أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاَقۡسَمُوۡا بِاللّٰهِ جَهۡدَ اَيۡمَانِهِمۡ لَئِنۡ اَمَرۡتَهُمۡ لَيَخۡرُجُنَّ‌ ۚ قُلْ لَّا تُقۡسِمُوۡا‌ ۚ طَاعَةٌ مَّعۡرُوۡفَةٌ‌  ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور (منافقوں نے) اللہ کی خوب پکی قسمیں کھائیں کہ اگر آپ انہیں (جہاد کے لئے) نکلنے کا حکم دیں تو وہ ضرور نکلیں گے، آپ کہیے تم قسمیں نہ کھائو۔ (تمہاری) اطاعت معلوم ہے، بیشک تم جو کھ کرتے ہو، اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور (منفاقوں نے) اللہ کی خوب پکی قسمیں کھائیں کہ اگر آپ انہیں (جہا دکیلئے) نکلنے کا حکم دیں گے تو وہ ضرور نکلیں گے، آپ کہیے کہ تم قسمیں نہ کھائو (تمہاری) اطاعت معلوم ہے، بیشک تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس کی خبر رکھنے والا ہے۔ آپ کہیے کہ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو، پس اگر تم نے روگردانی کی تو رسول کے ذمہ وہی ہے جو ان پر لازم کیا گیا اور تمہارے ذمہ وہی ہے جو تم پر لازم کیا گیا ہے، اور اگر تم رسول کی اطاعت کرو گے تو ہدایت پائو گے اور رسول کے ذمہ تو احکام کو صاف صاف پہنچا دینا ہے۔ (النور : ٥٤-٥٣ )

منافقین کی قسموں کا غیرمعتبر ہونا 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ دوبارہ منافقین کے ذکر کی طرف متوجہ ہوا، کیونکہ جب انہیں معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ منفاقین نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کو ناپسند کرتے ہیں اور ناگوار سمجھتے ہیں تو انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آ کر کہا اللہ کی قسم اگر آپ ہمیں حکم دیں کہ ہم اپنے گھروں سے اور اپنی بیویوں کے پاس نکل جائیں تو ہم ضرور اپنے گھروں سے نکل جائیں گے اور اگر آپ ہمیں جہاد کا حکم دیں گے تو کہم جہاد کریں گے۔

آپ کہیے کہ تم قسمیں نہ کھائو، اس کے بعد فرمایا طاعۃ معروفۃ اس کے دو محمل ہیں ایک یہ ہے کہ تمہاری اطاعت تو ہمیں معلوم ہے اور وہ مشہور ہے کہ تم کیسی اطاعت کرتے ہو، اور اس کا دوسرا محمل یہ ہے کہ تمہیں قسمیں کھانے کے بجائے الخاص کے ساتھ اطاعت کرنی چاہیے۔ مجاہد نے کہا اس کا معنی یہ ہے کہ تمہاری اطاعت تو معروف ہے اور وہ محض جھوٹ ہے۔ بیشک اللہ تمہارے کاموں کی خبر رکھنے والا ہے کہ تم زبان سے اطاعت کرنے کی قسمیں کھاتے ہو اور عمل سے اپنی قسموں کی مخالفت کرتے ہو۔

آپ کہیے کہ تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو پس اگر تم پھرگئے یعنی اگر تم اللہ اور رسول کی اطاعت سے پھرگئے تو رسول کے ذمہ وہ کام ہیں جن کا ان کو مکلف کیا گیا ہے، یعنی انہیں احکام شرعیہ کی تبلیغ عام کرنے کا حکم دیا ہے اور تمہارے ذمہ وہ کام ہیں جن کا تم کو مکلف کیا گیا ہے یعنی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام کو سننا اور ان پر عمل کرنا اور اگر تم نے ان احکام پر عمل کرلیا تو تم ہدایت یافتہ ہو جائو گے اور رسول پر تو تبلیغے کر کے دین کیا حکام کو صاف صاف پہنچا دینا ہے۔

کتب سابقہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات 

امام عبدالرحمٰن بن محمد ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ اور حافظ ابن کثیر متویف ٧٧٤ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

وھب بن منبہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرئایل کے بنی حضرت شعیا (علیہ السلام) کی طرف وحی کی آپ بنی اسرائیل کے مجمع میں کھڑے ہو کر وعظ کریں میں جو چاہوں گا آپ کی زبان سے نکلوائوں گا، پھر آپ سے اللہ تعالیٰ نے یہ کہلوایا، اے آسمان سن ! اے زمین خاموش رہ ! اللہ تعالیٰ ا کی امر کی تدبیر کرنے والا ہے جس کو وہ پورا کرنے والا ہے وہ جنگلوں کو آباد کرنا، ویرانوں کو بسانا اور صحرائوں کو سرسبز کرنا چاہتا ہے۔ وہ فقیروں کو غنی کر دے گا، چرواہوں کو سلطان بنا دے گا، ان پڑھ لوگوں میں سے ایک امی کو بنی بنا کر بھیجے گا جو بد گو ہوگا، نہ بد اخلاق ہوگا، نہ بازاروں میں شور کرنے والا ہوگا، وہ مسکین صفت اور متواضح ہوگا، اس کے دامن کی ہوا سے وہ چراغ بھی نہیں بجھ سکے گا جس کے پاس سے وہ گزرے گا، اگر وہ سوکھے بانس پر پیر رکھ کر چلے تو اس کی چرچراہٹ بھی کسی کے کان میں نہیں پہنچے گی، میں اس کو بشیر و نذیر بنا کر بھیجوں گا، اس کی زبان صادق ہوگی، اس کے سبب سے اندھی آنکھیں روشن ہوجائیں گی، اس کے باعث بہرے کان سننے لگیں گے، اس کی برکت سے بند دل کھل جائیں گے۔ میں ہر نیک کام سے اس کو سنواروں گا، اور ہر خلق کریم سے اس کو سرفراز کروں گا، اس کا لباس سکینہ ہوگی، نیکی اس کا وطیرہ ہوگی، تقویٰ اس کا ضمیر ہوگا، حکمت اس کی گفتگو ہوگی، صدق و وفا اس کی طبیعت ہوگی، عفو و درگزر کرنا اور لوگوں کی بھلائی چاہتا ہے اس کی خصلت ہوگی، حق اس کی شریعت ہوگی، عدل اس کی سیرت ہوگی، ہدایت اس کی امام ہوگی، اسلام اس کی علت ہوگی، اس کا نام احمد ہوگا، میں اس کے ذریعہ سے گم راہی کے بعد ہدایت پھیلا دوں گا، جہالت کے اندھیروں سے کے بعد عمل کا نور پھیل جائے گا، اس کی وجہ سے پستی کے بعد بنلدی ہوگی، نقص کمال سے بدل جائے گا، فقر تو نگری سے بدل جائے گا، اس کی وجہ سے ایک دوسرے سے کٹے ہوئے لوگ ملجائیں گے، فرقت کے بعد الفت ہوگی، انفصال کے بعد اتصال ہوگا، اختلاف کے بعد اتفاق ہوگا، متفرق دل اور مختلف خواہشیں متحد ہو ائیں گی، میں اس کی امت کو تمام امتوں سے افضل قرار دوں گا جو لوگوں کے لئے نفع بخش ہوگی، نیک کام کرنے کا حکم دے گی اور برے کاموں سے روکے گی اس کی امت کے لوگ موحد، مومن اور مخلص ہوں گے، اللہ کے جتنے رسول اللہ کے پاس سے جو کچھ لائے ہیں وہ ان سب پر ایمان لائیں گے اور کسی کا انکار نہیں کریں گے۔

(تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ٨ ص ٢٦٦ رقم الحدیث : ١٤٧٥٨ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ تفسیر ابن کبیر ج ٣ ص ٣٣٢ مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٩ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 53