أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّيۡطٰنِ‌ ؕ وَمَنۡ يَّتَّبِعۡ خُطُوٰتِ الشَّيۡطٰنِ فَاِنَّهٗ يَاۡمُرُ بِالۡـفَحۡشَآءِ وَالۡمُنۡكَرِ‌ ؕ وَلَوۡلَا فَضۡلُ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ وَرَحۡمَتُهٗ مَا زَكٰى مِنۡكُمۡ مِّنۡ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰـكِنَّ اللّٰهَ يُزَكِّىۡ مَنۡ يَّشَآءُ‌ ؕ وَاللّٰهُ سَمِيۡعٌ عَلِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

اے ایمان والو ! شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو، اور جو شخص شیطان کے قدم بہ قدم چلے گا، تو وہ بیشک بےحیائی اور برائی (کے کاموں) کا حکم دے گا، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کسی کا بھی باطن کبھی بھی پاک اور صاف نہ ہوتا لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے اس کا باطن پاک اور صاف کردیتا ہے، اور اللہ خوب سننے والا بہت جاننے والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد : اے ایمان والو شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو، اور جو شخص شیطان کے قدم بہ قدم چلے گا وہ بیشک بےحیائی اور برائی (کے کاموں) کا حکم دے گا، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کسی کا بھی باطن کبھی بھی پاک اور صاف نہ ہوتا، لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے اس کا باطن پاک اور صاف کردیتا ہے، اور اللہ خوب سننے والا بہت جاننے والا ہے ۔ (النور : ٢١ )

الفحشاء المنکر اور التزکیہ کے معانی 

خطوات : خطوۃ کی جمع ہے اس کا معنی ہے چلتے وقت دو قدموں کا درمیانی فاصلہ، اور اس سے مراد ہے سیرت اور طریقہ، اور اس آیت کا معنی ہے شیطان کے طریقہ کی اتباع نہ کرو اور جو لوگ کسی پاک دامن مسلمان خاتون پر بدکاری کی تہمت لگا رہے ہوں اس کو کان لگا کر نہ سنو، اور مسلمانوں میں کسی بےحیائی کی بات کو نہ پھیلائو الفحشاء کا معنی ہے بےحیائی کی بات جو بہت قبیح ہو، اور منکر اس برے کام کو کہتے ہیں جس سے لوگ متنفر ہوتے ہیں اور اس کا انکار کرتے ہوں۔

علامہ ابن الاثیر الجزری نے لکھا ہے کہ الفحش اور الفحشاء ہر اس معصیت اور گناہ کو کہتے ہیں جس کا قبح بہت زیادہ ہو اس کا اکثر اطلاق زنا پر کیا جاتا ہے اور ہر قبیح قول یا فعل کو فاحشہ کہا جاتا ہے، حدیث میں ہے اللہ ہر فاحش اور متفحش سے بغض رکھتا ہے۔ (مسند احمد ج ٢ ص ١٥٩ )

فاحش کا معنی ہے جو شخص برے کام کرے اور بری باتیں کرے اور متفحش کا معنی ہے جو شخص تکلفاً اور قصداً برے کام اور بری باتیں کرے۔ (النہایہ ج ٣ ص ٣٧٢، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤١٨ ھ)

المنکر، المعروف کی ضد ہے، قرآن مجید اور احادیث میں منکر کا بہ کثرت ذکر ہے اور یہ ہر وہ کام اور ہر وہ فعل ہے جو شرعاً معیوب اور قبیح ہو یا جس کام کو شریعت نے مکروہ یا حرام قرار دیا ہو۔ (النہایہ ج ٥ ص ١٠١، مطبوعہ بیروت ١٤١٨)

پھر اللہ تعالیٰ نے شیطان کے طریقہ اور اس کے راستے سے دور رہنے کا حکم دیا اور جن مسلمانوں نے حضرت عائشہ (رض) پر تہمت میں حصہ لینے کے بعد اس سے رجوع کرلیا توبہ کرلی اور ان پر قذف جاری ہوگئی اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت تھی کہ حضرت عائشہ پر تہمت لگانے سے ان کے دلوں میں جو گناہ کا میل اور کچیل آگیا تھا اور ان کے قلوب پر جو معصیت کی ظلمت اور تاریکی چھا گئی تھی اللہ تعالیٰ نے ان کو توبہ کی توفیق دے کر ان کے دلوں سے معصیت کی اس کدورت اور زنگ کو دور کردیا اور ان کے باطن کو پاک اور صاف کردیا۔

تزکیہ کا لفظ زکوۃ سے بنا ہے، زکوۃ کا معنی ہے طہارت، کسی چیز کا بڑھنا اور برکت، قرآن مجید اور احادیث میں تزکیہ کا لفظ بہت آیا ہے، تزکیہ کا معنی کسی چیز کو پاک اور صاف کرنا ہے کوئی شخص اپنی تعریف، توصیف اور حمد وثناء کرے یا خود ستائی کرے اس کو بھی تزکیہ کہتے ہیں۔ (النہایہ : ج ٢ ص ٦٧٨، بیروت)

اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَہُمْ بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآء (النساء : ٤٩ )

کیا آپ نے ان لوگوں کو دیکھا جو خود اپنی تعریف و توصیف کرتے ہیں بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے اسے قابل تعریف بنا دیتا ہے۔

فَلَا تُزَکُّوْٓا اَنْفُسَکُمْ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی (النجم : ٣٢)

تم خود ستائی نہ کرو، اللہ اس کو خوب جانتا ہے جو متقی ہے۔

علامہ سید محمد بن مرتضیٰ زبیدی متوفی ١٢٠٥ ھ لکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کے تزکیہ کے معنی ہیں اللہ نے اس کی اصلاح کردی اور اس کو پاک دیا، اور نفس کی زکوۃ اور طہارت کا معنی یہ ہے کہ انسان دنیا میں تعریف و تحسین کا اور آخرت میں اجرو ثواب کا مستحق ہوگیا، تزکیہ کے لفظ کی نسبت کبھی بندہ کی طرف ہوتی ہے۔ جیسے :

قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا (الشمس : ٩)

جس نے اپنا تزکیہ کرلیا وہ کامیاب ہوگیا۔rnَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآء (النور : ٢١ )

اللہ جس کو چاہتا ہے اس کا تزکیہ فرماتا ہے۔

اور کبھی تزکیہ کی نسبت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہوتی ہے کیونکہ آپ بندوں کے لیے صفاء باطن میں واسطہ اور وسیلہ ہیں جیسے :

خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَتُزَکِّیْہِمْ بِہَا (التوبہ : ١٠٣)

آپ ان کے مالوں سے صدقہ لیجئے جس کے ذریعہ آپ ان کو پاک کریں اور ان کے باطن کو صاف کریں۔

انسان اگر خود اپنا تزکیہ کرے تو اس کی دو قسمیں ہیں اگر وہ ایسے کام کرے جس سے دوسرے اس کی تعریف کریں تو یہ تزکیہ محمود ہے اور اگر وہ خود زبان سے اپنی تعریف کرے تو یہ تزکیہ مذموم ہے۔ (تاج العروس ج ١٠ ص ١٦٥۔ ١٦٤، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)

جب انسان اپنے گناہوں پر نادم ہو اور خوف خدا سے روئے تو اس کے دل سے گناہوں کی تاریکی چھٹ جاتی ہے سو اس کا تزکیہ ہوجاتا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں صحابہ کو یہ تزکیہ حاصل ہوتا تھا اور اب مشائخ کرام کے فیضان اور علماء کے مواعظ سے اور خلوت گزینی سے اس نوع کا تزکیہ حاصل ہوتا ہے اور انسان کا باطن صاف ہوجاتا ہے۔

حضرت عائشہ (رض) کی تہمت سے برات اور فضیلت میں یہ گیارہویں آیت ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 21