حدیث نمبر 430

روایت ہے حضرت ابو قتادہ سے فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات تشریف لے گئے ۱؎ ابوبکر صدیق تک پہنچے وہ نماز پڑھ رہے تھے بہت پست آواز سے اور حضرت عمر پر گزرے تو وہ نماز پڑھ رہے تھے بدن آواز سے راوی نے فرمایا کہ جب یہ دونوں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوئے تو فرمایا ۲؎ اے ابوبکر ہم تم پر گزرے تو آواز پست کیے نماز پڑھ رہے تھے آپ نے عرض کیا یارسول اﷲ جس سے مناجات کررہا تھا اسے سنالیا ۳؎ حضرت عمر سے فرمایا کہ ہم تم پر گزرے تم بلند آواز سے نماز پڑھ رہے تھے عرض کیا یارسول ا ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سوتوں کو جگاتا تھا شیطان کو بھگاتا تھا ۴؎ فرمایا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اے ابوبکر تم اپنی آواز کچھ بلند کرو اور حضرت عمر سے فرمایا کہ تم اپنی آواز کچھ پست کرو ۵؎(ابوداؤد)اور ترمذی نے اس کی مثل روایت کی۔

شرح

۱؎ اپنے صحابہ کے شب کے حالات ملاحظہ فرمانے کے لیئے۔معلوم ہوا کہ سلطان کا رات میں گشت لگانا تاکہ رعایا کے حالات معلوم کرے سنت ہے۔اسی طرح استاد و شیخ کا اپنے شاگردوں مریدوں کے حالات کی تفتیش کرنا مسنون ہے ان کا ماخذ یہ حدیث ہے اور حق یہ ہے کہ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ گشت اب بھی جاری ہے اپنی امت کے حالات ملاحظہ فرمانے کے لیئے گشت فرماتے ہیں۔صوفیا نے بعض دفعہ مشاہدہ کیا ہے اور اس کا ذکر ہم نے اپنی کتاب “جاءالحق”حصہ اول میں کیا ہے۔

۲؎ یعنی ابوبکر صدیق تہجد میں قرأت نہایت آہستہ کررہے تھے اور حضرت فاروق خوب اونچی۔صوفیاء فرماتے ہیں کہ صدیق پر طریقت کا غلبہ ہے اور حضرت فاروق اعظم پر شریعت کاغلبہ۔

۳؎ یعنی رب تعالٰی کو سنانا مقصود تھا وہ تو آہستہ آواز بھی سنتا ہے فرماتا ہے:”فَاِنَّہٗ یَعْلَمُ السِّرَّ وَاَخْفٰی” پھر جہر کی کیا حاجت۔

۴؎ یعنی میں تہجد میں رب تعالٰی کو سنانے کے علاوہ دو کام اور بھی کررہا تھا سوتوں کو جگانا کہ میری آواز سن کر جاگ جاویں اور وہ بھی تہجد پڑھ لیں اور شیطان کو بھگانا کہ جہر کی برکت سے شیطان مجھے وسوسہ نہ دے سکے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان اذان کی طرح قرآن کریم کی آواز سے بھی بھاگتا ہے۔یہ حدیث ذکر بالجہر کرنے والے صوفیاء کی بھی دلیل ہے اور ذکر خفی والوں کی بھی دونوں اﷲ کے پیارے ہیں نیت سب کی بخیر ہے۔

۵؎ یہ جملہ اس کی شرح ہے “خَیْرُ الْاُمُوْرِ اَوْسَطُھَا” یعنی نہ اتنی بلند قرأت کرو کہ دوسروں کو تکلیف ہو نہ اتنی آہستہ کہ بالکل پتہ ہی نہ لگے درمیانی روش دونوں صاحب اختیار فرماؤ،رب تعالٰی فرماتا ہے:”وَابْتَغِ بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا”اے صدیق خالق کو سنانے کے ساتھ مخلوق کو اپنی قر¬أت سے فائدہ پہنچاؤ اور اے عمر مخلوق پر کچھ نرمی کرتے ہوئے اپنے نفس پر بھی زیادہ مشقت نہ ڈالو سبحان اﷲ! کیسی پیاری تعلیم ہے۔