لَّهُمۡ فِيۡهَا مَا يَشَآءُوۡنَ خٰلِدِيۡنَ ؕ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ وَعۡدًا مَّسۡــئُوۡلًا ۞- سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 16
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
لَّهُمۡ فِيۡهَا مَا يَشَآءُوۡنَ خٰلِدِيۡنَ ؕ كَانَ عَلٰى رَبِّكَ وَعۡدًا مَّسۡــئُوۡلًا ۞
ترجمہ:
(اس (جنت) میں ان کے لئے ہر وہ چیز ہے جس کو وہ چاہیں گے جس میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہ آپ کے رب کا وعدہ ہے جس کا (اس کے کرم کی بناء پر) سوال کیا جائے گا
جنت میں ہر چاہی ہوئی چیز کے ملنے کا محمل
آیت : ١٦ میں فرمایا : اس (جنت) میں ان کے لئے ہر وہ چیز ہے جس کو وہ چاہیں گے۔
کعب احبار نے کہا جو شخص ساری زندگی شراب پیتا رہا وہ آخرت میں شراب نہیں پیے گا خواہ وہ جنت میں داخل ہوجائے۔ عطاء نے اعتراض کیا اے ابو اسحاق اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا ہے اس میں ان کے لئے ہر وہ چیز ہے جس کو وہ چاہیں گے ؟ کعبہ نے کہا وہ شراب کو بھول جائے گا اور وہ اس کو یاد نہیں آئے گی۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :15017)
اس سے معلوم ہوا کہ ان کے لئے ہر وہ چیز ہے جس کو وہ چاہیں گے اپنے عموم پر نہیں ہے کیونکہ اگر وہ کسی باطل یا محال چیز کو چاہیں تو وہ ان کو نہیں ملے گی مثلاً وہ لواطت کو چاہیں یا وہ چاہیں کہ ان کا نبی سے بلند درجہ ہو تو وہ ان کو نہیں ملے گا بلکہ حق یہ ہے کہ ایسی باطل خواہشیں جنت میں ان کے دلوں میں پیدا نہیں ہوں گی کیونکہ ان باطل خواہشوں کا منبع اور مصدر شیطان ہے اور وہ جنت میں نہیں ہوگا تو ایسی باطل خواہشیں بھی دلوں میں پیدا نہیں ہوں گی۔
منصور بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) سے سوال کیا گیا آیا جنت میں اولاد ہوی ؟ فرمایا : ہاں اگر وہ چاہیں۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :15019 مطبوعہ مکتہب نزار مصطفیٰ 1417 ھ)
اللہ تعالیٰ کے وعدہ کی بناء پر اس سے سوال کرنا
نیز اس آیت میں فرمایا : یہ آپ کے رب کا وعدہ ہے جس کا (اس کے کرم کی بناء پر) سوال کیا جائے گا۔
حضرت ابن عباس نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا یعنی تم اس چیز کا سوال کرو، جس کا میں نے تم سے وعدہ کیا ہے۔
القرظی نے اس آیت کی تفسیر میں کہا : فرشتے اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کریں گے :
(المومن : ٨) اے ہمارے رب تو ان کو ہمیشگی کی جنتوں میں داخل کر دے جس کا تو نے ان سے (از راہ کرم) وعدہ فرمایا ہے اور ان کے باپ دادا، ان کی بیویوں اور ان کی اولاد میں سے جس نے نیک کام کئے ہیں۔ بیشک تو بہت غالب، بےحد حکمت والا ہے۔
اور ابوحازم یہ کہتے تھے کہ قیامت کے دن مومنین یہ کہیں گے اے ہمارے رب تو نے ہم کو جن کاموں کا حکم دیا تھا وہ ہم نے یکر لئے اب تو اس کو پورا فرما جس کا تو نے ہم سے (از راہ کرم) وعدہ فرمایا تھا۔
عبدالرحمٰن بن زید نے اس آیت کی تفسیر میں کہا : مانگنے والوں نے دنیا میں اللہ تعالیٰ سے اس کے وعدہ کو طلب کیا تو جب انہوں نے سوال کیا اللہ تعالیٰ نے اپنا وعدہ ان کو عطا فرمایا، اللہ تعالیٰ نے زمین میں بندوں کو پیدا کرنے سے پہلے ان کے رزق کو مقرر کردیا تھا پھر اس رزق کو ماگنن یوالوں کی روزی بنادیا، پھر ان کے سوال کرنے کے وقت کو اس کی عطا کے لئے مقرر فرما دیا ،
پھر انہوں نے اس آیت کی تلاوت کی :
(حم السجدۃ : ١٠) اور اس نے زمین کے اوپر پہاڑ نصب کردیئے اور اس میں برکت رکھ دی اور اس میں رہنے والوں کی روزی بھی صرف چار دن میں مقرر کر کے رکھ دی، مانگنے والوں کے لئے برابر برابر۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ٨ ص ٢٦٧١ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)
بندوں نے اللہ تعالیٰ کی جو عبادت کی ہے اس عبادت کی بناء پر ان کے سوال کا کوئی جواز نہیں ہے۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے نیک عمل کرنے والے مومنوں سے جواز را ہے فضل و کرم اجر وثواب اور جنت عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے اس وعدہ کی بناء پر فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے مومنوں کے لئے سوال کیا، اور رسولوں نے اور مومنوں نے جی اس کہ ان آیات سے ظاہر ہے :
(الفتح : ٢٩) ایمان والوں اور ان میں سے نیک عمل کرنے والوں سے اللہ نے مغفرت کا اور اجر عظیم کا وعدہ فرمایا۔
(آل عمران : ٩٤) اے ہمارے رب ! ہمیں وہ اجرعطا فرما جس کا تو نے اپنے رسلووں کے ذریعہ ہم سے عدہ فرمایا ہے اور ہمیں روز قیامت شرمندہ نہ کرنا۔
القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 16