أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَقَالَ الَّذِيۡنَ لَا يَرۡجُوۡنَ لِقَآءَنَا لَوۡلَاۤ اُنۡزِلَ عَلَيۡنَا الۡمَلٰٓئِكَةُ اَوۡ نَرٰى رَبَّنَا ؕ لَـقَدِ اسۡتَكۡبَرُوۡا فِىۡۤ اَنۡفُسِهِمۡ وَعَتَوۡ عُتُوًّا كَبِيۡرًا‏ ۞

ترجمہ:

اور جو لوگ ہم سے ملاقات کی توقع نہیں رکھتے، انہوں نے کہا ہم پر فرشتے کیوں نہیں نازل کئے گئے یا ہم نے اپنے رب کو دیکھ لیا ہوتا، انہوں نے اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھا اور بہت بڑی سرکشی کی

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جو لوگ ہم سے ملاقات کی توقع نہیں رکھتے، انہوں نے کہا ہم پر فرشتے کیوں نہیں نازل کئے گئے، یا ہم نے اپنے رب کو دیکھ لیا ہوتا، انہوں نے اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھا اور بہت بڑی سرکشی کی۔ جس دن وہ فرشتوں کو دیکھیں گے، اس دن ان مجرموں کے لئے کوئی خوش خبری نہیں ہوگی وہ کہیں گے (کاش ہمارے درمیان) کوئی رکاوٹ والا حجاب ہوتا۔ (الفرقان : ٢٢-٢١ )

ایمان لانے کو فرشتوں کے نزول اور اللہ تعالیٰ کو دیکھنے پر معلق کرنے کا جواب 

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جو مشرکین ہماری ملاقات سے خوف زدہ نہیں ہیں اور ہمارے عذاب سے نہیں ڈرتے انہوں نے یہ کہا کہ اللہ نے ہمارے اوپر فرشتے کیوں نہیں نازل کئے جو ہمیں یہ خبر دیتے کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) برحق نبی ہیں اور وہ جو پیغام ہمارے پاس لے کر آئے ہیں وہ سچا ہے، یا ہم اپنے رب کو خود دیکھ لیں تو وہ ہمیں خود اس بات کی خبر دے دے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جن لوگوں نے یہ کہا ہے انہوں نے اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھا ہے اور تکبر کیا ہے اور اپنے اس قول میں وہ تکبر کی حد سے پھر بڑھ گئے ہیں۔ اس آیت میں عتو کا لفظ ہے۔ عتو کا معنی ہے زمین میں اپنے آپ کو بلند اور برتر سمجھنا شدید کفر اور سخت ظلم 

ان کا تکبر اور ان کی سرکشی یہ تھی کہ انہوں نے فرشتوں کو دنیا میں دیکھنے کا مطالبہ کیا۔ حالانکہ فرشتے صرف موت کے وقت دکھائی دیں گے یا نزول عذاب کے وقت، اور انہوں نے اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کا مطالبہ کیا حالانکہ کوئی آنکھ اللہ تعالیٰ کو دیکھ سکتی ہے نہ اس کا ادراک کرسکتی ہے۔ انہوں نے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیش کئے ہوئے معجزات کو اور اس قرآن کو کافی نہیں سمجھا جس کی نظیر لانے سے تمام انسان اور جن عاجز رہے تو پھر فرشتوں کو دیکھ لینا ان کے لئے کیسے کافی ہوسکتا تھا، جب کہ وہ فرشتوں اور شیاطین کے درمیان تمیز اور فرق نہیں کرسکتے، اور یہ جاننے کے لئے کہ دکھائی دینے والی چیز فرشتہ ہے شیطان نہیں ہے پھر ایک معجزہ کی ضرورت ہوگی اور معجزات کو ثبوت کے لئے انہوں نے کافی نہیں سمجھا تھا۔ علاوہ ازیں انسان بہ حیثیت انسان، فرشتہ کو بہ حیثیت فرشتہ نہیں دیکھ سکتا۔ سوا اس صورت کے کہ فرشتہ انسانی پیکر اور انسانی شکل میں آئے اور جب فرشتہ انسانی شکل میں آ کر ان سے بات کرے گا تو وہ پھر اس کو فرشتہ نہیں مانیں گے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 21