اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُسَبِّحُ لَهٗ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَالطَّيۡرُ صٰٓفّٰتٍؕ كُلٌّ قَدۡ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسۡبِيۡحَهٗؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِمَا يَفۡعَلُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 41
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلَمۡ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ يُسَبِّحُ لَهٗ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ وَالطَّيۡرُ صٰٓفّٰتٍؕ كُلٌّ قَدۡ عَلِمَ صَلَاتَهٗ وَتَسۡبِيۡحَهٗؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌۢ بِمَا يَفۡعَلُوۡنَ ۞
ترجمہ:
کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ تمام آسمانوں والے اور زمینوں والے اور صف بہ صف اڑنے والے (پرندے) بیشک اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں، ہر ایک کو اپنی نماز اور تسبیح کا علم ہے، اور اللہ خوب جاننے والا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ تمام آسمانوں والے اور زمینوں والے اور صف بہ صفاڑنے والے (رپندے) بیشک اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہیں۔ ہر ایک کو اپنی نماز اور تسبیح کا علم ہے اور اللہ خوب جاننے والا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔ اور اللہ ہی کے لئے آسمانوں اور زمینوں کی ملکیت ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔ (النور : ٤٢-٤١ )
” کیا آپ نے نہیں دیکھا ! ‘ اس سے مراد استفہام تقریری ہے
اس سے پہلی ایٓتوں میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کے قلوب کے انوار اور کفار اور جاہلوں کے قلوب کی ظلمات کا بیان فرمایا تھا اور اب ان ایٓتوں میں اللہ تعالیٰ اپنی الوہیت اور توحید کے دلائل بیان فرما رہا ہے۔ اس آیت کے شروع میں فرمایا کیا آپ نے نہیں دیکھا؍ اس سے مراد ہے کیا آپ کو نہیں معلوم ؟ کیونکہ اس کے بعد تمام آسمانوں والوں اور زمینوں والوں اور پرندوں کی تسبیح کا ذکر فرمایا ہے اور اس تسبیح کو جاننے کا تعلق دیکھنے اور حواس سے نہیں ہے بلکہ عقل اور علم سے ہے، اوہر چند کہ اس آیت میں خطاب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ہے لیکن اس سے مراد تمام انسان ہیں، اور یہ استفہام تقریری ہے اور کیا آپ کو معلوم نہیں اس سے مراد یہ ہے کہ یہ بات آپ کو معلوم ہے کہ تمام آسمانوں والے اور زمینوں والے اور صف بہ صف اڑنے والے (رپندے) اللہ ہی کی تسبیح کرتے ہی (رح) ، ہر ایک کو اپنی نماز اور تسبیح کا علم ہے۔
جانداروں اور بےجانوں کی تسبیح
تسبیح سے مراد یہ ہے کہ ہر مخلوق اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس کا خالق ہر قسم کے نقص اور عیب سے منزہ اور پاک ہے اور ہر قسم کے حسن اور کمال سے متصف ہے اور یہ دلالت زبان حال سے بھی ہے اور زبان قال سے بھی ہے، زبان حال سے دلالت اس طرح ہے کہ ہر مخلوق تغیر پذیر ہے اور کسی چیز کا متغیر ہونا اس کے حادث اور ممکن ہونے پر دلالت کرتا ہے اور اس کا حادث اور ممکن ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ان کا موجد اور خالق حدوث اور امکان کے نقص وعیب سے پاک ہے کیونکہ اگر وہ بھی حادث اور ممکن ہوتا تو وہ بھی ان کی مثل ہوتا ان کا خاق نہ ہوتا، اس طرح ہر مخلوق زبان حال سے اپنے خالق کی تسبیح اور حمد کرتی ہے اور فرشتے اور مومنین زبان حال کے علاوہ زبان قال سے بھی اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد کرتے ہیں۔
حیوانات کے ادراک پر علم کے اطلاق کی توجیہ
اس آیت میں فرمایا ہے ہر ایک کو اپنی نماز اور تسبیح کا علم ہے، اس آیت میں علم کا لفظ ہے اس پر یہ اعتراض ہے کہ اس آیت میں حیوانات کے ادراک پر بھی علم کا اطلاق ہے حلاان کہ عرف اور لغت میں حیوانات کے ادراک پر علم کا اطلاق نہیں کیا جاتا اور قرآن مجید لغت عربی میں نازل ہوا ہے اس لئے بہ ظاہر حیوانات کے اور اکات پر عمل کا اطلاق موجب اشکال ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں مجازات بھی ہیں اور یہاں حیوانات کے ادراک پر علم کا اطلاق مجازاً ہے، اس کے علاوہ دیگر جواب یہ ہیں کہ ہر چیز کے صلاۃ اور تسبیح کا علم تو صرف ذوی القعول کو ہے لیکن ذوی العقول کو غیر ذوی العقول پر غلبہ دے کر سب کے متعلق فرما دیا کہ ان کو اپنی صلاۃ و تسبیح کا علم ہے۔ لہٰذا یہ اطلاق باب تغلیب سے ہے۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ کل قدعلم کا فاعل اللہ تعالیٰ ہے، یعنی کل قدعلم اللہ صلاتہ و تسبیحہ اللہ تعالیٰ کو ہر ایک کی صلاۃ و تسبیح کا علم ہے۔ علامہ قرطبی متوفی 668 ھ نے لکھا کہ یہ جائز ہے کہ اس کا معنی ہو کہ اللہ تعالیٰ کو ہر ایک کی صلاۃ و تسبیح کا علم ہے، یعنی اس کو ہر نمازی کی نماز اور تسبیح کرن والے کی تسلیح کا علم ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٢ ص 266)
اب ہم علم کی تعریف کرتے ہیں اور اس کی تحقیق کرتے ہیں کہ متکلمین کی اصطلاح میں علم ذوی العقول کے ساتھ متخص ہے اور عرف اور لغت میں حیوانتا کے ادراک پر عمل کا اطلاق نہیں کیا جاتا۔
علم کی تعریف
علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی متوفی 791 ھ لکھتے ہیں :
العلم صفۃ یتجلی بھا المذکور لمن قامتھی بہ۔ علم ایک ایسی صفت ہے جس کے سبب سے وہ چیز منکشف اور واضح ہوجاتی ہے جس انسان (یا فرشتہ) کے ساتھ وہ صفت قائم ہو۔
یعنی وہ چیز ایسی ہو جس کا ذکر کیا جاسکے اور اس کو تعبیر کیا جاسکے خواہ وہ چیز موجود ہو یا معدوم ہو، یہ تعریف حواس کے ادراک اور قعل کے ادراکات کو شامل ہے۔ خواہ عقل کے ادراکات، تصورات ہوں یا تصدیقات ہوں اور تصدیقات خواہ یقینیہ ہوں یا غری یقینیہ ہوں، لیکن اس تعریف میں انشکاف کو مکمل انکشاف پر محمول کرنا چاہیے جو ظن کو شامل نہیں ہے، کیونکہ علم ان کے نزدیک ظن کا مقابل ہے، اور جب اس تعریف میں انشکاف کو انکشاف تام پر محمول کریں گے تو پھر علم کی تعریف سے تصورات اور ظن خارج ہوجائیں گے اور صرف جزم باقی رہے گا۔ (شرح عقائد ص ١٠ مطبوعہ کراچی)
تخییل، تکذیب، شک، وہم اور ظن کی تعریفات
اگر امر واحد یا امور متعددہ کا تصور بغیر نسبت خبر یہ کے کیا جائے تو ان کو تصور محض کہتے ہیں اور اگر امور متعددہ کا تصور نسبت خبریہ کے ساتھ کیا جائے اور ذہن اس کی طرف متوجہ نہ ہو تو اس کو تخبیل کہتے ہیں جیسے ہم چلتے پھرتے لوگوں کی باتیں سنیں کہ فلاں آدمی مرگیا، جس کو ہم جانتے نہ ہوں اور اگر اس خبر کی طرف ہمارا ذہن متوجہ ہو اور حالت انکاری پیدا ہو تو اس کو تکذیب کہتے ہیں جیسے ہم کسی عیسائی سے سنیں کہ حضرت عیسیٰ (نعوذ باللہ) خدا کے بیٹے ہیں اور اگر ہم کوئی خبر سنیں اور اس خبر کے اثبات یا نفی میں ہمارا ذہن متردد ہو اور نفی اور اثبات کی دونوں جانیں مساوی ہوں تو اس کو شک کہتے ہیں جیسے ہمارے کسی عزیز کے متعلق دو آدمی خبر دیں، ایک بتائے کہ وہ مرگیا اور دوسرا بتائے وہ نہیں مرا اور دونوں ہمارے نزدیک صادق القول ہوں اور اگر ایک شخص کہے کہ وہ نہیں مرا اور وہ ہمارے نزدیک بہت سچا ہو اور دوسرا شخص کہے کہ وہ مرگیا ہے اور وہ ہمارے نزدیک جھوٹا ہو تو ہمارے نزدیک اس خبر کی راجح جانب یہ ہے کہ وہ نہیں مرا اور مرجوح جانب یہ ہے کہ وہ مرگیا ہے کو ین کہ ہوسکتا ہے کہ اس جھوٹے شخص نے اس بار سچ بولا ہو تو اس خبر کی راجح جانب کو ظن کو کہتے ہیں اور مرجوح جانب کو ہم کہتے ہیں اور تخییل، تکذیب، شک اور وہم یہ تسب تصورات ہیں اور ظن تصدیق کی پہلی قسم ہے اور علامہ تفتازانی کے نزدیک یہ سب علم کی تعریف سے خارج ہیں۔
پھر اگر خبر کی مرجوع جانب بھی زئال ہوجائے مثلاً بہت سچے آدمی کہیں کہ وہ شخص نہیں مرا تو پھر اس خبر کو جزم کہتے ہیں۔
تقلید مخطی، جہل مرکب، ثقلید مصیب، علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین کی تعریفات
اگر تصدیق اور جزم واقع کے مطابق نہ ہو اور تشکیک مشکک سے زائل ہوجائے تو اس کو تقلید مخطی کہتے ہیں جیسے امام شافعی کے مقلدین کو یہ جزم ہے کہ خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا لیکن جب ان پر ایسی احادیث پیش کی جائیں جن سے واضح ہوجائے کہ خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے تو ان کا جزم زائل ہوجائے گا، اگر جزم واقع کے غیر مطابق ہو اور تشکیک مشکک یا دلائلئ سے زائل نہ ہو تو اس کو جہل مرکب کہتے ہیں جیسے ابوجہل کو جزم تھا کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نبی نہیں ہیں اور قرآن مجید اللہ کا کلام نہیں ہے اور سینکڑوں معجزات دیکھنے کے باوجود اس کا یہ جہل زائل نہیں ہوا، اس کو جہل مرکب اس لئے کہتے ہیں کہ اس شخص میں دو جہالتیں ہیں وہ شخص واقع سے بھی جاہل ہوتا ہے اور اپنی جہالت سے بھی جاہل ہوتا ہے اور جاہل ہونے کے باوجود اپنے آپ کو عالم سمجھتا ہے جہل مرکب کی تعریف اس شعر میں ہے :
ہر آنکس کہ نداند و بدانہ کہ بداند
در جہل مرکب ابدالآباد بماند
ہر وہ شخص جو کسی چیز کو جانتا نہ ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ وہ اس چیز کو جانتا ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ جہل مرکب میں رہے گا۔
اگر کسی شخص کا جزم واقع کے مطباق ہو اور تشکیک مشکک سے زائل ہوجائے تو اس کو تقلید مصیب کہتے ہیں جیسے امام اعظم کے مقلدین کو یہ جزم ہے کہ خون نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اب اگر شافعی عالم اس کے سامنے ایسی احادیث صحیحہ پیش کرے جن سے واضح ہوجائے کہ خون نکلنے سے وضو نہیں ٹوٹتا تو اس کا جزم زائل ہوجائے گا اور اگر جزم واقع کے مطابق ہو اور تشکیک مشکک سے زائل نہ ہو تو پھر اس کو یقین کہتے ہیں جیسے مسلمان کو جزم ہے کہ اللہ ایک ہے اور سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے سچے اور آخری نبی ہیں اب اگر کوئی شخص اس کے خلاف لاکھ دلائل پیش کرے لیکن مسلمان کا اس پر جو جزم ہے اور اس کی جو تصدیق ہے وہ زائل نہیں ہوگی۔ پھر اگر یہ یقین کسی خبر متواتر سے سن کر حاصل ہوا ہے تو اس کو علم الیقین کہتے ہیں جیسے ہمیں سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر یقین ہے اور اگر مشاہدہ سے وہ یقین حاصل ہو تو اس کو عین الیقین کہتے ہیں جیسے صحابہ کرام کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر یقین تھا اور اگر تجربہ سے یہ یقین حاصل ہو تو اس کو حق الیقین کہتے ہیں جیسے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خود اپنی نبوت پر یقین تھا۔
اس تعریف کے اعتبار سے تقلید مخطی، جہل مرکب، تقلید مصیب، علم الیقین، عین الیقین اور حق الیقین یہ سب تصدیق کی اقسام ہیں اور علم کے افراد ہیں، بعض علماء ظن کو بھی علم کی تعریف میں شامل کرتے ہیں اس اعتبار سے علم کی سات قسمیں ہیں ورنہ ظن کے بغیر علم کی چھ قسمیں ہیں۔
علم کا ذوی العقول کے ساتھ مختص ہونا اور حیوانات کے ادراک پر علم کا اطلاق نہ کیا جانا
علامہ تفتازانی نے علم کی تعریف میں ” من “ کا لفظ اسعمتال کیا ہے اور من ذوی العقول کے لئے آتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ حیوانات کا ادراک علم نہیں ہے نیز حیوانات صرف حواس سے ادراک کرتے ہیں اور علم عقل سے ادراک کرنے کو کہتے ہیں، حواس سے ادراک کرنے کو شعور کہتے ہیں اور عقل سے ادراک کرنے کو علم کہتے ہی، انسان حواس سے جو ادراک کرتا ہے وہ بھی دراصل عقل سے ادراک کرتا ہے اور حواس اس کے آلات ہیں۔
قرآن مجید اور احادیث میں جو حیوانات کے ادراک پر عمل کا اطلاق آیا ہے وہ دراصل اطلاق مجازی ہے مگر اس پر اعتراض ہوتا ہے کہ علم کا ذوی العقول کے ساتھ مختص ہونا یہ تو آپ کی اصطلاح کے اعتبار سے ہے اور اللہ تعالیٰ آپ کی اصطلاح کے تابع تو نہیں ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن مجید عرب کی لغت اور عرب پر نازل ہوا ہے اور عرب کی لغت اور عرف میں حیوانات کے ادراک پر علم کا اطلاق نہیں ہوتا۔
علامہ شمس الدین امد بن موسیٰ خیالی متوفی 870 ھ شرح عقائد کی شرح میں لکھتے ہیں۔
فیشمل ادراک الحواس لکن عدہ علما بخالف العرف واللغۃ فان البھائم لیست من اولی العلم فیھما۔ حواس کے ادراک کو علم میں شامل کرنا عرف اور لغت کے خلاف ہے کیونکہ عرف اور لغت میں حیوانات ذوی العلوم میں سے نہیں ہے۔ (حاشیۃ الخیالی علی شرح العقائد ص ٣٢ مطبع یوسفی لکنئو)
علامہ عبدالحکیم سیالکوٹی متوفی 1067 ھ خیالی کے حاشیہ میں لکھتے ہیں :
حیوانات کے ادراک حسی اور غیر حیوانوں (ذوی العقول) کے ادراک حسی میں یہ فرق کرنا ممکن نہیں ہے کہ عقل والوں کے ادراک حسی کو علم کہا جائے اور حیوانات کے ادراک حسی کو علم نہ کہا جائے جیسا کہ علامہ تفتازانی نے علم کی تعریف میں ” من ‘ کے لفظ کو لا کر اشارہ کیا ہے کیونکہ یہ محض اصطلاح ہے اور خانہ زاد قید ہے، یہ اعترضا علامہ خیالی نے اپنے منبیہ میں کیا ہے، لیکن اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا یہ کہ حیوانتا سے علم غیر احساسی (یعنی عقل کے ادراک) کی نفی کی گی ہے اور باعلم احساسی تو وہ حیوانات کے لئے ثابت ہے (کیونکہ وہ اپنے حواس خمسہ سے ادراک کرتے ہیں) لہٰذا اگر حیوانات کے لئے علم احساسی کو ثابت کیا جائے تو وہ عرف اور لغت کے خلاف نہیں ہے۔ اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ علم کی تعریف جو حواس کے ادراک کو شامل ہے اس سے مراد ہے عقل کا حواس کے ذریعہ ادراک کرنا نہ کہ نفس احساس، کیونکہ متکلمین نے تصریح کی ہے کہ مدرک صرف عقل ہے اور عنقیرب کتاب میں آئے گا کہ حواس تو صرف ادراک کے آلات ہیں اس لئے حیوانات جو حواس کے ذریعہ ادراک کرتے ہیں اس کو علم نہیں کہا جائے گا کیونکہ وہ اپنی عقل سے حواس کے ذریعہ ادراک نہیں کرتے اور عرف اور لغت میں علم ذوی العقول کے ادراک ہی کے ساتھ مختص ہے۔ (حاشیۃ عبدالحکیم علی الخیالی ص ١٥٢، مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ کوئٹہ ١٣٩٧ ھ)
پرندوں اور حیوانوں کی معرفت اور علم کے شواہد
امام رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :
بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پرندوں اور حشرارت الارض کو ایسے لطیف اعمال کا الہام کیا ہے جن کو جود میں لانے اور بہ روئے کار لانے سے اکثر عقلاء عاجز ہیں، اور جب ایسا ہوسکتا ہے تو یہ کیوں نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ نے پرندوں اور حیوانوں کو اپنی معرفت کا الہام کردیا ہو، اور ان کو دعا کرنے، تسبیح پڑھنے اور نماز پڑھنے کا الہام کردیا ہو یا ان کو ان چیزوں کا علم عطا فرما دیا ہو، ہم دیکھتے ہیں کہ مکڑی مختلف حیلوں اور ہتھکنڈوں سے مکھیوں اور مچھروں کو اپنے جالے میں پھنسا لیتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ شہد کی مکھی مسدس شکل میں شہد کا چھتا بنا لیتی ہے اور اس کو ایسی کاری گری سے بناتی ہے کہ ماہر انجینئر بھی اس کی صنعت کو دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں، پھر شہد کی مکھیوں کی ایک ملکہ ہوتی ہے جو اپنی ریاست کا نظام چلاتی ہے اور تمام مکھیاں اس کے احکام کے تابع ہوتی ہیں، اور ہم دیکھتے ہیں کہ سارس اپنی موافق ہوا اور موسم کو طلب کرنے کے لئے عالم کی ایک طرف سے دوسری طرف پرواز کرجاتا ہے۔ بعض اوقات وہ یورپ کے سرد موسم میں افریقہ کے گرم علاقوں کی طرف پرواز کرجاتا ہے اور یوں وہ اپنے موافق موسم کی تلاش میں ایک بر اعظم سے دور سے بر اعظم کی طرف سفر کرتا ہے، اسی طرح جو درندے دوسرے حیوانوں کا شکار کرتے ہیں، وہ بھی بہت عیاری سے اپنا شکار حاصل کرتے ہیں۔ ہم جنگلوں میں دیکھتے ہیں کہ بعض پرندوں تنکوں سے اپنے گھونسلے بناتے ہیں وہ گھونسلے کئی کئی منزلوں کے ہوتے ہیں ان میں اوپر نیچے خانے بنے ہوتے ہیں جو کمروں کے قائم مقام ہوتے ہیں وہ تنکے چن چن کر ان کو موڑ توڑ کر انتہائی باریکی اور فنکاری سے اپنے گھونسلے بنات یہیں، ان کو دیکھ کر بےساختہ کہنا پڑتا ہے کہ نص
نے ان پرندوں اور حیوانوں کو ضرور ان کاموں کی معرفت اور عقل عطا فرمائی ہے کیونکہ اگر ان میں ان کاموں کے لئے عقل اور معرفت نہ ہو تو صرف حواس خمسہ سے ان کاموں کو انجام نہیں دیا جاسکتا۔ (تفسیر کبیرج ٨ ص 402-403 ملحضاً و موضحاً مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٥ ھ)
امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
مجاہد نے کہا انسان نماز پڑھتا ہے اور باقی مخلوق تسبیح پڑھتی ہے۔ امام ابن جریر نے کہا اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ہر نمازی کو اپنی نماز کا علم ہے اور ہر تسبیح پڑھنے والے کو اپنی تسبیح کا علم ہے۔ (جامع البیان جز ١٨ ص ٢٠٣ مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)
قرآن مجید میں ہے :
(النمل : ١٦) (سلیمان نے کہا) اے لوگو ! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گی ہے۔ اور ہدہد نے سلیمان سے کہا :
(النمل : ٢٣) میں نے دیکھا ان پر ایک عورت حکومت کر رہی ہے اور اس کو ہر قسم کی چیزوں سے کچھ نہ کچھ دیا گیا ہے۔
اور جب پرندے باتیں کرسکتے ہیں اور دور دراز کی خبریں پہنچ اسکتے ہیں تو وہ اللہ کی تسبیح بھی کرسکتے ہیں اور نماز بھی پڑھ سکتے ہیں۔
امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ھوازن القشیری المتوفی ٤٦٥ ھ لکھتے ہیں :
تسبیح دو قسم کی ہے ایک تسبیح قول اور نطق کے ساتھ ہے اور دوسری دلالت اور خلق کے ساتھ ہے، سو جو تسبیح دلالت اور خلق کے ساتھ ہے وہ ہر مخلوق کرتی ہے، پھر ایک تسبیح حیوانات کے ساتھ خاص ہے اور ایک تسبیح عقلاء کے ساتھ خاص ہے، پھر اس تسبیح کی بھی دو قسمیں ہیں ایک تسبیح بصیرت کے ساتھ ہے اور دوسری تسبیح بغیر عرفان اور بصیرت کے ہوتی ہے اول الذکر مقبول ہے اور ثانی الذکر مردود ہے۔ (لطائف الاشارات ج ٢ ص 371 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٢٠ ھ)
جمادات، نباتات اور حیوانات کے علم پر قرآن مجید سے دلائل
قرآن مجید میں ہے :
(البقرہ ٧٤) اور بیشک بعض پتھر اللہ تعالیٰ کے خوف سے گرجاتے ہیں۔
اس کی تفسیر میں امام الحسین بن مسعود الفرا البغوی الشافعی المتوفی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں :
اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ پتھر تو جمادات کے قبیل سے ہیں جو کسی بات کو سمجھتے نہیں ہیں وہ کیسے ڈریں گے، اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ ان میں فہم اور ادراک پیدا کرے گا اور اللہ تعالیٰ کہ الہام کرنے سے وہ ڈریں گے اور اہل السنت والجماعت کا یہ مذہب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عقلاء کے علاوہ جمادات اور تمام حیوانات کو بھی علم عطا فرمایا ہے جس علم پر ان کے سوا اور کوئی واقف نہیں ہے، لہٰذا جمادات نباتات اور حیوانات (اپنے حال کے موافق) نماز بھی پڑھتے ہیں، تسبیح بھی پڑھتے ہیں اور اللہ سے ڈرتے بھی ہیں۔ جیسے اس آیت میں اللہ عزو جل نے فرمایا ہے :
(بنی اسرائیل : ٤٤) ہر چیز اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرتی ہے۔
(النور : ٤١) اور صف بہ صف اڑنے والے (پرندے) ہر ایک کو اپنی نماز اور تسبیح کا علم ہے۔
اور اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے :
(الحج : ١٨) کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ بیشک اللہ یہ کے لئے وہ سب سجدہ کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمینوں میں ہیں اور سورج اور چاند۔
پس مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ ان ایٓات پر ایمان رکھیں اور ان کی حقیقت کا علم اللہ سبحانہ کے سپرد کردیں اور یہ یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے جمادات، نباتات اور حیوانات کو بغیر عقل کے علم عطا فرمایا ہے۔
(معالم التنزیل ج ١ ص ١٣٤ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢٠ ھ)
جمادات، نباتات اور حیوانات کے علم کے ثبوت میں احادیث
حضرت جابر بن سمرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں مکہ کے ایک پتھر کو پہچانتا ہوں جو اعلان نبوت سے پہلے مجھ کو سلام کرتا تھا، میں اس کو اب بھی پہچانتا ہوں۔ یہ حدیث صحیح ہے۔
(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٧٧، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٦٢٤، مسند الطیالسی رقم الحدیث : ١٩٠٧ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١١ ص ٤٦٤، سنن الداری رقم الدیث : ٢٠ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٤٨٢ المعجم الکبیر رقم الحدیث :2028، 1961، 1961، 1907 مصنف ابن ابی شیبہ ج ١١ ص ٤٦٤، سنن الدارمی رقم الحدیث : ٢٠ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٤٨٢ المعجم الکبیر رقم الحدیبث : ٢٠٢٨، ١٩٦١، ١٩٠٧ ء المعجم الاوسط رقم الدیث : ٢٠٣٣ المعجم الصغیر رقم الدیث : ١٦٧ شرح السنتہ رقم الدیث : ٣٧٠٩ تایخ دمشق الکبیر لابن عساکر ج ٤ ص 244، رقم الحدیث : ١١٣١ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤١ ھ دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٢ ص ١٥٣ )
حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے احد پہاڑ ظاہر ہوا تو آپ نے فرمایا : احد پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٨٢-١٤٨١ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣٩٢ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٠٧٩ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٤ ص ٥٣٩ مسند احمد ج ٥ ص 424-425 صحیح ابن خزیمہ رقم الدیث : ٢٣١٤، صحیح ابن حبان رقم الحدی : ٦٥٠٣-٦٥٠١ السنن الکبری للبیہقی ج ٤ ص 122، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٥ ص 238-239)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی، پھر لوگوں کی طرف منہ کر کے فرمایا : ایک شخص ایک گائے لے کر جا رہا تھا، جب وہ تھک گیا تو وہ گائے پر سوار ہوگیا اور اس کو مارا گائے نے کہا میں اس لئے نہیں پیدا کی گی، میں صرف زمین میں ہل چلانے کے لئے پیدا کی گئی ہوں تو لوگوں نے کہا سبحان اللہ کیا گائے باتیں کرتی ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اور ابوبکر اور عمر اس پر ایمان لاتے ہیں۔ اس وقت حضرت ابوبکر اور حضرت عمر وہاں موجود نہیں تھے، اور آپ نے فرمایا : ایک آدمی اپنی بکریوں کو لے کر جا رہا تھا، اچانک بھیڑیے نے ان میں سے ایک بکری پر حملہ کیا، اس کے مالک نے بھیڑیے سے اس بکری کو چھڑا لیا تو بھیڑیے نے کہا درندوں کے دن اس بھیڑے کا کون رکھوالا ہوگا ؟ یعنی قیامت کے دن ان بکریوں کا میرے سوا کوئی رکھوالا نہیں ہوگا، لوگوں نے کہا سبحان اللہ کیا بھیڑیا باتیں کرتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اس پر میں ایمان لاتا ہوں، اور ابوبکر اور عر اور وہ دونوں اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٣٢٤، ٣٤٧١، ٣٦٦٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٨٨، (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٦٧٧، ٣٦٩٥، سنن ابو دائود الطیالسی رقم الحدیث : ٢٣٥٤، مسند الحمیدی رقم الحدیث : ١٠٥٤ مسند احمد ج ٢ ص 245-246 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :6485-6486)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر (رض) حرا (پہاڑ) پر تھے، اس کی چٹان ہلنے لگی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پر سکون ہوجا، تجھ پر صرف نبی ہے یا صدیق یا شہید ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤١٧، (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٦٩٦، السنن الکبری ٰ للنسائی رقم الحدیث : ٨٢٠٧)
حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مکہ کے اطراف میں جا رہے تھے، مکہ کے پہاڑوں اور درختوں کے درمیان، آپ کسی درخت اور پہاڑ سے نہیں گزرتے تھے مگر وہ کہتا تھا السلام علیک یا رسول اللہ ! ،
(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٦٢٦ سنن الدارمی رقم الحدیث : ٢١ المستدرک ج ٢ ص ٦٢٠ دلائل النبوۃ لابی نعیم رقم الحدیث ٢٨٩ تاریخ دمشق الکبری لا بن عسا کرج ٤ ص 244 رقم الحدیث :1130 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ)
حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خطبہ دیتے تو ستونوں میں سے ایک ستون کے ساتھ نیک لگاتے تھے وہ ستون کھجور کا تنا تھا، جب آپ کے لئے منبر بنایا گیا اور آپ اس پر بیٹھ گئے تو وہ ستون پریشان ہوگیا اور جس طرح اونٹنی روتی ہے اس طرح رویا حتیٰ کہ اہل مسجد نے اس کی آواز سنی حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر سے اترے اور اس ستون کو گلے لگایا پھر وہ پرسکون ہوگیا۔ (شرح السنتۃ رقم الحدیث : ٣٦١٨ صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٨٥، ٣٥٨٤، ٩١٨ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٣٩٥ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤١٧ مصنف عبدالرزاق قرم الحدیث ٥٢٥٤ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١١ ص 485-486 مسند احمد ج ٣ ص 395، 293، 206 صحیح ابن حبان رقم الحدیث 6508 دلائل النبوۃ لابی نعیم رقم الحدیث : ٣٠٣ دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٢ ص 560، 556)
ان تمام احادیث میں پتھروں، درختوں اور حیوانوں کے بولنے، کلام کرنے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر سلام عرض کرنے کا ثبوت ہے اور جب یہ بول سکتے ہیں اور سلام عرض کرسکتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی تسبیح بھی پڑھ سکتے ہیں بلکہ احادیث صحیحہ میں صراحتۃ طعام اور کنکریوں کے تسبیح پڑھنے کا بیان ہے۔
کنکریوں، طعام اور پرندوں کی تسبیح کے متعلق احادیث اور آثار
حضرت عبداللہ بن معسود (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم معجزات کو برکت شمار کرتے تھے اور تم ان کو ڈرانے والی اشیاء خیال کرتے ہو۔ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں تھے، (ناگاہ) پانی کم ہوگیا۔ آپ نے فرمایا (جس قدر پانی بھی ہے) وہ لے آئو، ہم ایک برتن میں تھوڑا سا پانی لائے، آپ نے اس برتن میں اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا : اللہ کی برکت والے، مبارک اور پاک کرنے والے پانی کی طسرف آئو، اور بیشک میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگلیوں سے پانی جاری ہو رہا تھا اور جس وقت کھا ا کھایا جاتا تھا تو ہم کھانے کی تسبیح سنا کرتے تھے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث :3569 (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٩ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١١ ص ٤٧٤، مسند ابویعلی رقم الحدیث : ٥٣٧٢، مسند احمد ج ١ ص ٤٦٠ رقم الحدیث : ٤٣٩٣، عالم الکتب، دلائل انبوۃ الابی نعیم رقم الحدیبث : ٣١٢ دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٦ ص ٦٣ )
سوید بن زید بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو ذر (رض) کو مسجد میں اکیلا بیٹھے ہوئے دیکھا، میں نے اس کو غنیمت جانا اور ان کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ میں نے ان کے سامنے حضرت عثمان (رض) کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا میں حضرت عثمان کے متعلق کلمہ حق کے سوا اور کچھ نہیں کہتا اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس موقع کی تلاش میں رہتا تھا کہ تنہائی میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھ کر کچھ حاصل کروں، ایک دن میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو باہر نلکتے ہوئے دیکھا، میں آپ کے پیچھے گیا، آپ ایک جگہ بیٹھ گئے میں بھی آپ کے پاس بیٹھ گیا۔ آپ نے پوچھا اے ابوذر ! تم کس لئے آئے ہو۔ میں آپ کے پیچھے گیا، آپ ایک جگہ بیٹھ گئے میں بھی آپ کے پاس بیٹھ گیا۔ آپ نے پوچھا اے ابوذر ! تم کس لئے آئے ہو ؟ میں نے کہا اللہ اور اس کے رسول کے لئے ! پھر حضرت ابوبکر (رض) آئے اور وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دائیں جابن بیٹھ گئے۔ آپ نے پوچھا : اے ابوبکر تم کس لئے آئے ہو ؟ انہوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول کے لئے، پھر حضرت عمر (رض) آئے اور وہ حضرت ابوبکر کی دائیں جانب بیٹھ گئے، آپ نے پوچھا اے عمر تم کس لئے آئے ہو۔ انہوں نے بھی کہا اللہ اور اس کے رسول کے لئے، پھر حضرت عثمان
آئے اور وہ حضرت عمر کی دائیں جانب بیٹھ گئے آپ نے پوچھا : اے عثمان تم کس لئے آئے ہو ؟ انہوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول کے لئے !
حضرت ابوذر نے کہا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سات یا نو کنکریاں لیں وہ آپ کے ہاتھ میں تسبیح پڑھنے لگیں حتیٰ کہ میں نے شہد کی مکھی کی طرح ان کے بھنبھنانے کی آواز سنی، پھر آپ نے ان کنکریوں کو رکھ دیا تو وہ خاموش ہوگئیں، پھر آپ نے ان کنکریوں کو حضرت ابوبکر (رض) کے ہاتھ میں رکھ دیا تو وہ ان کے ہاتھ میں تسبیح پڑھنے لگیں، حتیٰ کہ میں نے شہد کی مکھی کی طرح ان کے بھنبھنانے کی آواز سنی، پھر حضرت ابوبکر نے ان کنکریوں کو رکھ دیا تو وہ خاموش ہوگئی، پھر آپ نے حضرت عمر کے ہاتھ میں ان کنکریوں کو رکھ دیا تو وہ ان کے ہاتھ میں تسبیح پڑھنے لگیں حتیٰ کہ میں نے شہد کی مکھی کی طرح ان کے بھنبھنانے کی آواز سنی، پھر حضرت عمر نے ان کنکریوں کو رکھ دیا تو وہ خاموش ہوگئیں، پھر آپ نے ان کنکریوں کو حضرت عثمان کے ہاتھ میں رکھ دیا تو وہ ان کے ہاتھ میں تسبیح پڑھنے لگیں، حتیٰ کہ میں نے شہد کی مکھی کی طرح ان کے بھنبھنانے کی آواز سنی، انہوں نے پھر ان کو رکھ دیا تو وہ خاموش ہوگئیں۔
(مسند الجزار رقم الحدیث : ٢٤١٤، ٣٤١٣، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ١٢٦٥، حافظ الیثمی نے کہا ہے کہ امام بزار نے اس حدیث کو دو سندوں سے روایت کیا ہے، ایک سند کے تمام راوی ثقہ ہیں اور دوسری سند کے بعض راویوں میں ضعف ہے۔ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ٤١٠٣، دالئل النبوۃ للبیہقی ج ٦ ص 64-65)
حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں :
صحیح بخاری میں ہے ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کھانا کھاتے تھے اور طعام کی تسبیح سنتے تھے۔ (رقم الحدیث : ٧٥٧٩) اس حدیث کا ایک شاہد امام بیہقی نے ذکر کیا ہے۔ (دلائل النبوۃ ج ٦ ص ٦٣ الشفاء ج ١ ص 229-230 دارلفکر بیروت، ١٤١٥ ھ) اور قاضی عیاض نے جعفر بن محمد سے روایت کیا ہے کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بمیار ہوگئے تو حضرت جبریل نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے ایک طباق میں انار اور انگور لے کر آئے اور وہ طعام تسبیح کر رہا تھا۔ (الشفاء ج ١ ص 230) اور حضرت ابو ذر (رض) سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ میں کنکریوں نے تسبیح پڑھی، پھر حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان کے ہاتھ میں کنکریوں نے تسبیح پڑھی۔ (مسند البزار رقم الحدیث : ٢٤١٤، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ١٢٦٥ )
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں ہرچند کہ یہ احادیث اخبار احار ہیں لیکن ان کا مجموعہ قطعیت کا فائدہ دیتا ہے۔ البتہ کنکریوں کی تسبیح والی حدیث کی سند ضعیف ہے۔ (فتح الباری ج ٧ ص 292، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤٢٠ ھ)
ہم نے حافظ الہیثمی متوفی ٨٠٧ ھ کے حوالے سے لکھا ہے کہ کنکریوں کی تسبیح والی حدیث کی ایک سند ضعیف ہے اور دوسری سند کے راوی ثقہ ہیں، غالباً حافظ ابن حجر نے امام بزار کی ضعیف سند کے اعتبار کی وج ہ سے لکھا ہے اور دوسری سند ان کے پیش نظر نہیں تھی۔
حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ نے کنکریوں اور طعام کی تسبیح کی مذکور الصدر احادیث بھی ذکر کی اور ان کے علاوہ مزید احادیث بھی بیان کی ہیں : وہ یہ ہیں :
امام ابو نعیم نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرموت کے سرداروں کا ایک وفد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا ان میں اشعت بن قیس بھی تھے، انہوں نے کہا ہم نے آپ کے لئے دل میں ایک چیز چھپائی ہے بتایئے وہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : سبحان اللہ یہ معاملہ تو کاہنوں کے ساتھ کیا جاتا ہے، انہوں نے کہا پھر ہم کیسے یقین کریں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پانی ہتھیلی میں کنکریاں لیں اور فرمایا یہ کنکریاں گواہی دیں گی کہ میں اللہ کا رسول ہوں، تب ان کنکریوں نے آپ کے ہاتھ میں تسبیح پڑھی۔ انہوں نے کہا ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں۔
امام ابوالشیخ نے کتاب العظمتہ میں حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ثرید کا طعام (گوشت کے سالن میں بھگوئے ہوئے روٹی کے ٹکڑے) لایا گیا، آپ نے فرمایا یہ طعام تسبیح کر رہا ہے۔ صحابہ نے کہا یا رسول اللہ آپ اس کی تسبیح سمجھ رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک شخص سے کہا اس پیالہ کو قریب رکھو، اس نے اس کو قریب رکھا، اس نے کہا ہاں ! یا رسول اللہ ! یہ طعام تسبیح کر رہا ہے، پھر آپنے وہ پیالہ دوسرے شخص کے قریب رکھا اس نے بھی اسی طرح کہا ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! آپ یہ سب کو سنا دیں ! آپ نے فرمایا اگر اس نے کسی شخص کے پاس تسبیح نہیں پڑھی تو تم سمجھو گے اس کے کسی گناہ کی وجہ سے ایسا ہوا ہے۔
امام ابوالشیخ نے خنیثمہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت ابوالدرداء (رض) دیگچی میں کھانا پکا ررہے تھے، کچھ طعام ان کے چہرے پر گرا تو وہ تسبیح کرنے لگا۔
امام بیہقی اور امام ابونعیم نے قیس یس روایت کیا ہے کہ حضرت ابوالدرداء اور حضرت سلمان ایک پیالے سے کھانا کھا ریہع تھے اس پیالہ کا طعام تسبیح کرنے لگا۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٦ ص 263) (الخصائص الکبریٰ ج ٢ 125-126 مطبوعہ دارلاکتب العلمیہ بیروت، ١٤٠٥ ھ)
حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ وان من شیء الایسبح بحمدہ (بنو اسرائیل : ٤٤) کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
امام طبرانی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبدالرحمٰن بن قرط (رض) سے روایت کیا ہے کہ شب معراج حضرت جبریل (علیہ السلام) ، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مقام ابراہیم اور زمزم کے درمیان سے مسجد اقصیٰ تک لے گئے، حضرت جبریل آپ کی دائیں طرف تھے اور حضرت میکائیل بائیں طرف تھے۔ وہاں سے وہ آپ کو ساتوں آسمانوں تک لے گئے، پھر آپ وپ اس آئے آپ نے فرمایا میں نے بنلد آسمانوں میں یہ تسبیح سنی : بلند آسمان اللہ تعالیٰ کی ہیبت اور اس کے خوف سے اس کی تسبیح کرتے ہیں، وہ بلند اور برتر سبحان ہے۔
امام احمد حضرت انس بن مالک (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اونٹینوں اور سواریوں پر سواروں کو دیکھ کر فرمایا سلامتی کے ساتھ سوارویں پر سوار ہو اور ان کو سلامتی کے ساتھ چھوڑ دو ، اور راستوں اور بازاروں میں اپنی سواریوں کو باتیں کرنے کی کرسیاں نہ بنائو۔ سنو ! بہت سی سواریاں اپنے سواروں سے زیادہ اللہ کا ذکر کرتی ہیں، اور ان سے عمدہ اور افضل ہوتی ہیں۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٤٣٩ طبع قدیم، اس کی روایت میں امام احمد منفرد ہیں اور اس کی سند حسن ہے، حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث : ١٥٥٦٦ دارالحدیث قاہرہ)
امام نسائی اپنی سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مینڈک کو قتل کرنے سے منع فرمایا اور فرمایا اس کا بولنا تسبیح ہے۔
(سنن نسائی اور سنن کبریٰ میں یہ حدیث نہیں، اس حدیث کو امام سیوطی نے امام ابن المنذر اور امام ابن ابی حاتم کے حوالے سے ذکر کیا ہے۔ در منثور ج ٥ ص 256 البتہ امام نسائی نے اس حدیث کو روایت کیا ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک چیونٹی نے کسی نبی کو کاٹ لیا، تو انہوں نے چیونٹیوں کی پوری بستی کو جلانے کا حکم دیا تب اللہ عزوجل نے ان کی طرف یہ وحی کی کہ آپ کو صرف ایک چیوٹنی نے کاٹا تھا اور آپ نے اللہ کی تسبیح کرنے والی پوری مخلوق کو ہلاک کر ڈالا السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٤٨٧٠)
امام احمد نے اپنی سند کے ساتھ حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک اعربای طیالسی جبہ پہنے ہوئے تھا جس کے ریشمی کف اور یشمی بٹن تھے تھے، اس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر تمہارے پیغمبر کا یہ ارادہ ہے کہ وہ چرواہوں کو سرفراز کرے اور سرداروں کو سرنگوں کرے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غضب ناک ہوئے اور اس کا جبہ کھینچتے ہوئے فرمایا : کیا میں تجھ کو جانوروں (کی کھال) کا لباس پہنے ہوئے نہیں دیکھ رہا ! پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آ کر بیٹھ گئے اور فرمایا جب حضرت نوح (علیہ السلام) کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور فرمایا میں تمہیں بہ طور وصیت کے دو چیزوں کا حکم دیتا ہوں اور دو چیزوں سے منع کرتا ہوں، میں تم کو اللہ کا شریک قرار دینے اور تکبر سے منع کرتا ہوں اور تم کو لا الہ الا اللہ پڑھنے کا حکم دیتا ہوں، کیونکہ اگر تمام آسمانوں اور زمینوں کو اور جو کچھ ان میں ہے، ان کو اگر میزان کے ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور دوسرے پلڑے میں لا الہ الا اللہ کو رکھا جائے تو وہ پلڑہ جھک جائے گا اور اگر تمام آسمانوں اور زمینوں کو ایک حلقہ بنادیا جائے اور ان پر لا الہ الا اللہ کو رکھ دیا جائے تو وہ ان کو پاش پاش کر دے گا اور میرا دوسرا حکم یہ ہے کہ سبحان اللہ وبحمدہ پڑھا کرو، کیونکہ یہ ہر چیز کی نماز ہے اور اسی کے سبب سے ہر ایک کو رزق دیا جاتا ہے۔
مسند احمد ج ٢ ٢٢٥ طبع قدیم، احمد شاکر نے کہا اس کی سند صحیح ہے، حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث : ٦٥٨٣ دارالحدیث قاہرہ ١٤١٥ ھ مجمع الزوائد ج ٤ ص ٢٢٠ )
حسن بصری یہ کہتے تھے کہ جب درخت سرسبز ہوتا ہے تو وہ تسبیح کرتا ہے اور جب وہ کاٹ دیا جاتا ہے اور سوکھ کر لکڑی ہوجاتا ہے تو اس کی تسبیح مقنطع ہوجاتی ہے۔ اس کی تائبید اس حدیث سے ہوتی ہے۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ یا مکہ کے کسی باغ سے گزرے، آپ نے وہاں دو ایسے انسانوں کی آواز سنیں جن کو قبروں میں عذاب ہو رہا تھا۔ آپ نے فرمایا ان کو قربوں میں عذاب ہو رہا ہے اور کسی ایسی وجہ سے عذاب نہیں ہو رہا جس سے بچنا دشوار ہو، پھر فرمایا کیوں نہیں ! ان میں سے ایک پیشاب کے قطروں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلی کرتا تھا، پھر آپ نے درخت کی ایک شاخ منگائی اور اس کے دو ٹکڑے کئے اور ہر قبر پر ایک ٹکڑا رکھ دیا، آپ سے عرض کیا گیا آپ نے ایسا کیوں کیا ہے آپ نے فرمایا جب تک شاخیں خشک نہیں ہوں گی ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢١٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٢) (تفسیر ابن کثیر ج ٣ مطبوعہ دارلفکر بیروت، ١٤١٩ ھ)
علم کی تعریف میں خلاصہ مبحث
النور : ٤١ میں ہے ہر ایک کو اپنی صلاۃ اور تسبیح کا علم ہے، ہم نے یہ بیان کیا ہے کہ متکلمین اور حکماء کی اصطلاح کے مطباق علم ذوی العقول کے ساتھ مختص ہے اور عرف اور لغت میں حیوانات کے ادراک پر علم کا اطلاق نہیں کیا جاتا اور قرآن مجید چونکہ لغت عرب کے موافق نازل ہوا ہے اس لئے اس میں حیوانات کے ادراک پر علم کا اطلاق مجازاً ہے اور قرآن مجید کی آیات اور یہ کثرت احادیث سے ثابت ہے کہ جمادات، نباتات اور حیوانات تبیح کرتے ہیں اور ان پر علم کا اطلاق بھی قرآن اور حدیث سے ثابت ہے اس لئے تحقیق یہ ہے کہ جس علم کا عقل سے ادراک ہوتا ہے وہ ذوی العقول کے ساتھ متخص ہے اور اللہ تعالیٰ نے جمادات، نباتات اور حیوانات میں بغیر عقل کے علم پیدا فرمایا۔ النور : ٤١ کے علاوہ جمادات، نباتات اور حیوانات کے لئے علم کے ثبوت میں یہ احادیث ہیں :
حضرت یعلی بن مرہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
مامن شی الایعلم انی رسول اللہ الاکفرۃ ارفسقۃ الجن والانس (ہر چیز کو یہ عمل ہے کہ میں رسول اللہ ہوں صرف وسائے کافر جن اوانس کے۔
المعجم الکبیرج ٢٢ ص ٢٦٢، البدایہ والنہایہ ج ٤ ص 534 طبع جدید جمع الجوامع رقم الدیث : ١٨٨٠٤ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ٤١٥٩ کنز العمال رقم الحدیث : ٣١٩٢٣ )
حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
انہ لیس شی بین السماء والارض الا یعلم انی رسول اللہ الا عاصی الجن والانس۔ آسمان اور زمین کے درمیان ہر چیز کو یہ علم ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں سوائے نافرمان جن اور انس کے۔ (مسند البزار رقم الحدیث : ٢٤٥٢، مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٤١٦٤ )
حضرت ابن عباس کی روایت میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
مابین لابتیھا احد الایعلم انی نبی الاکفرۃ الجن والانس۔ (مدینہ کے دو پتھریلے کناروں کے درمیان ہر چیز کو علم ہے کہ میں نبی ہوں سوائے کافر جن اور انسانوں کے۔ (اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہی اور اس کی سند کے بعض راوی ضعیف ہیں مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٤١٥٤ )
خلاصہ یہ ہے کہ ذوی العقول ہوں یا غیر ذوی العقول قرآن اور سنت میں ہر ایک کے ادراک پر علم کا اطلاق ہے البتہ اصطلاحاً علم ذوی العقول کے ساتھ متخص ہے، میرے زمانہ تعلیم میں غالباً ١٩٦٠ ء میں ہمارے دو بزرگوں شیخ الحدیث علامہ سردار احمد صاحب لائل پوری قدس سرہ اور محدث اعظم حضرت علامہ سید احمد سعید کا ظمی ملتانی نور اللہ مرقدہ کے درمیان اس میں مباحثہ ہوا تھا، اول الذکر حضرت کا یہ رجحان تھا کہ قرآن مجید اور احادیث میں حیوانات کے ادراک پر علم کا اطلاق ہے اور ثانی الذکر کی تحقیق یہ تھی کہ یہ اطلاق مجاز ہے اور حقیقتاً اور اصطلاحاً علم ذوی العقول کے ساتھ متخص ہے۔ میں اس وقت ابتدائی کتابیں پڑھتا تھا، مجھے ملعوم نہیں ان حضرت ا کے کیا دلائل تھے، لیکن یہ معلوم تھا کہ اول الذکر حضرت صاحب اسی آیت یعنی النور : ٤١ سے استدلال کرتے تھے اور ثانی الذکر بزرگ شرح عقائد میں مذکور علم کی تعریف سے استدلال کرتے تھے اور اس آیت میں علم کے اطلاق کو اطلاق مجازی قرار یدتے تھے، اب چونکہ زیر تفسیر یہ آیت آگئی ہے تو میں نے اپنی بساط کے مطابق علم کی تحقیق کی ہے، اگر یہ برحق ہے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف سے ہے ورنہ میری فکر کی خطا اور مطالعہ کی کمی ہے۔واللہ تعالیٰ علم بالصواب !
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 41
سبحان الله