شبینہ کرنا جائز
الفصل الثانی
دوسری فصل
حدیث نمبر 426
روایت ہے حضرت حذیفہ سے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رات میں نماز پڑھتے دیکھا آپ تین بار فرماتے تھے اﷲ اکبر ملکوت جبروت کبریائی و عظمت والا ۱؎ پھر نماز شروع کی ۲؎ سورۂ بقرہ پڑھی،پھر رکوع کیا تو آپ کا رکوع آپ کے قیام کی مثل تھا ۳؎ اپنے رکوع میں سبحان ربی العظیم کہتے رہے پھر رکوع سے سر اٹھایا آپ کا قومہ رکوع کی مثل تھا فرماتے تھے لربی الحمد پھر سجدہ کیا تو آپ کا سجدہ قومہ کی مثل تھا ۴؎ اپنے سجدہ میں فرماتے تھے سبحان اﷲ ربی الاعلی پھر سجدے سے سر اٹھایا اور آپ دو سجدوں کے بیچ سجدے کی مثل ہی بیٹھتے تھے اور کہتے تھے مولیٰ مجھے بخش دے ۵؎ چار رکعتیں پڑھیں جن میں بقرہ،آل عمران،نساء مائدہ یا انعام پڑھیں،شک شعبہ کو ہے ۶؎(ابوداؤد)
شرح
۱؎ ملکوت مُلک کا مبالغہ ہے اور جبروت جبر کا بمعنی غلبہ۔اصطلاح میں ظاہری ملک کو ملک کہتے ہیں،باطنی کو ملکوت یعنی باطنی ملک اور پورے غلبہ والا۔علماء فرماتے ہیں کہ ملکوت،جبروت،کبریا صرف رب تعالٰی کے لیئے استعمال ہوسکتے ہیں کسی بندے کے لیئے ان کا استعمال جائز نہیں جیسے رحمان وغیرہ۔(ا زمرقاۃ)
۲؎ یعنی تکبیر تحریمہ سے پہلے وہ کلمات کہے پھر تکبیر تحریمہ کہی یا تکبیر کے بعد یہ کہے پھر ثنا شروع کی پہلا احتمال قوی ہے۔
۳؎ ظاہر یہ ہے کہ بقرہ سے مراد پوری سورۂ بقرہ ہے یعنی ایک رکعت میں پوری سورۂ بقرہ پڑھی،پھر رکوع بھی اس قدر دراز فرمایا۔اس سے معلوم ہوا کہ شبینہ کرنا جائز ہے کیونکہ شبینہ میں ایک رکعت میں ڈیڑھ پارہ آتا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں ڈھائی پارہ پڑھے ہیں۔
۴؎ اس سے معلوم ہوا کہ دراز قیام زیادتی سجود سے افضل ہے،یہ ہی امام اعظم کا فرمان ہے۔یہ حدیث ا س حدیث کی تفسیر ہے جس میں ارشاد ہوا کہ جو تنہا نماز پڑھے وہ جتنی چاہے دراز کرے۔
۵؎ یعنی دو سجدوں کے درمیان یہ کلمہ بار بار اس قدر پڑھا کہ آپ کا یہ جلسہ سجدے کے قریب دراز ہوگیا،یہ دعا تعلیم امت کے لیئے ہے۔
۶؎ یعنی شعبہ راوی کو اس میں شک ہوا کہ چوتھی رکعت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۂ مائدہ پڑھی یا انعام،اگلی رکعتوں میں تردد نہیں کہ پہلی میں بقرہ دوسری میں آل عمران تیسری میں نساء پڑھی۔