضرت عائشہ (رض) عہنا کو ایذاء پہنچانا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایذا پہنچانا ہے۔
(٩) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے فرمایا تم مجھے مسلسل تین راتیں خواب میں دکھائی گئیں میرے پاس ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں تمہاری تصویر لے کر آیا، وہ یہ کہتا تھا یہ تمہاری زوجہ ہے میں نے تمہارے چہرے کو کھولا تو وہ تم تھیں پھر میں یہ اگر یہ خواب اللہ کی طرف سے ہے تو وہ اس کو سچا کر دے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥١٦٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٣٨، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٠٩٣، مسند احمد رقم الحدیث : ٦٤٦٤٣ )
(١٠) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک میں خوب جانتا ہوں جب تم مجھ سے راضی ہو اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو حضرت عائشہ کہتی ہیں میں نے پوچھا آپ کو اس کا کیسے پتا چلتا ہے ؟ آپ نے فرمایا جب تم مجھ سے راضی ہوتی ہو تو کہتی ہو رب محمد کی قسم اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو تو کہتی ہو رب ابراہیم کی قسم حضرت عائشہ نے کہا جی ہاں اللہ کی قسم یا رسول اللہ میں صرف آپ کے نام کو چھوڑتی ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٦٦٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٤٣٩)
(١١) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گڑیوں سے کھیلتی تھیں وہ کہتی ہیں کہ میرے پاس میری سہیلیاں آتی تھیں وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھ کر شرم یا خوف سے چھپ جاتی تھیں پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو میرے پاس بھیج دیتے تھے پھر وہ آ کر میرے ساتھ کھیلتی تھیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦١٣٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٣٤٤٠، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٤٨٠٢)
(١٢) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج نے حضرت فاطمہ بنت رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بھیجا انہوں نے آپ سے اجازت طلب کی اس وقت آپ میرے ساتھ میرے بستر پر لیٹے ہوئے تھے آپ نے ان کو اجازت دی انہوں نے کہا یا رسول اللہ آپ کی ازواج نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے وہ آپ سے ابو قحافہ کی بیٹی (حضرت عائشہ) کے معاملہ میں انصاف کا سوال کرتی ہیں میں خاموش رہی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا : اے میری بیٹی کیا تم اس سے محبت نہیں کرتیں جس سے میں محبت کرتا ہوں۔ حضرت فاطمہ نے کہا کیوں نہیں آپ نے فرمایا پھر اس سے محبت کرو حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ جب حضرت فاطمہ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا تو وہ اٹھ کر چلی گئیں، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کے پاس جا کر ان کو خبر دی کہ انہوں نے کیا کہا تھا اور اس کے جواب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کیا فرمایا، پھر ازواج نے ان سے کہا آپ نے تو ہمارا کوئی کام نہیں کیا، آپ دوبارہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائیں اور ان سے کہیں کہ آپ کی ازواج آپ کو ابو قحافہ کی بیٹی کے معاملہ میں انصاف کرنے کی قسم دیتی ہیں، حضرت فاطمہ نے کہا اللہ کی قسم میں اس معاملہ میں اب آپ سے بالکل بات نہیں کروں گی، حضرت عائشہ نے کہا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج نے آپ کی زوجہ حضرت زینب بنت حجش (رض) کو آپ کے پاس بھیجا اور یہ وہ تھیں جو باقی ازواج میں سے خود کو مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک برتر سمجھتی تھیں، اور میں نے نیکی اور پرہیز گاری میں حضرت زینب کی مثل کوئی عورت نہیں دیکھی اور نہ ان سے بڑھ کر سچی، صلہ رحم کرنے والی، صدقہ و خیرات کرنے والی اور تواضع اور انکسار کرنے والی اور اللہ کی عبادت کرنے والی، ماسوا اس کے کہ ان کی زبان میں تیزی تھی، وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت طلب کی، اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عائشہ (رض) کے ساتھ ان کے بستر پر اسی حالت میں تھے جس حالت میں حضرت فاطمہ نے ان کو دیکھا تھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو اجازت دی انہوں نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیشک آپ کی ازواج نے مجھے آپ کی طرف بھیجا ہے وہ آپ سے ابو قحافہ کی بیٹی کے معاملہ میں انصاف کرنے کا سوال کرتی ہیں پھر انہوں نے میری طرف رخ کیا اور مجھ سے لمبی اور تیز گفتگو کی اور میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اور آپ کی نظروں کی طرف دیکھ رہی تھی آیا آپ مجھے جواب دینے کی اجازت دیتے ہیں یا نہیں پھر ابھی حضرت زینب وہیں تھیں کہ میں نے جان لیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے بدلہ لینے کو ناپسند نہیں کریں گے پھر جب میں نے جواب دینے شروع کیے تو حضرت زینب وہاں نہیں ٹھہر سکیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مسکرا کر فرمایا : آخر ابوبکر کی بیٹی ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٤٢، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٩٤٤ )
(١٣) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تجسس سے پوچھتے تھے کہ آج کہاں رہوں گا ؟ اور میں کل کہاں رہوں گا ؟ حضرت عائشہ کی باری کو آپ دیر میں گمان کر رہے تھے، جس دن اللہ نے آپ کی روح قبض کی اس وقت میرے سینہ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٧٧٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٤٤٣ )
(١٤) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ وفات سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے سینہ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے، میں نے کان لگا کر سنا تو آپ فرما رہے تھے اے اللہ مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم فرما اور مجھے رفیق اعلیٰ سے ملا دے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٤٠، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٤٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤٩٩، السنن الکبری رقم الحدیث : ٧١٠٥)
(١٥) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں ہمیشہ یہ سنا کرتی تھی کہ نبی اس وقت ہرگز فوت نہیں ہوتا جب تک کہ اسے دنیا اور آخرت کے درمیان اختیار نہ دیا جائے سو میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مرض الموت میں یہ سنا اس وقت آپ بھاری آواز سے یہ فرما رہے تھے :
مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَآئِ وَالصّٰلِحِیْنَج وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا (النساء : ٦٩ )
ان لوگوں کے ساتھ جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے جو انبیاء صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے رفیق ہیں۔
اس وقت میں نے یہ گمان کیا کہ اب آپ کو اختیار دے دیا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٣٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦١٧٨، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٧١٠٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٦٢٠ )
(١٦) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تندرست تھے تو یہ فرما رہے تھے کسی نبی کی اس وقت تک روح نہیں قبض کی گئی جب تک کہ اس کو جنت میں اس کا ٹھکانا دکھا نہیں دیا گیا، پھر اس کو موت کا اختیار دیا جاتا ہے، حضرت عائشہ نے کہا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر مرض الموت طاری ہوا تو آپ کا سر میرے زانو پر تھا، آپ پر ایک ساعت غشی طاری ہوئی پھر آپ کو ہوش آگیا پھر آپ کی نظر چھت کی طرف جا لگی، پھر آپ نے فرمایا اے اللہ الرفیق الاعلی حضرت عائشہ نے کہا پھر میں نے دل میں سوچا اب آپ ہمیں اختیار نہیں کریں گے، حضرت عائشہ نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو آخری بات کی وہ یہی تھی اللھم الرفیق الاعلی (یعنی اے اللہ مجھے اعلیٰ علیین میں انبیاء کی رفاقت عطا فرمانا) (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٦٣، صحیح مسلم رقم الحدیث المسلسل : ٦١٨٠، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤٩٩، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٧١٠٥)
(١٧) حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمیں کبھی بھی کوئی مسئلہ مشکل پیش آیا مگر ہمیں حضرت عائشہ (رض) سے ان کا علمی حل مل جاتا تھا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٨٣، المتدرک ج ٤ ص ١١ قدیم)
(١٨)حضرت موسی بن طلحہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے زیادہ فصیح اللسان کسی کو نہیں پایا
(١۹) حضرت عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ذات السلاسل کے لشکر کا امیر بنایا، جب میں واپس آیا تو میں نے پوچھا یا رسول اللہ ! آپ کو سب سے زیادہ کون محبوب ہے ؟ آپ نے فرمایا عائشہ، میں نے پوچھا اور مردوں میں ! آپ نے فرمایا : ان کے والد، میں نے پوچھا پھر کون محبوب ہے ؟ آپ نے فرمایا عمر، پھر آپ نے کئی آدمیوں کے نام لیے پھر میں اس خوف سے خاموش رہا کہ میرا نام سب کے آخر میں آئے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٣٥٨، صحیح رقم الحدیث : ٢٣٨٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٨٥، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٨١١٧ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٣٨٤، عالم الکتب، صحیح ابن حیان رقم الحدیث : ٦٨٨٥، سنن بیہقی ج ١٠ ص ٢٣٣، شرح السنتہ رقم الحدیث : ٣٨٦٩، تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکرج ٣ ص ١٠٩ رقم الحدیث : ٦٠٤، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ الطبقات الکبریٰ ج ٨ ص ٥٣ )
(۲۰) عمرو بن غالب بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عمار بن یاسر (رض) کے سامنے حضرت عائشہ (رض) کو برا کہا تو انہوں نے اس سے کہا تم دفع ہو جائو اس حال میں کہ تمہاری صورت خراب ہو اور تم پر کتے بھونک رہے ہوں تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبوبہ کو اذیت پہنچا رہے ہو۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٥٨، الطبقات الکبریٰ ج ٨ ص ٥٢، طبع جدید دارالکتب العلمیہ بیرون، ١٤١٨ ھ تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر ج ٤٦ ص ٣١٤۔ ٣١٣، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٦١ ھ)
(٢۱) حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ عرض کیا گیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے ؟ آپ نے فرمایا عائشہ پوچھا مردوں میں ؟ آپ نے فرمایا : ان کے باپ ! (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٩٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٠١ صحیح ابن حیان رقم الحدیث : ٧١٠٧)
(٢۲) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر جو انعامات فرمائے ہیں ان میں سے یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے حجرے میں فوت ہوئے اور میری باری میں فوت ہوئے اور میرے سینہ سے ٹیک لگائے ہوئے فوت ہوئے، اور آپ کی وفات کے وقت اللہ تعالیٰ نے میرے لعاب ذہن اور آپ کے لعاب دہن کو جمع کردیا، عبدالرحمان بن ابوبکر مسواک ہاتھ میں لیے ہوئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مجھ سے ٹیک لگائے ہوئے تھے میں نے دیکھا کہ آپ ان کی طرف دیکھ رہے ہیں، میں نے جان لیا کہ آپ مسواک کو پسند کر رہے ہیں میں نے پوچھا کہ آیا میں آپ کے لیے یہ مسواک لوں ؟ آپ نے سر کے اشارہ سے ہاں فرمایا، میں نے ان سے مسواک لے کر (اور اس کے سر کو کاٹ کر) آپ کو دی آپ کو وہ سخت لگی میں نے پوچھا آیا میں اس کو آپ کے لیے نرم کر دوں ؟ آپ نے سر کے اشارہ سے فرمایا ہاں پھر میں نے اس کو (اپنے منہ میں چبا کر) نرم کردیا، آپ پانی کے ڈونگے میں ہاتھ ڈال کر اپنے چہرے پر پھیرتے اور فرماتے لا الہ الا اللہ بیشک موت کی سختیاں ہیں پھر آپ نے اپنا ہاتھ کھڑاکر کے فرمایا : الرفیق الاعلیٰ میں حتی کہ آپ کی روح قبض کرلی گئی اور آپ کا ہاتھ جھک گیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٤٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٤٣، مختصر تاریخ دمشن ج ٢ ص ٣٧٦، مطبوعہ دارالفکر بیروت ١٤٠٤ ھ کنزالعمال رقم الحدیث : ٣٧٧٨٤)
(٢۳) مسروق بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا میں نے جبریل (علیہ السلام) کو اپنے اس حجرہ میں کھڑے ہوئے دیکھا وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سرگوشی میں باتیں کر رہے تھے جب آپ حجرہ میں داخل ہوئے تو میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ یہ کون تھے ؟ آپ نے پوچھا تم نے ان کو کس کے مشابہ پایا ؟ میں نے کہا دحیہ کلبی کے آپ نے فرمایا تم نے خیر کثیر کو دیکھا ہے یہ جبریل (علیہ السلام) تھے وہ بہت تھوڑی دیر ٹھہرے تھے حتی کہ آپ نے فرمایا یہ جبریل ہیں تم کو سلام کہہ رہے ہیں میں نے کہا وعلیہ السلام داخل ہونے والے کو اللہ تعالیٰ نیک جزا دے۔ (المعجم الکبیر ج ١٦ ص ٩٥ مسند احمد ج ٦ ص ١٤٦، المستدرک رقم الحدیث : ٦٧٨٢)
(٢۴) ابن ابی ملیکہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) کی بیماری کے ایام میں حضرت ابن عباس (رض) نے حاضر ہونے کی اجازت طلب کی، حضرت عائشہ نے اجازت نہیں دی، پھر آپ کے بھتیجوں نے کہا آپ ان کو اجازت دے دیں وہ آپ کے نیک بیٹوں میں سے ہیں، حضرت عائشہ نے کہا ان کی تعریف و توصیف کو چھوڑو وہ مسلسل ان کو اجازت دینے کے لیے اصرار کرتے رہے حتیٰ کہ آپ نے اجازت دے دی، جب وہ آگئے تو حضرت ابن عباس نے کہا آپ کا نام المومنین ہے تو آپ مجھ پر شفقت کریں، آپ کے پیدا ہونے سے پہلے ہی آپ کا یہ نام تھا، اور آپ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج میں سب سے زیادہ محبوب تھیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسی چیز سے محبت کرتے تھے جو پاکیزہ ہو اور آپ اور آپ کے دوستوں کے درمیان صرف آپ کی حیات حجاب اور مانع ہے لیلۃ الابواء میں آپ کا ہار گر کر گم ہوگیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ میں آپ کے اور مسلمانوں کے لیے خیر رکھ دی، سو اللہ تعالیٰ نے آیت تمیم نازل فرما دی اور آپ کی برات میں قرآن مجید کی آیات نازل ہوئیں اور مسلمانوں کی تمام مساجد میں دن اور رات کے اوقات میں ان آیات کی تلاوت کی جاتی ہے، آپ نے فرمایا : اے ابن عباس ! میری تعریف اور توصیف کو چھوڑو میں یہ چاہتی ہوں کہ کاش میں بھولی بسری ہوتی۔ (مسند احمد ج ١ ص ٢٢٠، حلیۃ اولاولیا، ج ٢ ص ٤٥، صحیح ابن حیان رقم الحدیث : ١٧٠٨، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٠٧٨٣، المستدرک رقم الحدیث : ٦٧٨٦، الطبقات الکبریٰ ج ٧ ص ٦٠۔ ٥٩ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ)
(٢۵) عبدالرحمان بن ضحاک بیان کرتے ہیں کہ عبداللہ بن صفوان اور ایک شخص حضرت عائشہ (رض) کے پاس گئے حضرت عائشہ نے ان میں سے کسی ایک سے کہا : اے فلاں ! کیا حفصہ کی حدیث تم کو معلوم ہے ؟ اس نے کہا ہاں اے ام المومنین عبداللہ بن صفوان نے کہا اے ام المومنین حصہ کی حدیث کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : مریم بنت عمران کے علاوہ مجھ سے پہلے کسی عورت کو نو اوصاف نہیں دئیے گئے، اور اللہ کی قسم میں اپنی سوکنوں پر فخر کرنے کے لیے یہ بات نہیں کہہ رہی، عبداللہ بن صفوان نے کہا : اے ام المومنین وہ نو اوصاف کیا ہیں ؟ حضرت عائشہ نے فرمایا :
(١) فرشتہ میری تصویری لے کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا۔ (٢) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس وقت مجھ سے نکاح کیا جب میری عمر سات سال تھی۔ (٣) نو سال کی عمر میں میری آپ کی طرف رخصتی کی گئی۔ (٤) آپ کے نکاح میں صرف میں کنواری خاتون تھی۔ (٥) میں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک لحاف میں ہوتے تھے، پھر بھی آپ پر وحی نازل ہوتی تھی۔ (٦) میرے متعلق قرآن مجید کی ایسی آیات نازل ہوئیں کہ اگر وہ آیات نازل نہ ہوتیں تو امت ہلاک ہوجاتی (مثلاً تمیم اور حد قذف کی مشروعیت) (٧) میں نے جبریل (علیہ السلام) کو دیکھا اور میرے علاوہ آپ کی ازواج میں سے اور کسی نے حضرت جبریل کو نہیں دیکھا۔ (٨) میرے حجرے میں آپ کی روح قبض کی گئی۔ (٩) جس وقت آپ کی روح قبض کی گئی تو میرے اور فرشتے کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ یہ حدیث صحیح ہے اور امام بخاری اور امام مسلم نے اس کو روایت نہیں کیا۔ (المستدرک ج ٢ ص ١٠١، قدیم المستدرک رقم الحدیث : ٦٧٩٠، جدید، الطبقات الکبریٰ ج ٨ ص ٤١)
(٢۶) عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ ام المومنین سے زیادہ کسی کو حلال، حرام، علم شعر اور طب کا جاننے والا نہیں دیکھا۔ (المستدرک رقم الحدیث : ٦٧٩٣، سیر النبلاء ج ٢ ص ١٨٢)
(٢۷) زہری بیان کرتے ہیں اگر تمام لوگوں کا علم اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ازواج کا علم جمع کیا جائے تب بھی حضرت عائشہ (رض) کا علم ان سب سے زیادہ ہے۔ (یہ حدیث صحیح ہے مجمع الزوائد ج ٩ ص ٢٤٣، المستدرک رقم الحدیث : ٦٧٩٤)
(٢۸) مسلم بیان کرتے ہیں کہ مسروق سے پوچھا گیا کہ حضرت عائشہ کو فرائض کا بہت اچھا علم تھا ؟ انہوں نے کہا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بڑے بڑے اصحاب کو حضرت عائشہ سے فرائض (علم وراثت) کے متعلق سوال کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (سنن الداری رقم الحدیث : ٦٨٥٩، الطبقات الکبریٰ ج ٨ ص ٥٣۔ ٥٢، المستدرک رقم الحدیث : ٦٧٩٦)
(٢۹) احنف بن قیس بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابوبکر صدیق (رض) ، حضرت عمر بن الخطاب، حضرت عثمان بن عفان اور حضرت علی بن ابی طالب (رض) کے خطبات سنے ہیں اور آج تک بعد کے خلفاء کے خطبات سنے ہیں میں نے کسی مخلوق کے منہ سے حضرت عائشہ (رض) کی طرح عظیم اور حسین کلام نہیں سنا۔ (المستدرک رقم الحدیث : ٦٧٩٢)
(۳۰) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہے کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کی ازواج میں سے کون کون جنت میں ہوں گی ؟ فرمایا تم بھی ان ہی میں سے ہو۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ (المعجم لکبیر ج ٢٣ ص ٩٩، صحیح ابن حیان رقم الحدیث : ٧٠٩٦، المستدرک رقم الحدیث : ٦٨٠٣)
(٣۱) عروہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاویہ (رض) نے حضرت عائشہ (رض) کی خدمت میں ایک لاکھ درہم بھیجے حضرت عائشہ نے وہ تمام درہم تقسیم کر دئیے حتیٰ کہ ان میں سے ایک درہم بھی باقی نہیں بچا۔ حضرت بررہ نے کہا آپ روزے سے ہیں آپ نے ایک درہم کیوں نہ بچا لیا، میں اس کا آپ کے لیے گوشت خرید لیتی ! فرمایا : اگر تم پہلے یاد دلاتیں تو میں ایسا کرلیتی۔ (حلیۃ الاولیاء ج ٢ ص ٤٧ )
(٣٢) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میرے والدین حضرت ابوبکر اور حضرت ام رومان (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا ہماری خواہش ہے کہ آپ عائشہ کے لیے دعا کریں جس کو ہم بھی سنیں تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی : اے اللہ عائشہ بنت ابی بکر کی مغفرت فرما ایسی مغفرت جو ظاہر اور باطن امور میں واجب ہو، حضرت عائشہ کے والدین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا کے حسن پر متعجب ہوئے آپ نے فرمایا تم اس دعا پر تعجب کر رہے ہو، میری یہ دعا ہر اس شخص کے لیے ہے جو اللہ کے وحدہ لا شریک ہونے اور میرے رسول اللہ ہونے کی گواہی دیتا ہو۔ (صحیح ابن حیان رقم الحدیث : ٧١١١، المستدرک رقم الحدیث : ٦٧٩٨)
(٣٣) عروہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) فرماتی تھیں کہ جس حجرے میں حضرت عمر اپنے دو صاحبوں کے ساتھ مدفون ہیں میں حضرت عمر سے حیاء کی وجہ سے اس حجرے میں بہت اچھی طرح کپڑے لپیٹ کر جاتی تھی، اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ (المستدرک رقم الحدیث : ٦٧٨١)
(٣٤) قیس بن ابی حازم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) اپنے دل میں یہ سوچتی تھیں کہ ان کے حجرے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر (رض) کے ساتھ دفن کیا جائے پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ایسے حادثات ہوئے کہ حضرت عائشہ نے فرمایا مجھے دیگر ازواج کے ساتھ دفن کردینا (دوسری روایات میں ہے تاکہ مجھے دوسری ازواج سے برتر نہ سمجھا جائے) پھر آپ کو بقیع میں دفن کردیا گیا ہے۔ یہ حدیث صحیح ہے۔ (المستدرک رقم الحدیث : ٢٧٧٧)
(٣٥) عمرۃ بنت عبدالرحمن بیان کرتی ہے کہ میں نے حضرت عائشہ (رض) سے یہ سنا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نبوت کے دسویں سال میں ہجرت سے تین سال پہلے مجھ سے نکاح کیا اس وقت میری عمر چھ سال تھی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بارہ ربیع الاول پیر کے دن ہجرت کر کے مدینہ آگئے اور ہجرت کے آٹھ مہینے بعد میری رخصتی ہوگئی اور جس دن مجھے آپ کے پاس پیش کیا گیا اس دن میری عمر نو سال تھی۔ (الطبقات الکبریٰ ج ٨ ص ٤٦، صحیح بخاری رقم الحدیث : ٥١٣٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٢٢، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢١٢١، سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٢٦٦، مسند حمیدی رقم الحدیث : ٢٣١، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٠٩٧)
حافظ ابن عسا کرنے حضرت عائشہ کے نکاح کی پوری تفصیل بیان کی ہے کہ حضرت خدیجہ کے وصال کے بعد حضرت خولہ بنت حکیم نے آپ کو مشورہ دیا کہ آپ چاہیں تو بیوہ سے نکاح کرلیں اور چاہیں تو کنواری سے نکاح کرلیں، آپ نے پوچھا بیوہ کون ہے اور کنواری کون ہے، انہوں نے کہا بیوہ حضرت سودہ بنت زمعہ ہیں اور کنواری عائشہ بنت ابوبکر ہیں۔ آپ نے فرمایا جائو ان دونوں سے میرا ذکر کرو، جب حضرت خولہ نے حضرت ابوبکر سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا وہ تو آپ کی بھتیجی ہے آپ نے فرمایا وہ میرے نسبی بھائی نہیں ہیں میرے دینی بھائی ہیں پھر آپ کا حضرت عائشہ سے نکاح ہوگیا۔ اس وقت ان کی عمرچھ سال تھی اور حضرت سودہ بنت زمعہ سے بھی نکاح ہوگیا اور جب حضرت عائشہ کی عمر نو سال کی ہوئی تو ان کی رخصتی ہوگئی۔ (تاریخ دمشق الکبیر ملخصاً ، ج ٣ ص ١٠٨۔ ١٠٧، رقم الحدیث : ٦٠٣، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤٢١ ھ)
(٣٦) حضرت عائشہ (رض) نے بیان کیا کہ حضرت سودہ بنت زمعہ نے اپنی باری حضرت عائشہ کو ھبہ کردی تھی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت سودہ کی باری کے دن بھی حضرت عائشہ کے پاس رہتے تھے اور حضرت سودہ کی باری کے دن بھی۔ (الطبقات الکبریٰ ج ٨ ص ٥٠ تاریخ دمشق الکبیر ج ٣ ص ١٠٨، ١٤٢١ ھ)
(٣٧) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے تو میں گڑیوں سے کھیل رہی تھیں، آپ نے پوچھا اے عائشہ یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا گھوڑا ہے۔ (الطبقات الکبریٰ ج ٨ ص ٤٩، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ)
(٣٨) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور کہا میں تمہارے سامنے ایک چیز پیش کرتا ہوں تم اس میں عجلت نہ کرنا حتیٰ کہ اپنے والدین سے مشورہ کرلینا حالانکہ آپ کو خوب معلوم تھا کہ میرے والدین آپ سے علیحدگی کا مشورہ نہیں دیں گے۔ میں نے پوچھا وہ کیا چیز ہے تو آپ نے یہ آیات پڑھیں۔
یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِّاَزْوَاجِکَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا فَتَعَالَیْنَ اُمَتِّعْکُنَّ وَاُسَرِّحْکُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا ۔ وَاِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا (الاحزاب : ٢٩۔ ٢٨) اے نبی ! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے اگر تم دنیاوی زندگی اور اس کی زینت کو چاہتی ہو تو آئو میں تمہیں سامان نفع دے کر اچھائی کے ساتھ رخصت کر دوں ۔ اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے لیے گھر کو چاہتی ہو تو اللہ نے تم میں سے نیکی کرنے والیوں کے لیے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔
حضرت عائشہ نے کہا آپ کس چیز میں مجھے اپنے والدین سے مشورہ کرنے کا حکم دے رہے ہیں بلکہ میں اللہ اور اس کے رسول اور آخرت کے گھر کو چاہتی ہوں، پھر باقی ازواج مطہرات نے بھی میری طرح جواب دیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٧٨٦، ٤٧٨٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٧٥، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣١٨، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢١٣١، مسند احمد رقم الحدیث : ٢٦٦٣٧، الطبقات الکبریٰ ج ٨ ص ٥٤ )
(٣٩) حضرت عائشہ (رض) کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے سات ایسی صفات عطا کی ہیں جو مریم بن عمران کے سوا دنیا کی کسی عورت کو عطا نہیں کیں اور میں یہ بات دیگر ازواج پر اپنا فخر ظاہر کرنے کے لیے ہی نہیں کہہ رہی، عبداللہ بن صفوان نے کہا اے ام المومنین وہ کیا صفات ہیں آپ نے فرمایا : (١) فرشتہ میری تصویر لے کر نازل ہوا۔ (٢) سات سال کی عمر میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھ سے نکاح کیا اور نو سال کی عمر میں میری رخصتی ہوئی اور میرے سوا آپ کی کوئی کنواری بیوی نہیں تھی۔ (٣) میں آپ کے ساتھ بستر میں ہوتی تھی اس وقت بھی آپ پر وحی نازل ہوتی تھی۔ (٤) میں سب لوگوں سے زیادہ آپ کو محبوب تھی اور میں اس شخص کی بیٹی تھی جو آپ کو سب سے زیادہ محبوب تھا۔ (٥) اور میرے متعلق قرآن مجید میں ان امور پر آیات نازل ہوئیں جن میں امت ہلاک ہو رہی تھی۔ (٦) میں نے جبریل (علیہ السلام) کو دیکھا اور میرے علاوہ اور کسی زوجہ نے جبریل کو نہیں دیکھا۔ (٧) میرے حجرے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح قبض کی گئی اس وقت میرے اور فرشتے کے علاوہ اور کوئی آپ کے قریب نہیں تھا۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ (المعجم لکبیر ج ٢٢ ص ٣١، مجمع الزوائد ج ٩ ص ٢٤١) (جن روایات میں چھ سال کی عمر میں نکاح کا ذکر ہے وہ راجح ہیں)
(٤٠) حضرت عائشہ (رض) سترہ رمضان اٹھاون ہجری کو منگل کے دن وتر پڑھنے کے بعد وصال فرما گئیں۔ آپ کی نماز جنازہ حضرت ابوہریرہ (رض) نے پڑھائی، سالم نے کہا جتنے مسلمان آپ کی نماز جنازہ میں تھے اس سے پہلے اتنے مسلمان کسی کی نماز جنازہ میں نہ تھے، آپ کو بقیع میں دفن کیا گیا، آپ کی عمر چیاسٹھ سال تھی۔ (الطبقات الکبریٰ ج ٨ ص ٦٢، تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر ج ٣ ص ١١١، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤٢١ ھ، الاصابہ ج ٨ ص ٢٣٥، رقم : ١٤٢١، مطبوعہ ١٤١٥ ھ، اسد الغابہ ج ٧ ص ١٨٩، رقم : ٧٠٩٣، بیروت ١٤١٥ ھ، الاستیعاب ج ٤ ص ٤٣٩۔ ٤٣٨، رقم : ٣٤٦٣، بیروت، ١٤١٥ ھ)
میں نے شرح صحیح مسلم اور بتیان القرآن کی متعدد ابحاث میں مختلف دینی عنوانات پر چالیس احادیث جمع کی ہیں اور حضرت ام المومنین عائشہ (رض) کے فضائل میں بھی چالیس احادیث جمع کی ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ مجھے حضرت ام المومنین سے بہت زیادہ عقیدت اور محبت ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ جو شخص دین سے متعلق چالیس احادیث امت تک پہنچائے اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قیامت کے دن زمرہ فقہاء میں اٹھائے جانے اور اپنی شفاعت عطا کرنے کی نوید سنائی ہے میں ہرگز اس اعزاز کا مستحق نہیں ہوں، بس اللہ کے کرم سرکار کی شفاعت اور ام المومنین کی عنایت سے صرف میرے گناہوں کی مغفرت ہوجائے اور مجھے اخروی عذاب سے نجات مل جائے تو یہی میرے لیے بہت بڑا انعام، اکرام اور اعزاز ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 20