أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا لِيَسۡتَـاْذِنۡكُمُ الَّذِيۡنَ مَلَكَتۡ اَيۡمَانُكُمۡ وَالَّذِيۡنَ لَمۡ يَـبۡلُغُوا الۡحُـلُمَ مِنۡكُمۡ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ‌ؕ مِنۡ قَبۡلِ صَلٰوةِ الۡفَجۡرِ وَحِيۡنَ تَضَعُوۡنَ ثِيَابَكُمۡ مِّنَ الظَّهِيۡرَةِ وَمِنۡۢ بَعۡدِ صَلٰوةِ الۡعِشَآءِ ‌ؕ ثَلٰثُ عَوۡرٰتٍ لَّـكُمۡ‌ ؕ لَـيۡسَ عَلَيۡكُمۡ وَ لَا عَلَيۡهِمۡ جُنَاحٌۢ بَعۡدَهُنَّ‌ ؕ طَوّٰفُوۡنَ عَلَيۡكُمۡ بَعۡضُكُمۡ عَلٰى بَعۡضٍ‌ ؕ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَـكُمُ الۡاٰيٰتِ‌ ؕ وَاللّٰهُ عَلِيۡمٌ حَكِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

اے ایمان والو ! تمہارے مملوک غلاموں اور نابالغ لڑکوں کو (گھروں میں داخل ہونے کے لئے) تین اوقات میں اجازت طلب کرنی چاہیے نماز فجر سے پہلے اور ظہر کے وقت جب تم اپنے (فالتو) کپڑے اتار دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں، ان تین اوقات کے عبد (بلا اجازت آنے میں) نہ تم پر کوئی حرج ہے اور نہ ان پر کوئی گناہ ہے، وہ تمہارے ہاں ایک دور سے کے پاس گھروں میں آنے جانے والے ہیں، اللہ اسی طرح اپنی آیتیں تمہارے لئے بیان فرماتا ہے، اللہ خوب علم والا، بےحد حکمت والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو ! تمہارے مملوک غلاموں اور نابالغ لڑکوں کو (گھروں میں داخل ہونے کے لئے تین اوقات میں اجازت طلب کرنی چاہیے، نماز فجر سے پہلے اور ظہر وقت جب تک اپنے (فالتو) کپڑے اتا دیتے ہو اور عشماء کی نماز کے یہ تین اوقات تمہارے پردے کے ہیں، ان تین اوقات کے بعد (بلا اجازت) آن ی میں) نہ تم پر کوئی حرج ہے اور نہ ان پر کوئی گناہ ہی وہ تمہارے ہاں ایک دوسرے کے پاس گھروں میں آنے جانے والے ہیں، اللہ اسی طرح اپنی آیتیں تمہارے لئے بیان فرماتا ہے اور اللہ خوب علم والا، بےحد حکمت والا ہے۔ (النور : ٥٨ )

تین اوقات میں گھر میں دخول کے لئے نوکروں اور نابالغ لڑکوں کو اجازت لینے کا حکم 

امام عبدالرحمٰن بن محمد ابن ابی حاتم المتوفی ٣٢٧ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔

عکرمہ بین کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) سے دو آدمیوں نے اس آیت کے متعلق سوال کیا جس میں اللہ تعالیٰ نے پردے کے ان تین اوقات میں اجازت طلب کرنے کا حم دیا ہے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا اللہ تعالیٰ ستر کرنے والا ہے اور ستر کو پسند کرتا ہے لوگوں کے گھروں کے دروازوں پر پردے نہیں ہوتے تھے اور نہ ان کے گھروں پر حجاب ہوتا تھا، بسا اوقات اچانک اس کے گھر میں اس کا خادم یا اس کا بیٹا یا اس کا بیٹا یا اس کی لے پالک بیٹی آجاتی اور وہ اس وقت اپنی بیوی کے ساتھ مشغول ہوتا، اس لئے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ ان اوقات میں اجازت طلب کر کے گھر میں داخل ہوں، پھر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر وسعت اور کشادگی کردی اور انہوں نے اپنے گھروں میں پردے ڈال لئے اور لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ان کا پردے ڈال دینا کافی ہے اور اب اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ (تفسیرامام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :14787)

موسیٰ بن ابی عائشہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے شعبی سے اس آیت کے متعلق سوال کیا، انہوں نے کہا یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی لیکن لوگوں نے اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا۔ (تفسیر امام ابن اپنی حاتم رقم الحدیث 14790)

حسن بصری نے کہا جب کوئی شخص اپنے خادم کو رات میں اپنے پاس ٹھہرائے تو وہ اس کی طرف سے اجازت ہے اور اگر وہ اس کو رات میں اپنے پاس ٹھہراتا تو وہ ان تین اوقات میں اجازت طلب کر کے اندر آئے۔ (تفسیر امام ابنی حاتم رقم الحدیث :14791)

مقاتل بن حیان اس آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری اور اس کی بیوی اسماء بنت مرشدہ دونوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے کھانا تیار کیا اور لوگ ان سے اجازت لئے بغیر انکے گھر میں داخل ہوگئے تو حضرت اسماء نے کہا یا رسول اللہ ! یہ کتنی بری بات ہے ! کہ ایک عورت اور اس کا خاوند ایک کپڑا اوڑھے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کا خادم بغیر اجازت لئے ہوئے گھر میں داخل ہوجاتا ہے اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :14795)

سدی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ان اوقات میں اپنی ازواج سے جماع کرنے کو پسند کرتے تھے، پھر وہ غسل کر کے نماز پڑھنے کے لئیج اتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے غلاموں اور نابالغ لڑکوں کو یہ حکم دیا کہ وہ ان اوقات میں بغیر اجازت کے گھروں میں داخل نہ ہوں۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :14796)

اجازت مذکورہ کا حکم منسوخ ہوچکا ہے یا باقی ہے۔

علامہ ابوعداللہ قرطبی مالکی متوفی 668 ھ نے اس آیت کے منسوخ ہونے نہ ہونے کے متعلق حسب ذیل اقوال ذکر کئے ہیں۔

(١) ابن المسیب اور ابن جبیر نے کہا یہ آیت منسوخ ہے۔

(٢) ابوقلابہ نے کہا یہ حکم مستحب ہے واجب نہیں ہے، ان کی مصلحت کے اعتبار سے یہ حکم دیا گیا تھا۔

(٣) ابو عبدالرحمٰن اسلمی نے کہا اس حکم کی مخاطب خواتین ہیں۔

(٤) حضرت ابن عمر نے کہا اس حکم کے مخاطب مرد ہیں۔

(٥) یہ حکم پہلے واجب تھا کیونکہ پہلے گھروں کے نہ کواڑ تھے نہ دروازے، اور اگر پھر ایسے گھر ہوں تو یہ حکم پھر واجب ہوگا۔

(٦) قاسم، جابر بن زید، شعبی اور اجکثر اہل علم کا یہ مذہب ہے کہ یہ حکم واجب اور ثابت ہے، مردوں اور عورتوں دونوں پر۔

اس مسئلہ میں صحیح بات یہ ہے کہ جب لوگوں کے گھروں میں دروازے اور پردے نہیں تھے اس وقت اس آیت کے حکم پر عمل کرنا واجب تھا اور جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر وسعت عطا کردی تو اب اس حکم پر عمل کرنا واجب نہیں ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) اسی طرح فرماتے تھے جیسا کہ ہم نے تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :14787 کے حوالے سے ذکر کیا ہے اور امام ابو دائود نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٥١٢٢ )

اس آیت میں جو ثلات مرات فرمایا ہے اس کا معنی تین اوقات ہیں اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر وقت میں تین مرتبہ اجازت لینا ضروری ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٢ ص ٢٨٢، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 58