اَمۡ تَحۡسَبُ اَنَّ اَكۡثَرَهُمۡ يَسۡمَعُوۡنَ اَوۡ يَعۡقِلُوۡنَ ؕ اِنۡ هُمۡ اِلَّا كَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ هُمۡ اَضَلُّ سَبِيۡلًا ۞- سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 44
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَمۡ تَحۡسَبُ اَنَّ اَكۡثَرَهُمۡ يَسۡمَعُوۡنَ اَوۡ يَعۡقِلُوۡنَ ؕ اِنۡ هُمۡ اِلَّا كَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ هُمۡ اَضَلُّ سَبِيۡلًا ۞
ترجمہ:
یا آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے ہیں یا سمجھتے ہیں، یہ تو صرف چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یا آپ یہ گمان کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر لوگ سنتے ہیں یا سمجھتے ہیں ! یہ تو صرف چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گم راہ ہیں۔ (الفرقان : ٤٤ )
کفار سے سننے اور عقل کی نفی کی توجیہ
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا یہ کفار ہدایت کو قبول کرنے کی غرض سے سنتے ہیں اور نہ اس کو بصیرت سے دیکھتے ہیں اور نہ اس میں غور و فکر کرتے ہیں۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٥٢٠٥)
یعنی یہ کافر ان لوگوں کے قائم مقام ہیں جن کے پاس نہ عقل ہے نہ کان ہیں، جب انہوں نے سننے سے اس کی غرض کو پورا نہیں کیا اور دیکھنے سے اس کی غرض کو پورا نہیں کیا اور غور و فکر سے اس کی غرض کو پورا نہیں کیا تو گویا وہ سنتے ہیں نہ دیکھتے ہیں نہ سوچ و بچار کرتے ہیں۔ ان کو کان اس لئے دیئے تھے کہ وہ قبول کرنے کی غرض سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کلام سنتے، محبت سے آپ کے چہرہ انوار کو دیکھتے آپ کی نبوت کے دلائل میں غور و فکر کرتے اور جب انہوں نے اس غرض کو پورا نہیں کیا تو وہ اللہ کے نزدیک سننے والے ہیں نہ دیکھنے والے ہیں نہ غور کرنے والے ہیں۔
کفار کا چوپایوں سے زیادہ گم راہ ہونا
پھر فرمایا یہ تو چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گم راہ ہیں۔
حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا کافروں کی مثال تو اونٹ، گدھے اور بکری کی طرح ہے، کیونکہ اگر تم ان چوپایوں سے کوئی بات کہ وہ تو وہ صرف تمہاری آواز سنیں گے اور وہ یہ بالکل نہیں سمجھ سکیں گے کہ تم ان سے کیا کہہ رہے ہو، اسی طرح جب تم کفار سے کوئی نیکی کی بات کہو یا جب تم ان کو کسی برائی سے روکو اور ان کو نصیحت کرو تو وہ نہیں سمجھیں گے کہ تم کیا کہہ رہے ہو وہ صرف تمہاری آواز سنیں گے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٥٢٠٧ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)
کافروں کو چاپایوں سے زیادہ گم راہ قرار دیا ہے، کیونکہ چوپایوں سے حساب لیا جائے گا نہ ان کو عذاب دیا جائے گا۔ مقاتل نے کہا چوپائے اپنے مالکوں کو پہچانتے ہیں اور اپنے مالکوں کے احکام کی اطاعت کرتے ہیں اور ان کے اشاروں پر چلتے ہیں اور یہ کفار اپنے رب کو نہیں پہچانتے جس نے ان کو پیدا کیا ہے اور ان کو رزق دیا ہے اور اس کی اطاعت نہیں کرتے اور ایک قول یہ ہے بھی ہے کہ چاپویں کو ہرچند کہ توحید اور رسالت کا صحیح ادراک نہیں ہے لیکن وہ توحید اور رسالت کے باطل ہونے کا اعتقاد بھی نہیں رکھتے اس لئے یہ کفار چوپایوں سے زیادہ گم راہ ہیں۔
اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ چوپائے اللہ کی تسبیح پڑھتے ہیں اور اس کو سجدہ کرتے ہیں اس کے برخلاف یہ کافر اس میں سے کچھ بھی نہیں کرتے بلکہ اللہ کو سجدہ کرنے پر اپنے ہاتھ سے تراشے ہوئے پتھر کے بتوں کو سجدہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اس لئے یہ چوپایوں سے زیادہ گم راہ ہیں۔
امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ھوازن بن عبدالملک القشیری نیشاپوری الشافعی المتوفی ٤٦٥ ھ لکھتے ہیں :
یہ کافر ان چوپایوں کی طرح ہیں جن کی کوشش کھانے، پینے اور قضاء شہوت کے سوا اور کسی چیز کے لئے نہیں ہوتی، سو جس شخص نے صرف اپنی نفسانی خواہشوں کے لئے جدوجہد کی وہ ان چوپایوں کی مثل ہے، اور اللہ سبحانہ نے فرشتوں کو پیدا کیا اور ان کی جبلت میں قعل رکھی اور چوپایوں کو پیدا کیا اور ان کی جبلت میں صرف ان کے حیوانی تقاضے رکھے، اور بنو آدم کو پیدا کیا اور ان کی جبت میں یہ دونوں چیزیں رکھیں یعنی عقل اور حیوانی تقاضے۔ پس جس نے اپنی خواہشات کو اپنی عقل پر ترجیح دی وہ چوپاوں سے بدتر ہے اور جس نے اپنی عقل کو اپنی خواہشات پر ترجیح دی وہ فرشتوں سے افضل ہے اور یہی مشائخ کا قول ہے۔ (لطائف الاشارات ج ٢ ص 385 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٢٠ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 44