أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلَمۡ تَرَ اِلٰى رَبِّكَ كَيۡفَ مَدَّ الظِّلَّ‌ ۚ وَلَوۡ شَآءَ لَجَـعَلَهٗ سَاكِنًا‌ ۚ ثُمَّ جَعَلۡنَا الشَّمۡسَ عَلَيۡهِ دَلِيۡلًا ۞

ترجمہ:

کیا آپ نے اپنے رب کی (قدرت کی) طرف نہیں دیکھا کہ اس نے کس طرح سائے کو پھیلا دیا وہ اگر چاہتا تو اس کو ٹھیرا ہوا کردیتا، پھر ہم نے سورج کو اس کے اوپر علامت بنادیا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : کیا آپ نے اپنے رب کی (قدرت کی) طرف نہیں دیکھا کہ اس نے کس طرح سائے کو پھیلا دیا، وہ اگر چاہتا تو اس کو ٹھہرا ہوا کردیتا، پھر ہم نے سورج کو اس کے اوپر علامت بنادیا۔ پھر ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اپنی طرف کھینچ لیا۔ (الفرقان : ٤٦-٤٥ )

ظل اور فئی کا معنی 

ظل سورج کی روشنی اور دھوپ کی ضد ہے اور یہ فئی سے عام ہے، ظل الیل اور ظل الجنۃ (رات کا سایا اور باغ کا سایا) کہا جاتا ہے اور ہر وہ جگہ جہاں دھوپ نہ پہنچے اس کو ظل (سایا) کہا جاتا ہے اور فئی صرف اسی جگہ کہ کہا جاتا ہے جہاں سے دھوپ اور سورج کی روشنی آ کر زائل ہوجائے اور کسی عزت دار چیز کو بھی ظل کہا جاتا ہے۔ (المفردات ج ٢ ص ٤٠٩، مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، 1418 ھ)

امام ابو محمد الحسین بن مسعود بغوی المتوفی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں :

اس سے مراد طلوع فجر سے لے کر طلوع شمس تک کا وقت ہے اس وقت ایسا سایا ہوتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے پھیلا یا ہوا ہوتا ہے کیونکہ اس وقت دھوپ نہیں ہوتی، ایک وہ وقت ہے جب مکمل تاریکی ہوتی ہے یہ رات کا وقت ہے اور ایک وہ وقت ہے جب مکمل روشنی اور دھوپ ہوتی ہے یہ دن کا وقت ہے، اور ایک سائے کا وقت ہے جس میں سورج کی دھوپ اور رات کے اندھیرے کی درمیانی کیفت ہوتی ہے اور یہ سائے کا وقت ہے، اور اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو سائے کو دائمی کردیتا اور سورج کبھی طلوع نہ ہوتا اور دن کی روشنی حاصل نہ ہوتی اور لوگ تلاش روزگار کے لئے کوئی کام نہ کرسکتے۔

پھر آہستہ آہستہ سائے کو بہ تدریج اپنی طرف کھینچ لیتا ہے، یعنی سورج کے طلوع ہنے سے پہلے تمام روئے زمین پر سایا پھیلا ہوا ہوتا ہے، پھر جب سورج طلوع ہوجاتا ہے تو سایہ آہستہ آہستہ کم ہونے لگتا ہے اور جب سورج بالکل سروں پر پہنچ جاتا ہے اور مکمل دھوپ پھیل جاتی ہے تو سایہ نہ ہونے کے برابر ہوجاتا ہے، پھر جب سورج مغرب کی طرف جھکنے لگتا ہے تو پھر سائے نمودار ہونے شروع ہوجاتے ہیں اور سائے کی نمود اور اس کے گھٹنے، بڑھنے اور ختم ہونے پر اللہ تعالیٰ نے سورج کو علامت اور دلیل بنادیا ہے۔ (معالم التنزیل ج ٣ ص ٤٤٧ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢٠ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 45