اَوۡ يُلۡقٰٓى اِلَيۡهِ كَنۡزٌ اَوۡ تَكُوۡنُ لَهٗ جَنَّةٌ يَّاۡكُلُ مِنۡهَا ؕ وَقَالَ الظّٰلِمُوۡنَ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا ۞- سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 8
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَوۡ يُلۡقٰٓى اِلَيۡهِ كَنۡزٌ اَوۡ تَكُوۡنُ لَهٗ جَنَّةٌ يَّاۡكُلُ مِنۡهَا ؕ وَقَالَ الظّٰلِمُوۡنَ اِنۡ تَتَّبِعُوۡنَ اِلَّا رَجُلًا مَّسۡحُوۡرًا ۞
ترجمہ:
یا اس کی طرف کوئی خزانہ ڈال دیا جاتا یا اس کے پاس کوئی باغ ہوتا جس سے یہ کھاتا اور ظالموں نے کہا تم صرف ایک جادو کئے ہوئے شخص کی پیروی کرتے ہو
کفار کے اس اعتراض کا جواب کہ آپ کے پاس سونے چاندی کے محلات کیوں نہیں اور آپ کے ساتھ فرشتہ کیوں نہیں ؟
مشرکین مکہ نے آپ کی نبوت پر دوسرا اعتراض یہ کیا تھا کہ آپ فقر و فاقہ کی زندگی گزار رہے ہیں اگر آپ سچے نبی ہیں تو اللہ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے لئے سونے اور چاندی کے محلات بنا دے جن میں آپ رہیں اور آپ کے پاس انگوروں اور پھلوں کے باغات ہوں جن سے آپ کھائیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو سونے اور چاندی کے محلات اور عیش و عشرت کی زندگی کی پیشکش کی تھی لیکن آپ نے اس کے مقابل ہمیں فقر و فاقہ کی زندگی کو اختیار فرمایا۔ نیز آپ کو فرشتہ بننے کا اختیار دیا گیا لیکن آپ نے عبد رہنے کو ترجیح دی۔
حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میرے لئے یہ پیشکش کی کہ میرے لئے مکہ کی رس زمین کو سونے کا بنا دے، سو میں نے کہا نہیں اے میرے رب ! میں ایک دن پیٹ بھر کر کھائوں اور ایک دن بھوکا رہوں گا۔ پس جب میں بھوکا ہوں گا تو تیری طرف فریاد کروں گا اور تجھے یاد کروں گا اور جب میرا پیٹ بھرا ہوگا تو تیری حمد کروں گا اور تیرا شکر ادا کروں گا۔
(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٣٤٧ شرح السنۃ رقم الحدیث : ٣٩٣٩ تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکرج ٤ ص ٩٣ رقم الحدیث : ٩٦٤ مطبوعہ داراحیائ۔ التراب العربی بیروت، ١٤٢١ ھ)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عائشہ ! اگر میں چاہوں تو میرے ساتھ سونے کے پہاڑ چلیں، میرے پاس ایک فرشتہ آیا جس کا نیفہ کعبہ کے برابر تھا، اس نے کہا آپ کا رب آپ کو سلام فرماتا ہے اور فرماتا ہے اگر آپ چاہیں تو نبی اور عبد رہیں اور اگر آپ چاہیں تو نبی اور فرشتہ ہوجائیں۔ میں نے جبریل کی طرف دیکھا انہوں نے اشارہ کیا کہ آپ تواضح اختایر کریں تو میں نے کہا نبی اور عبد، اس کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٹیک لگا کر نہیں کھاتے تھے اور فرماتے تھے میں اس طرح کھاتا ہوں جس طرح عبد کھاتا ہے اور اس طرح بیٹھتا ہوں جس طرح عبدبیٹھتا ہے۔ (مسند ابویعلی رقم الحدیث : ٤٩٢٠ حافظ الہیثمی نے کہا اس کی سند حسن ہے، مجمع الزوائد ج ٩ ص ١٩)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس انصار کی ایک عورت آئی اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بستر پر ایک چادر دیکھی تو اس نے میرے پاس ایک بستر بھیج دیا جس میں اون بھرا ہوا تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میرے پاس آئے اور پوچھا اے عائشہ ! یہ کیا ہے ؟ میں نے بتایا یا رسول اللہ ! میرے پاس فلانہ انصاریہ آئی تھی اس نے آپ کے بستر پر صرف ایک چادر دیکھی تو اس نے یہ بستر بھیج دیا۔ آپ نے فرمایا اے عائشہ ! اس کو واپس کردو، اللہ کی قسم ! اگر میں چاہتا تو اللہ میرے ساتھ سونے اور چاندی کے پہاڑ چلا دیتا۔
(دلائل النبوۃ ج ١ ص 345، تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر ج ٤ ص 74، رقم الحدیث : ٩٤٢ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ البدایہ والنہایہ ج ٤ ص ٤٣٢ مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٨ ھ)
اور ظالموں نے کہا تم صرف ایک جادو کئے ہوئے شخص کی پیروی کرتے ہو۔ بھلا آپ دیکھیے انہوں نے آپ کے لئے کیسی مثالیں گھڑرکھی ہیں، پس وہ گمراہی میں مبتلا ہوگئے اب وہ کسی طرح ہدایت پر نہیں آسکتے۔
یہ قول مشرکین کا ہے ۔جو انہوں نے مسلمانوں سے کہا تھا، اس کی مکمل تفسیر اور آپ پر جادو کئے جانے کی تحقیق ہم نبی اسرائیل : ٤٧ میں کرچکے ہیں۔
القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 8