أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ اَذٰ لِكَ خَيۡرٌ اَمۡ جَنَّةُ الۡخُـلۡدِ الَّتِىۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ ‌ؕ كَانَتۡ لَهُمۡ جَزَآءً وَّمَصِيۡرًا ۞

ترجمہ:

آپ کہیے آیا یہ (دوزخ) اچھی ہے یا دائمی جنت جس کا متقین سے وعدہ کیا گیا ہے، وہ ان کی جزا اور ٹھکانا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ کہیے، آیا یہ دوزخ اچھی ہے یا دائمی جنت جس کا متقین سے وعدہ کیا گیا ہے وہ ان کی جزا اور ٹھکانا ہے۔ اس (جنت) میں ان کے لئے ہر وہ چیز ہے جس کو وہ چاہیں گ، جس میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہ آپ کے رب کا وعدہ ہے جس کا (اس کے کرم کی بناء پر) سوال کیا جائے گا۔ (الفرقان :15-16)

آیا دوزخ میں کوئی اچھائی ہے ؟

آیت : ۱۵  میں فرمایا : آیا یہ دوزخ خیر ہے یا دائمی جنت ؟ خیر کا معنی ہے زیادہ اچھی، اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس سے معلوم ہوا کہ دوزخ میں بھی فی نفسہ اچھائی ہے لیکن جنت زیادہ اچھی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خیر یہاں پر اسم تفصیل کے معنی میں نہیں ہے بلکہ صفت مشبہ کے معنی میں ہے یعنی دوزخ اچھی ہے یا دائمی جنت ! اس اعتراض کا دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں کفار کے علم اور ان کے اعتقاد کے موافق کلام فرمایا ہے کیونکہ کفار دوزخ میں جھنک دیئے جانے والے کام کرتے تھے گویا وہ سمجھتے تھے کہ دوزخ میں بھی اچھائی ہے اس لئے فرمایا کہ بتائو دوزخ زیادہ اچھی ہے یا دائمی جنت۔

اس آیت میں فرمایا ہے دائمی جنت کا متقین سے وعدہ کیا گیا ہے، متقین کا ادنٰی درجہ یہ ہے کہ وہ کفر اور شرک کو ترک کردیں اور متوسط درجہ یہ ہے کہ ہو گناہ کبیرہ اور گناہ صغیرہ کو ترک کردیں اور اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ وہ ہر خلاف سنت، مکروہ تنز یہی اور خلاف اولیٰ کام کو ترک کردیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 15