اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَاِذَا كَانُوۡا مَعَهٗ عَلٰٓى اَمۡرٍ جَامِعٍ لَّمۡ يَذۡهَبُوۡا حَتّٰى يَسۡتَاۡذِنُوۡهُ ؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ يَسۡتَـاْذِنُوۡنَكَ اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ يُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ ۚ فَاِذَا اسۡتَاْذَنُوۡكَ لِبَعۡضِ شَاۡنِهِمۡ فَاۡذَنۡ لِّمَنۡ شِئۡتَ مِنۡهُمۡ وَاسۡتَغۡفِرۡ لَهُمُ اللّٰهَؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞- سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 62
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِنَّمَا الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَاِذَا كَانُوۡا مَعَهٗ عَلٰٓى اَمۡرٍ جَامِعٍ لَّمۡ يَذۡهَبُوۡا حَتّٰى يَسۡتَاۡذِنُوۡهُ ؕ اِنَّ الَّذِيۡنَ يَسۡتَـاْذِنُوۡنَكَ اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ يُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ ۚ فَاِذَا اسۡتَاْذَنُوۡكَ لِبَعۡضِ شَاۡنِهِمۡ فَاۡذَنۡ لِّمَنۡ شِئۡتَ مِنۡهُمۡ وَاسۡتَغۡفِرۡ لَهُمُ اللّٰهَؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ رَّحِيۡمٌ ۞
ترجمہ:
مومنین صرف وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر حقیقتاً ایمان رکھتے ہیں، اور جب وہ کسی مجتمع ہونے والی مہم میں رسول کے ساتھ ہوتے ہیں تو ان کی اجازت کے بغیر کہیں نہیں جاتے، بیشک جو لوگ آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں وہی حقیقت میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں، پس جب وہ اپنے کسی کام کے لئے آپ سے اجازت طلب کریں تو آپ ان میں سے جس کو چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں، بیشک اللہ بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : مومنین صرف وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر حقیقتاً ایمان رکھتے ہیں اور جب وہ کسی مجتمع ہونے والی مہم میں رسول کے ساتھ ہوتے ہیں تو ان کی اجازت کے بغیر کہیں نہیں جاتے، بیشک جو لوگ آپ سے اجازت طلب کرتے ہیں، وہی حقیقت میں اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتے ہیں۔ پس جب وہ اپنے کسی کام کے لئے آپ سے اجازت طلب کریں تو آپ ان میں سے جس کے لئے چاہیں اجازت دے دیں اور ان کے لئے اللہ سے مغفرت طلب کریں، بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بےحد رحم فرمانے والا ہے۔ (النور : ٦٢ )
امر جامع (مجتمع ہونے والی مہم) کا بیان
اس آیت میں فرمایا ہے جب وہ کسی امر جامع میں رسول کے ساتھ ہوتے ہیں :
امر جامع سے مراد جہاد کا لشکر ہے، یا پانچ وقت کی نماز ہے یا نماز جمعہ ہے یا نماز عید یا کسی اہم کام کے لئے مشورہ کرنے کی مجلس ہے۔
مفسرین نے کہا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جمعہ کے دن جب منبر پر خطبہ دے رہے ہوتے اور اس وقت کوئی شخص اپنے کسی کام یا کسی ضرورت کی بناء پر مسجد سے جانا چاہتا تو وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے کھڑا ہوجاتا، آپ اس کو دیکھ کر جان لیتے کہ یہ اجازت لینے کے لئے کھڑا ہوا ہے، پھر آپ ان میں سے جس کو چاہتے اجازت دے دیتے۔
مجاہد نے کہا جمعہ کے خطبہ میں امام ہاتھ کے اشارہ سے اجازت دے دے، اہل علم نے کہا اسی طرح ہر وہ مہم جس میں مسلمان امام کے ساتھ جمع ہوں اس میں مسلمان امام کی اجازت کے بغیر اس مجلس سے نہ نکلیں، اور جب کوئی شخص اجازت طلب کرے تو امام کو اختایر ہے وہ چاہے تو اجازت دے اور چاہے تو اجازت نہ دے اور اجازت لینا اس وقت ضروری ہے جب کوئی طبعی مانع پیش نہ آئے، مثلاً اگر مسجد کے اجتماع میں عورت کو حیض آجائے یا کسی شخص کو احتلا ہوجائے تو وہ اجازت طلب کئے بغیر بھی جاسکتا ہے۔ (جامع البیان جز 18 ص 234-٢٣٣ تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ٨ ص 2652-2654 معالم التنزیل ج ٣ ص 432-433)
پیری اور مریدی کے آداب
امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ھوازن قشیری متوفی ٤٦٥ ھ لکھتے ہیں :
مسلمان پر لازم ہے کہ وہ صحیح العقیدہ عالم باعمل متبع شریعت کے ہاتھ پر بیعت ہو کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٢٣، صحیح البخاری کتاب العلم باب : ١٠ کنز العمال رقم الحدیث : ٢٨٦٧٩، التاریخ الکبیر للبخاری ج ٨ ص ٢١٨ الکاف الشاف اللعسقلانی رقم الحدیث : ١٢٤) اور مرید بن ایسے عالم کے سامنے ایسے ہیں جیسے امت نبی کے سامنے ہوتی ہے (کیونکہ حدیث میں ہے جس نے متقی عالم کی اقتداء میں نماز پڑھی اس نے گویا نبی کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ علامہ شامی نے اس حیدث کو نقل کر کے لکھا ہے کہ اس کی تخریج نہیں مل سکی۔ ردا المختارج ٢ ص ٢١٨) پس مرید کی شرط یہ ہے کہ وہ ایسے شخص کی اجازت کے بغیر سانس بھی نہ لی اور جس نے ایسے شخص کی مخالفت کی وہ صدق کی بو بھی نہیں پا سکے گا، اور اگر اس سے کوئی مخالف سرزد ہوجائے تو وہ اس سے معذرت کرے اور جب مرید شیخ سے معذرت کرے تو شیخ پر واجب ہے کہ وہ اس کی تقصیر معاف کر دے، کیونکہ مریدین شیخ کی اولاد کے قائم مقام ہیں، شیخ پر واجب ہے کہ وہ اپنے احوال اور واردات سے اپنے مریدین پر توجہ کرے۔ (واضح رہے کہ جو بےعلم ہو یا متبحر عالم نہ ہو اس کا مرید ہونا جائز نہیں ہے) (لطائف الاشارات ج ٢ ص 375-376 ملحضاًت و موضحاً مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٢٠ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 62