لَـيۡسَ عَلَى الۡاَعۡمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الۡمَرِيۡضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلٰٓى اَنۡفُسِكُمۡ اَنۡ تَاۡكُلُوۡا مِنۡۢ بُيُوۡتِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اٰبَآئِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اُمَّهٰتِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اِخۡوَانِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اَخَوٰتِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اَعۡمَامِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ عَمّٰتِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اَخۡوَالِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ خٰلٰتِكُمۡ اَوۡ مَا مَلَكۡتُمۡ مَّفَاتِحَهٗۤ اَوۡ صَدِيۡقِكُمۡؕ لَـيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَاۡكُلُوۡا جَمِيۡعًا اَوۡ اَشۡتَاتًا ؕ فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُيُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِكُمۡ تَحِيَّةً مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ لَعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ۞- سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 61
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
لَـيۡسَ عَلَى الۡاَعۡمٰى حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَى الۡمَرِيۡضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلٰٓى اَنۡفُسِكُمۡ اَنۡ تَاۡكُلُوۡا مِنۡۢ بُيُوۡتِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اٰبَآئِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اُمَّهٰتِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اِخۡوَانِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اَخَوٰتِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اَعۡمَامِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ عَمّٰتِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ اَخۡوَالِكُمۡ اَوۡ بُيُوۡتِ خٰلٰتِكُمۡ اَوۡ مَا مَلَكۡتُمۡ مَّفَاتِحَهٗۤ اَوۡ صَدِيۡقِكُمۡؕ لَـيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَاۡكُلُوۡا جَمِيۡعًا اَوۡ اَشۡتَاتًا ؕ فَاِذَا دَخَلۡتُمۡ بُيُوۡتًا فَسَلِّمُوۡا عَلٰٓى اَنۡفُسِكُمۡ تَحِيَّةً مِّنۡ عِنۡدِ اللّٰهِ مُبٰرَكَةً طَيِّبَةً ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ لَعَلَّكُمۡ تَعۡقِلُوۡنَ۞
ترجمہ:
نابینا پر کوئی حرج نہیں اور نہ لنگڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی حرج ہے اور نہ خود تم پر کوئی حرج ہے کہ تم اپنے گھروں سے کھائو، یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے کھائو اور اپنی ماں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے پا اپنے باپ دادا کے گھروں سے کھائو، یا اپنی مائوں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچائوں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموئوں کے گھروں سے یا اپنی خالائوں کے گھروں سے یا ان گھروں سے جن کی چابیاں تمہارے قبضے میں ہوں یا اپنے دوست کے گھر سے، اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم سب مل کر کھانا یا الگ الگ کھانا پھر جب تک گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں پر سلام کردیا، اللہ سے اچھی دعا کرو کہ برکت ہو اور پاکیزگی اللہ کی طرف سے نازل ہو، اللہ اسی طرح تمہارے لئے آیتیں بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھ لو ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : نابینا پر کوئی حرج نہیں اور نہ لگنڑے پر کوئی حرج ہے اور نہ بیمار پر کوئی حرج ہے اور نہ خود تم پر کوئی حرج ہے کہ تم اپنے گھروں سے کھائو یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے کھائو یا اپنی مائوں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچائوں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے مامووں کے گھروں سے اپنی خالائوں کے گھروں سے یا ان گھروں سے جن کی چابیاں تمہارے قبضے میں ہوں یا اپنے دوست کے گھر سے، اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ تم سب مل کر کھائو یا الگ الگ کھائو، پھر جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں پر سلام کرو، اللہ سے اچھی دعا کرو کہ برکت اور پاکیزگی اللہ کی طرف سے نازل ہو۔ اللہ اسی طرح تمہارے لئے آیتیں بیان فرماا ہے تاکہ تم سمجھ لو۔ (النور :61)
بیماروں اور معذوروں کے ساتھ مل کر کھانے کی اجازت کے اسباب
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا جب یہ آیت نازل ہوئی :
(البقرۃ : ١٨٨) اور تم ایک دوسرے کا مال ناحق طریقہ سے نہ کھائو۔
تو مسلمانوں نے بیماروں، اپاہجوں، اندھوں اور لنگڑوں کے ساتھ کھانے میں حرج سمجھا اور انہوں نے کہا ہمارا سب سے افضل مال تو کھانا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ناحق مال کھانے سے منع فرمایا ہے، اور اندھا جھاتے وقت یہ نہیں دیکھ سکتا کہ پلیٹ میں اچھا طعام کس جگہ ہے، (مثلاً بوٹیاں یا انڈے کس جگہ رکھے ہیں) اور لنگڑا پوری طرح بیٹھنے پر قادر نہیں ہے، اور وہ صحیح طرح نہیں کھا سکتا اور بیمار آدمی کمزوری کی وجہ سے اچھی طرح نہیں کھا سکتا، اس لئے وہ ان معذوروں کے ساتھ کھانا کھانے میں حرج سمجھنے لگے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی یعنی اگر تم اندھوں، بیماروں اور لنگڑوں کے ساتھ کھانا کھائو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٩٨٧٢ تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٤٨٥٨ معالم اتنزیل ج ٣ ص ٤٣٠ الدالمنثور ج ٦ ص ٢٠٥)
سعید بن جبیر اور ضحاک وغیرہما نے کہا کہ لنگڑے، اندھے اور بیمار، تندرستوں کے ساتھ کھانا کھانے میں حرج سمجھتے تھے، کیونکہ لوگوں کو ان سے گھن آتی تھی اور وہ ان کے ساتھ کھانا کھانے میں کراہت محسوس کرتے تھے وہ کہتے تھے کہ اندھا بعض اوقات زیادہ کھا جاتا ہے اور لنگڑا زیادہ جگہ گھیر کر بیٹھتا ہے اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٩٨٧٣ تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الدیث : ١٤٨٦١ مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٢٤٥٢٩، معالم التنزیل ج ٣ ص ٤٣٠ الدالمنثور ج ٦ ص ٢٠٦)
حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک مجذوم کا ہاتھ پکڑ کر اس کو اپنے ساتھ کھانے کے پیالہ میں شریک کیا اور فرمایا بسم اللہ پڑھ کر اللہ پر توکل اور اعتماد کر کے کھائو۔ (مٹنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٢٤٥٢٦ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٦ ھ)
حضرت یحییٰ بن جعدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک سیاہ رنگ کا چیچک کا میرض آیا جس کی کھال چھلی ہوئی تھی، وہ جس شخص کے پاس بھی بیٹھتا وہ اس کو اٹھا دیتا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔ (مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ٢٤٥٢٧ )
سعید بن مسیب نے کہا مسلمان جب کسی غزوہ میں جاتے تو بمیاروں اور اپہجوں کو اپنے گھروں میں چھوڑ جاتے تھے اور اپنے گھروں کی چابیاں انہیں دے دیتے تھے اور وہ لوگ کہتے تھے کہ ہمارے لئے ان کے گھروں سے کھانا پینا حلال نہیں ہے اور اس میں حرج سمجھتے تھے وہ کہتے تھے جب کہ وہ لوگ غائب ہیں تو ہمیں ان کے گھروں سے کھانا پنیا جائز نہیں ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٩٨٧٦ تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٤٨٦٤ مسند البز اور رقم الحدیث : ٢٢٤١، معالم التنزیل ج ٣ ص ٤٣٠، الدالمنثور ج ٦ ص 205-206)
اولاد کے گھروں کو اپنا گھر فرمانا
اس آیت میں فرمایا ہے اور نہ خود تم پر کوئی حرج ہے کہ تم اپنے گھروں سے کھائو۔ اس کی تفسیر میں ایک یہ قول ہے کہ تم اپنی اولاد کے گھروں سے یا اپنی بیویوں کے گھروں سے کھائو تو اس میں تم پر کوئی حرج نہیں ہے۔ حدیث میں ہے :
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر کہا : یا رسول اللہ ! میرے پاس مال بھی ہے اور اولاد بھی ہے اور میرے والد کو میرے مال کی ضرورت ہے ! آپ نے فرمایا تم خود اور تمہارا مال تمہارے والد کی ملکیت ہے اور بیشک تمہاری اولاد تمہاری پاکیزہ کمائی سے ہے سو تم اپنی اولاد کی کمائی سے کھائو۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٢٩٢، مسند احمد ج ١٧٩ شرح معانی الآثار ج ٤ ص ١٥٨ تتحفہ الاخیار بترتیب شرح مشکل الآثار رقم الحدیث : ٥٠٤٣ )
امام طحاوی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کا یہ معنی نہیں ہے کہ بیٹے کا مال باپ کا مال ہے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ بیٹا باپ کے قول سے خارج نہ ہو۔ ابو جعفر محمد بن العباس کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی عمران سے پوچھا اس حدیث کا کیا معنی ہے :” تم خود اور تمہارا مال تمہارے باپ کی ملکیت ہے “ انہوں نے کہا یہ حضرت ابوبکر کے اس جواب کی مثل ہے یا رسولا لہ ! میں خود اور میرا مال آپ کی ملکیت ہے، جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فرمایا تھ مجھے کسی کے مال نے اتنا نفع نہیں پہنچایا جتنا نفع مجھے ابوبکر کے مال نے پہنچایا ہے۔ (تحفہ الاخیار بترتیب شرح مشکل الآثارج ٧ ص 139، داربلنسیہ ریاض : ١٤٢٠ ھ)
وکیلوں کے لئے اپنے مئوکلوں کے گھروں سے کھانے کی اجازت
نیز فرمایا : یا ان گھروں سے جن کی چابیاں تمہارے قبضے میں ہوں۔
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اس سے مراد کسی شخص کا وکیل اور اس کا قیم (کار مختار، منتظم، منیجر) ہے، جو اس کی زمین اور اس کے مویشوں کی دیکھ بھال اور ان کا انتظام کرتا ہو اور اس کی طرف سے اس کے امور اور معاملات کا ذمہ دار اور جواب دہ ہو، اس کے لئے اجازت ہے کہ وہ اس کی زمین کے پھلوں سے کھائے اور اس کے مویشیوں کا دودھ پیے۔
عکرمہ نے کہا جب کوئی شخص کسی کی چابیوں کا مالک ہو تو وہ اس کا خازن ہے تو وہ اس کی چیزوں سے تھوڑی سی چیز کھا سکتا ہے۔
سدی نے کہا ایک شخص دوسرے شخص کو اپنے طعام وغیرہ میں تمصرف بنا دیتا ہے وہ اس میں سے کچھ کھائے تو کوئی حرج نہیں ہے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٩٨٨٢-١٩٨٧٩ معالم التنزیل ج ٣ ص ٤٣١)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ مسلمان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ سفر کرنے میں رغبت رکھتے تھے، وہ اپنے گھروں کی چابیاں اپنے وکیلوں اور کفیلوں کو دے دیتے تھے، اور یہ کہہ کردیتے تھے کہ تمہیں جس چیز کی ضرورت ہو وہ تم کھا لینا ہم نے تمہارے لئے اپنی چیزیں حلال کردی ہیں، اور وکیل یہ کہتے تھے کہ ہمارے لئے ان چیزوں کا کھانا جائز نہیں ہے۔ انہوں نے خوشی سے ہمیں اجازت نہیں دی، ہم ان کے مال کے امین ہیں، تب اللہ عزو جلنے یہ آیت نازل فرمائی۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث، ١٤٨٧٥ مطبوعہ ملتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)
امام عبد بن حمید اپنی سند کے ساتھ ابن المسیب سے ریات کرتے ہیں کہ اہل علم نے کہا کہ یہ آیت مسلمان امینوں کے متعلق نازل ہوئی ہے وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ جہاد پر جانے میں رغبت کرتے تھے اور اپنی چابیاں اپنے امینوں کو دے دیتے تھے اور ان سے یہ کہتے تھے کہ ہم نے تمہارے لئے اپنے گھروں کی کھانے پینے کی چیزیں حلال کردی ہیں اور جن امینوں کو چبیاں دی تھیں وہ یہ کہتے تھے کہ ہرچند کہ انہوں نے اپنے گھروں کی چیزیں حلال کردی ہیں لیکن ہم پر ان کی چیزیں حلال نہیں ہیں۔ ہم تو صرف ان کی چیزوں کے محافظ اور امین ہیں، وہ اس موقف پر قائم رہ حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرما دی، پھر وہ خوشی سے ان چیزوں کو کھانے لگے۔ (الدرالمنثور ج ٦ ص ٢٠٥ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ)
اپنے دوستوں کے گھروں سے کھانے کی اجازت خواہ مل کر یا الگ الگ
اور فرمایا : یا اپنے دوست کے گھر سے اس میں تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم سب مل کر کھائو یا الگ الگ۔
حسن اور قتادہ کی یہ رائے تھی کہ ایک شخص اپنے دوست کے گھر میں اس کی جا ازت کے بغیر داخل ہوسکتا ہے اور اس کی عمدہ اور لذیذ چیزوں کو کھا سکتا ہے خواہ اس کا دوست گھر میں موجود نہ ہو لیکن اس کو وہاں سے چیزیں اٹھا کرلے جانے کی اجازت نہیں ہے۔
قتادہ، ضحاک اور ابن جریج نے کہا یہ آیت بنولیث بن عمرو کے متعلق نازل ہوئی ہے جو بنو کنانہ کے قبیلہ کا تھا، ان کا ایک شخص تنہا کھانا نہیں کھاتا تھا حتیٰ کہ کوئی مہمان بھی اس کے ساتھ کھانا کھائے۔ بسا اوقات وہ شخص اپنے سامنے کھانا رکھ کر صبح سے شام تکبیٹھا رہتا تھا اور بعض اوقات اس کے پاس دودھ دینے والی اونٹنیاں ہوتی تھیں اور وہ اس وقت تک ان کا دودھ نہیں پیتا تھا حتیٰ کہ کوئی شخص اس کے ساتھ دودھ پینے والا آجاتا۔ پس جب شام تک کوئی نہیں آتا تھا تو وہ انتظار کر کے کھا لیتا تھا۔
عکرمہ اور ابو صالح نے کہا یہ آیت انصار کی ایک جماعت کے متعلق نازل ہوئی ہے، جب ان کے پاس کوئی مہمان آتا تو وہ اس مہمان کے بغیر کھانا نہیں کھاتے تھے، تو ان کو اجازت دی گئی کہ وہ جس طرح چاہیں کھا لیں تنہا یا کسی کے ساتھ مل کر۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٤٨٨٨، ١٤٨٨٣، جامع البیان رقم الحدیث : ١٩٨٨٩ معالم التنزیل ج ٣ ص ٤٣٢-٤٣١ الدرالمنور ج ٦ ص ٢٠٧-٦٠٦)
گھر میں دخول کے وقت گھر والوں کو سلام کرنا
اس آیت کے آخر میں فرمایا : پھر جب تم گھروں میں داخل ہو تو اپنے لوگوں پر سلام کرو، اللہ سے اچھی دعا کرو کہ یہ برکت اور پاکیزگی اللہ کی طرف سے نازل ہو۔
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا گھروں سے مراد مسجد ہے، جب تم مسجد میں داخل ہو تو کہا کرو السلام علینا وعلی عباد اللہ الصلحین
(معالم التنزیل ج ٣ ص ٤٣٢، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢٠ ھ تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٤٨٩٠ الدرالمنثور ج ٦ ص ٢٠٨)
زہری اور قتادہ نے کہا جب تم اپنے گھر داخل ہو تو کہو سلام علیکم۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٩٩٨١ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٩٦١٦، دارالکتب العلمیہ بیروت، مصنف عبدالرزاق ج ١٠ ص ٣٨٧، متکب اسلامی)
ابن جریج نے کہا عطا بن ابی رباح سے سوال کیا گیا کیا کسی شخص پر یہ حق ہے کہ جب وہ اپنے گھر جائے تو گھر والوں کو سلام کرے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! (جامع البیان رقم الحدیث : ١٩٨٩٢)
ابن جریج کہتے ہیں میں نے عطا سے پوچھا آیا کسی شخص پر واجب ہے کہ جب وہ گھر سے نکلے تو گھر والوں کو سلام کرے ؟ عطا نے کہا میں اس کو واجب نہیں جانتا نہ کسی نے مجھ سے کہا یہ واجب ہے لیکن میرے نزدیک یہ مستحب ہے، اور میں سوائے بھول کے اس کو ترک نہیں کرتا۔ ابن جریج نے کہا میں نے عطا سے پوچھا اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو ؟ انہوں نے کہا سلام کرو اور کہو السلام علی النبی و رحمۃ اللہ وبرکاتہ السلام علینا و علی عباد اللہ الصلحین السلام علی اھل البیت و رحمۃ اللہ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٩٨٩٤)
حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم اپنے گھروں میں داخل ہو تو اپنے گھر والوں کو سلام کرو اور جب تم کھانا کھائو تو بسم اللہ پڑھو اور جب کوئی شخص اپنے گھر میں داخل ہونے کے وقت سلام کرتا ہے اور اپنے طعام پر بسم اللہ پڑھتا ہے تو شیطان اپنے چیلوں سے کہتا ہے اس گھر میں نہ تمہارے رات گزارنے کا ٹھکانہ ہے اور نہ رات کا کھانا ہے، اور جب تم میں سے کوئی شخص سلام نہیں کرتا اور نہ کھاتے وقت بسم اللہ پڑھتا ہے تو شیطان اپنے چیلوں سے کہتا ہے تمہیں رات کا ٹھکانا اور کھانا مل گیا۔ (المستدرک ج ٢ ص ٤٠ قدیم المستدرک رقم الحدیث : ٣٥١٥ کنزالعمال ج ١٥ ص ٣٩٩)
امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ھوازن قشیری متوفی ٤٦٥ ھ لکھتے ہیں :
مسلمان کا طریقہ یہ ہے کہ جب وہ اپنے گھر میں داخل ہو تو اللہ کی طرف سے اپنے اوپر سلام بھیجے، یعنی اللہ کی طرف سے اپنے لئے امان اور سلامتی کو طلب کرے تاکہ وہ اللہ کی رضا کے خلاف کوئی اقدام کرنے سے باز رہغے، کیونکہ مسلمانوں کے لئے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ایک لمحہ کے لئے بھی اللہ کی پناہ میں آنے سے سستی کرے تاکہ اس کے اوپر ہمیشہ اللہ سبحانہ کی عصمت اور حفاظت سایہ افگن رہے اور وہ کسی شرعی مکروہ کام کو کرنے سے بچا رہے۔ (لطائف الاشارات ج ٢ ص ٣٧٥ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٢٠ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 61