وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَكَ مِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَ اِلَّاۤ اِنَّهُمۡ لَيَاۡكُلُوۡنَ الطَّعَامَ وَيَمۡشُوۡنَ فِى الۡاَسۡوَاقِ ؕ وَجَعَلۡنَا بَعۡضَكُمۡ لِبَعۡضٍ فِتۡنَةً ؕ اَتَصۡبِرُوۡنَۚ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيۡرًا۞- سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 20
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنَا قَبۡلَكَ مِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَ اِلَّاۤ اِنَّهُمۡ لَيَاۡكُلُوۡنَ الطَّعَامَ وَيَمۡشُوۡنَ فِى الۡاَسۡوَاقِ ؕ وَجَعَلۡنَا بَعۡضَكُمۡ لِبَعۡضٍ فِتۡنَةً ؕ اَتَصۡبِرُوۡنَۚ وَكَانَ رَبُّكَ بَصِيۡرًا۞
ترجمہ:
اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے تھے اور ہم نے تم میں سے بعض کو دوسرے بعض کے لئے آزمائش کا سبب بنایا ہے، کیا تم صبر کرو گے ؟ اور آپ کا رب خوب دیکھنے والا ہے ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے وہ سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے تھے اور ہم نے تم میں سے بعض کو دوسرے بعض کے لئے آزمئاش کا سبب بنایا ہے، کیا تم صبر کرو گے ؟ اور آپ کا رب خوب دیکھنے والا ہے۔ (الفرقان : ٢٠ )
رزق اور دیگر مقاصد کے حصول کے لئے اسباب اور وسائل کو تلاش کر کے اختیار کرنا
ضحاک نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ جب مشرکین نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو عار دلایا اور کہا یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے رد میں یہ آیت نازل فرمائی کہ ہم نے آپ سے پہلے جتنے رسول بھیجے ہیں سب سے ان کے زمانہ کے مشرکوں نے یہی کہا تھا کہ تم کیسے رسول ہو جو کھانا کھاتے ہو اور بازاروں میں چلتے ہو۔ (معالم التنزیل ج ٣ ص ٤٣٩ مطبوعہ اداراحیاء التراث العربی بیروت : ١٤٢٠ ھ)
انبیاء سابقین (علیہم السلام) اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بازاروں میں چلنا تجارت اور صنعت کے ذریعہ طلب معاش کے لئے ہوتا تھا۔
قرآن مجید میں حضرت دائود (علیہ السلام) کے متعلق ہے :
(الانبیائ : ٨٠) اور ہم نے اس کو زرہ بنانے کا طریقہ سکھایا تاکہ وہ زرہ جنگ میں تمہاری حفاظت کرے۔
اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میرا رزق میرے نیزے کے سائے کے نیچے بنادیا گیا ہے۔ پوری حدیث اس طرح ہے :
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھے تلوار کے ساتھ مبعوث کیا گیا ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور میرا رزق میرے نیزے کے سائے کے نیچے بن دیا گیا ہے اور جس نے میرے حکم کی مخالفت کی اس کے لئے ذلت اور حقارت بنادی گئی ہے، اور جس شخص نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی اس کا شمار اسی قوم سے ہوگا۔ (صحیح البخاری کتاب الجہاد، باب : ٨٨ ماقبل فی الرماح مسند احمد ج ٢ ص ٥٠ مصنف ابن ابی شیبہ رقم الحدیث : ١٩٣٩٤ مجمع الزوائد ج ٦ ص ٤٩، احمد محمد شاکر نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ حاشیہ مسند احمد رقم الحدیث : ٥١١٤ دارالحدیث قاہرہ)
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ ہتھیاروں کے ساتھ دشمنان اسلام کے خلاف جہاد کرنے سے میدان جنگ میں ان کا چھوڑا ہوا مال، اسباب، اور ہتھیار وغیرہ مسلمانوں کو بہ طور مال غنیمت حاصل ہوتے ہیں اور وہ بھی مسلمانوں کے حصول رزق کا ایک ذریعہ ہے۔
قرآن مجید میں ہے :
(الانفال : ٦٩) پس تم نے جو کچھ حلال اور پاکیزہ مال غنیمت حاصل کیا ہے اس سے کھائو۔
اور صحابہ کرام (رض) مال غنیمت کے حصول کے علاوہ تجارت اور صنعت و حرفت کے ذریعہ بھی رزق حاصل کرتے تھے : حضرت عائشہ صدیقہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو خلیفہ بنایا گیا تو انہوں نے کہا کہ میری قوم کو معلوم ہے کہ میری صنعت اور حرفت میرے اہل و عیال کی کفالت سے عاجز نہیں ہے اور اب میں مسملانوں کی خلافت اور حکومت کے ساتھ مشغول ہوگیا ہوں۔ پس اب ابوبکر کے اہل و عیال اس مال سے کھائیں گے (یعنی بیت المال کے وظیفے سے) اور میں مسلمانوں کے لئے کام کروں گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٠٧٠)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کام کاج اور محنت مزدوری کرتے تھے اور ان کے جسم سے بو آتی تھی ان سے کہا گیا کہ اگر تم غسل کرلیا کرو (تو بہتر ہے) (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٠٧١، (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٥٢)
حضرت مقدام (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسیش خص نے اپنے ہاتھ کی کمائی سے افضل اور بہتر کھانا نہیں کھایا اور اللہ کے نبی حضرت دائود (علیہ السلام) اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٠٧٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢١٣٨، مسند احمد رقم الحدیث : ٧٢٢٢ عالم الکتب)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص اپنی کمر پر لکڑیوں کا گھٹا لاد کر لائے تو وہ اس سے بہرت ہے کہ وہ کسی سے سوال کرے وہ اس کو دے یا اس کو منع کر دے۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٠٧٤، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٥٨٤، مسند حمد رقم الحدیث : ٧٣١٥، عالم الکتب)
حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ اس شخص پر رحم فرمائے جو کسی چیز کو خریدتا ہے یا فروخت کرتا ہے یا کسی سے تقاضا کرتا ہے تو نرمی سے کام لیتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٠٧٦، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٢٠٣)
ترک اسباب پر صوفیاء کے دلائل اور ان کے جوابات اور توکل کا صحیح مفہوم
بعض صوفیاء کسب معاش اور حصول رزق کے اسباب اختایر کرنے کے مخالف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ پر توکل کرنے کے خلاف ہے، اگر انسان اللہ پر کامل توکل کرے تو ان اسباب کے بغیر بھی اللہ تعالیٰ ان کو رزق عطا فرمائے گا، قرآن مجید میں ہے۔
(الذاریات : ٢٢) اور تمہاری روزی اور جو تم سے وعدہ کیا جاتا ہے سب آسمان میں ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس رزق سے مراد بالا جماع بارش کا نازل فرمانا ہے کیونکہ آسمان سے عادتاً روٹیاں نہیں برستیں اور اس آیت کا منشاء یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے بارش نازل فرماتا ہے تاکہ تم اس سے اپنے کھیتوں اور باغات کو سیراب کرسکو اور ظاہر ہے کہ کھیت اور باغات انسان کی محنت اور کسب سے وجود میں آتے ہیں، اس کی تائید میں حسب ذیل آیات ہیں :
(الممن : ١٣) وہی تمہارے لئے آسمان سے رزق نازل فرماتا ہے۔
(ق : ١١-٩) اور ہم نے آسمانوں سے برکت والا پانی نازل فرمایا اور اس سے باغات اور کھیتوں میں کٹائی کئے جانے والے غلے پیدا کئے۔ اور کھجوروں کے بلند درخت جن کے خوشے تہ بہ تہ ہیں۔ بندوں کے رزق کے لئے اور ہم نے پانی سے مردہ شہر کو زندہ کردیا، اسی طرح (مردوں کا قبروں سے) نکلنا ہے۔
نیز اللہ تعالیٰ نے دشمنان اسلام سے مقابلہ کے لئے سامان حرب اور سواریوں کو تیار رکھنے کا حکم دیا ہے اور یہ نہیں فرمایا کہ تم تو کل کر کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جائو۔ ارشاد فرمایا :
(الانفال : ٦٠) تم دشمنوں سے مقابلہ کے لئے مقدور بھر اسلحہ اور گھوڑے (سواریاں) تیار رکھو تاکہ تم ان سے اللہ کے دشمنوں کو اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی۔
اسی طرح حضرت مریم سے فرمایا :
(مریم : ٢٥) اور اس کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلائو، یہ تمہارے اوپر ترو تازہ پکی کھجوریں گرا دے گا۔
حالانکہ اللہ تعالیٰ اس پر قادر تھا کہ حضرت میرم کے ہلائے بغیر ان کے اوپر ترو تازہ کھجوریں گرا دیتا لیکن ان کو یہ حکم دیا کہ وہ کھجور کے تنے کو ہلائیں کیونکہ حصول رزق کی جدوجہد کے لئے جو کام حضرت مریم کرسکتی تھیں، وہ ان کو کرنا ہوگا۔
اسی طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ارشاد فرمایا :
(الشعرائ : ٦٣) اپنی لاٹھی سمندر پر ماریئے۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے لاٹھی ماری تو سمندر پھٹ گیا اور پانی کا ہر حصہ بڑے پہاڑ کی مانند ہوگیا اور درمیان میں خشکی کے بارہ حصے بن گئے، جب اللہ تعالیٰ نے سمندر میں خشکی کے بارہ راستے بنا دیئے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو سمندر میں لاٹھی مارنے کا حکم کیوں دیا ؟ یہ اس لئے کہ سمندر میں خشکی کے بارہ راستے بنانے پر تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) قادر نہ تھے لیکن سمندر میں لاٹھی تو مار سکتے تھے اس لئے جو کام وہ کرسکتے تھے اس کے کرنے کا انہیں حکم دیا اور جو کام وہ نہیں کرسکتے تھے، وہ اللہ تعالیٰ نے کردیا۔ اس سے بھی واضح ہوگیا کہ اپنے مقصود کے حصول کے لئے جدوجہد کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے بلکہ قرآن مجید اور احادیث کی یہ تعلیم اور تلقین ہے کہ اپنے مقصد کے حصول کے لئے اسباب اور وسائل کو حاصل کیا جائے اور پھر نتیجہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیا جائے اور اسباب اور وسائل کو ترک کرن اتوکل نہیں ہے۔ کچھ لوگ سفر خرچ کے بغیر حج کے لئے جاتے تھے اور راستہ میں مانگ تانگ کر کام چلاتے تھے تو ان کو سفر خرچ لے کر سفر کرنے کی ہدایت کی گئی۔ قرآن مجید میں ہے :
(البقرہ : ١٩٧) اور سفر خرچ ساتھ لے کر سفر کرو بہترین سفر خرچ سوال سے بچنا ہے۔
حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ ! میں اونٹنی کو باندھ کر توکل کروں یا اس کو کھلا چھوڑ کر توکل کروں ؟ آپ نے فرمایا اس کو باندھ کر توکل کرو۔
(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٥١٧ حلیۃ الاولیاء ج ٨ ص 390، المسند الجامع رقم الحدیث : ١٥٩٢)
جو صوفی لوگ محنت اور کسب کرنے کے خلاف ہیں وہ اس حدیث سے بھی استدلال کرتے ہیں :
حضرت عمر بن الخطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر تم اللہ پر اس طرح توکل کرو جس طرح توکل کرنے کا حق ہے تو تم کو اس طرح رزق دیا جائے گا جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے، وہ صبح کو بھوکے نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر آتے ہیں۔
(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٣٤٤، مسند احمد ج ١ ص ٣٠ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١٦٤، مسند ابویعلی رقم الحدیث : ٢٤٧ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٣٠ المستدرک ج ٤ ص ٣١٨ حلیتہ الاولیاء ج ١٠ ص ٦٩ شرح السنتہ رقم الحدیث : ٤١٠٨)
اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں ان کی کوئی دلیل نہیں ہے، کیونکہ پرندوں کو بھی کسب اور محنت کے بغیر رزق نہیں ملتا، ایسے نہیں ہوتا کہ وہ کسی درخت پر یا گھاس پر بیٹھ جائیں اور آسمان سے ان کے اوپر دانے گرنے لگیں۔
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا زمین کے گوشوں میں رزق طلب کرو۔ (المطالب العالیہ رقم الحدیث : ١٢٩٠ کنز العمال رقم الحدیث : ٩٣٠٢)
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اعلان نبوت سے پہلے کئی کئی دن غار حرا میں جا کر تنہائی میں عبادت کرتے تھے اور اپنے ساتھ کھانے پینے کی چیزیں لے جاتے تھے پھر جب وہ چیزیں ختم ہوجاتیں تو دوبارہ گھر جا کر کھانے پینے کی چیزیں لے کر آتے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٦١ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٣٢٥ )
حضرت زبیر بن عوام (رض) بیان کرتے ہیں کہ غزوہ احاد میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دو زرہیں پہنی ہوئی تھیں۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٦٩٢ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٢ ص ٩١ مسند احمد ج ١ ص ١٦٥ )
اور حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فتح مکہ کے سال، مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے سر پر خود تھا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٦٩٣ صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٨٤٦ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٣٥٧، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٦٨٦، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٨٦٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٨٠٥)
دیکھئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر غار حرا جاتے تھے اور زرہ اور خود پہن کر جہد کے لئے جاتے تھے اور آپ سید المتوکلین ہیں، اس کے باوجود اسباب اور وسائل کو ترک نہیں کرتے تھے۔ سو کسی مقصد کے حصول کے لئے اس کے اسباب اور وسائل کو ترک کرنا آپ کی تعلیم، آپ کی سیرت اور آپ کی ہدایت کے خلاف ہے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور ہم نے تم میں سے بعض کو دوسرے بعض کے لئے آزمائش کا سبب بنایا ہے کیا تم صبر کرو گے ؟ اور آپ کا رب خود دیکھنے والا ہے۔
اہل نعمت کی اہل مصیبت سے شکر میں اور اہل مصیبت کی اہل نعمت سے صبر میں آزمائش
امام عبدالرحمٰن بن محمد ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ اپنی اسانید کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
ابو رافع الزرقی بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ ہمارے غلاموں کے متعلق کیا فرماتے ہیں اور وہ لوگ مسلمان ہیں ہماری طرح روزے رکھتے ہیں اور ہماری طرح نماز پڑھتے ہیں اور ہم ان کو مارتے پیٹتے ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ان کے گناہوں اور تمہارے ان کو مارنے کا وزن کیا جائے گا اگر تمہاری مار ان کے گناہوں سے زیادہ ہوگی تو تمہاری گرفت کی جائے گی۔ مسلمانوں نے کہا آپ یہ بتائیں کہ ہم نے جو ان کو سب و شتم کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ان کے گناہوں اور تم نے جو ان کو ایذا پہنچائی ہے اس کا وزن کیا جائے گا، اگر تمہاری ان کو پہنچائی ہوئی ایذا زیادہ ہوئی تو تمہاری نیکیاں ان کو دی جائیں گی۔ اس شخص نے کہا میں نے ان سے بڑا دشمن تو کوئی نہیں سنا، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ آیت تلاوت فرمائی : اور ہم نے تم میں سے بعض کو دوسرے بعض کے لئے آزمئاش کا سبب بنایا ہے۔ کیا تم صبر کرو گے ؟ اور آپ کا رب خوب دیکھنے والا ہے۔ (الفرقان : ٢٠) پھر اس شخص نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ بتائیں اگر میں اپنی اولاد کو ماروں تو پھر ؟ آپ نے فرمایا اگر تم اپنی اولاد کو مارو تو اس میں تم سے کوئی شکایت نہیں ہے اور نہ کوئی تہمت ہے، اور تم یہ گوارا نہیں کرو گے کہ تم پیٹ بھر کر کھائو اور تمہاری اولاد بھوکی رہے اور تم کپڑے پہنو اور تمہاری اولاد ننگی رہے۔
(تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٥٠٤٦ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)
حسن بصری نے اس آیت کی تفسیر میں کہا : فقیر کہے گا اگر اللہ مجھے فلاں شخص کی مثل غنی بنا دیتا اور بیمار کہے گا کہ اگر اللہ مجھے فلاں شخص کی مثل صحت مند بنا دیتا۔ (یہی بعض کی بعض سے آزمائش ہے) (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٥٠٤٧ )
امام محمد بن احساق نے اس آیت کی تفسیر میں کہا یعنی اللہ فرماتا ہے میں نے تم سے بعض کو مصائب میں مبتال کردیا تاکہ تم دورسوں کی باتیں سن کر صبر کرو اور ان کی مخالفت کو برداشت کرو، اور تم ہدایت پر عمل کرو بغیر اس کے کہ میں تم کو دنیا عطا کروں اور اگر میں چاہتا تو میں اپنے رسولوں کے ساتھ دنیا رکھ دیتا اور وہ مخالفت نہ کرتے، لیکن میں نے یہ ارادہ کیا کہ تمہاری وجہ سے بندوں کو آزمائش میں ڈالوں اور تمہیں ان کی وجہ سے آزمائش میں ڈالوں۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٥٠٥٠ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)
امام ابو القاسم عبدالکریم بن ہوازن القشیری المتوفی ٤٦٥ ھ لکھتے ہیں :
اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور جس پر فضیلت دی ہے اس کو صبر کرنے کا اور تقدیر پر راضی رہنے کا حکم دیا ہے اور جس کو فضیلت دی ہے اس کو اس فضل اور نعمت پر شکر کرنے کا حکم دیا ہے اور ایک قوم کو مصائب کے ساتھ خاص کرلیا اور ان کو اہل مصائب کے لئے آزمائش بنادیا اور دوسری قوم کو عافیت اور آسئاش کے ساتھ خاص کرلیا اور ایک قوم کو بیماریوں اور عیب نہیں۔ کسی پر اس کے جرم کی وجہ سے مصائب نہیں آتے بلکہ اللہ کے حکم کی وجہ سے آتے ہیں اور کسی پر نعمتیں اس کے استحقاق اور اس کی کارکردگی کی وجہ سے نہیں ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کی وجہ سے ہوتی ہیں اور اس کے ارادہ کی وجہ سے ہوتی ہیں ان کی عبادتوں کی وجہ سے نہیں ہیں اور مصائب اس کے اختیار کی وجہ سے ہیں ان کے برے اخلاق کی وجہ سے نہیں ہیں۔
پھر فرمایا : کیا تم صبر کرو گے ؟ یہ استفہار حکم کے معنی میں ہے یعنی صبر کرو۔ پس جس کو توفیق ہوگی وہ صبر اور شکر کرے گا اور جس کو توفیق نہیں ہوگی وہ انکار کرے گا اور کفر کرے گا۔ (لطائف الاشارات ج ٢ ص 380 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٢٠ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 20