يَوۡمَ يَرَوۡنَ الۡمَلٰٓئِكَةَ لَا بُشۡرٰى يَوۡمَئِذٍ لِّـلۡمُجۡرِمِيۡنَ وَ يَقُوۡلُوۡنَ حِجۡرًا مَّحۡجُوۡرًا ۞- سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 22
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
يَوۡمَ يَرَوۡنَ الۡمَلٰٓئِكَةَ لَا بُشۡرٰى يَوۡمَئِذٍ لِّـلۡمُجۡرِمِيۡنَ وَ يَقُوۡلُوۡنَ حِجۡرًا مَّحۡجُوۡرًا ۞
ترجمہ:
جس دن وہ فرشتوں کو دیکھیں گے اس دن ان مجرموں کے لئے کوئی خوش خبری نہیں ہوگی وہ کہیں گے (کاش ہمارے درمیان) کوئی رکاوٹ والا حجاب ہوتا
حجرا محجورا کے دو محمل
اللہ تعالیٰ نے فرمایا جس دن وہ فرشتوں کو دیکھیں گے تو ان مجرموں کے لئے کوئی خوش خبری نہیں ہوگی۔ اس کا معنی یہ ہے کہ فرشتوں کو کوئی شخص موت سے پہلے نہیں دیکھ سکتا، موت کے وقت فرشتے مومنوں کو جنت کی بشارت دیں گے اور کافروں پر لوہے کے گرز مار کر ان کی روحوں کو انکے جسموں سے نکالیں گے۔
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا وہ کہیں گے حجرا محجوراً اس کی دو تفسیریں ہیں یا تو فرشتے کافروں کی روحوں کو ان کے جسموں سے نکالتے وقت ان سے کہیں گے حجرا محجوراً یا اس وقت کافر حسرت اور یاس سے کہیں گے حجرا محجورا
حجر کے اصل معنی ہیں منع کرنا اور روک دینا۔ جس طرح قاضی کسی پر اس کی بےوقوفی اور کم عمری کی وجہ سے پابندی لگا دیتا ہے اور اس کو اس کے مال میں تصرف کرنے سے روک دیتا ہے تو کہا جاتا ہے حجر القاضی علی فلان، قاضی نے فلاں شخص کو تصرف کرنے سے روک دیا ہے۔ اسی مفہوم میں خانہ کعبہ کے اس حصے (حطیم) کو حجر کہا جاتا ہے جس کو قریش مکہ نے وسائل کی کمی کی وجہ سے خانہ کعبہ میں شامل نہیں کیا تھا، اسی وجہ سے حطیم کے اندر سے طواف کرنا منع ہے یعنی اس پر حجر اور پابندی ہے اور حطیم کے باہر سے خانہ کعبہ کا طواف کیا جاتا ہے اور عقل کو بھی اسی وجہ سے حجر کہا جاتا ہے کیونکہ عقل بھی انسانوں کو ان کاموں سے روکتی ہے جو اس کے حق میں نقصان دہ ہیں۔ پس اگر یہ قول فرشتوں کا ہو تو اس کا معنی یہ ہوگا تمہارے لئے وہ چیزیں ممنوع ہیں اور حرام ہیں اور تم ان چیزوں سے محروم ہو جن کی بشارت مومنوں کو دی جاتی ہے اور اگر یہ قول کافروں کا ہو تو اس کا ممنوع ہیں اور حرام ہیں اور تم ان چیزوں سے محروم ہو جن کی بشارت مومنوں کو دی جاتی ہے اور اگر یہ قول کافروں کا ہو تو اس کا معنی یہ ہے کہ جب کافر موت کے وقت فرشتوں کو گرز مارتے ہئے دیکھیں گے تو کہیں گے کاش ہمارے اور فرشتوں کے درمیان کوئی رکاوٹ اور حجاب ہوتا اور ہم فرشتوں کو نہ دیکھ سکتے۔
امام بغوی نے کہا کہ حضرت ابن عباس نے فرمایا : یہ قول فرشتوں کا ہے اور ابن جریج اور مجاہد نے کہا یہ قول کافروں کا ہے۔ (معالم التنزیل ج ٣ ص ٤٤١ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢٠ ھ)
القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 22