شیخ محقق قدس سرہ کا شوقِ مطالعہ
•[ شیخ محقق قدس سرہ کا شوقِ مطالعہ]•
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شیخ محقق شیخ عبدالحق محدث دہلوی قدس سرہ (متوفی: 1052ھ) کی تصنیفِ لطیف” اخبار الأخيار في احوال الأبرار“ (مترجم) سے چند اقتباسات 👇🏻
آپ رحمہ اللہ لکھتے ہیں
✿ علم نحو میں کافیہ، لب الالباب اور ارشاد وغیرہ کے بعض اوقات ایک نشست میں سولہ سولہ صفحات پڑھ جاتا اور شوق کا یہ حال تھا کہ حاشیے والی کوئی کتاب میسر آ جاتی تو وہ کتاب میں کسی استاد سے پڑھنے کی بجائے اکثر اپنے آپ ہی پڑھ لیا کرتا تھا اور سمجھ بھی لیتا تھا……… میرے ہاتھ میں جو بھی کتاب آ جاتی میں اس کے شروع اور آخر کا لحاظ کیے بغیر اسے کھول کر آخر تک پڑھ لیا کرتا تھا۔ مطالعہ کو وقت کا تقاضا اور ضروری لازمہ سمجھتا تھا، کیوں کہ حصول علم میرا نصب العین تھا۔
(ص 623)
✿ میں نے شرح شمسیہ اور شرح عقائد نسفی بارہ، تیرہ سال کی عمر میں پڑھ لی تھیں
(ایضاً)
✿ (مجھے) تعلیم و مطالعہ سے دن رات میں صرف دو گھنٹے ہی فرصت ملتی تھی
(ایضاً)
✿ میں بچپن سے ہی نہیں جانتا کہ کھیل کود کیا چیز ہے؟ مصاحبت و دوستی، سیر و تفریح اور آرام و آسائش کے کیا معنی ہیں؟
شب خواب چہ و سکوں کدام است
خود خواب بہ عاشقاں حرام است
(رات کی نیند کہاں اور سکوں کون سا ہے، بلکہ عشاق پر خود نیند حرام ہے)
علم و عمل کے شوق کی وجہ سے کسی وقت بھی کھانا وقت پر نہ کھایا۔
(ص 624)
✿ سردیوں کی سخت ٹھنڈی ہواؤں اور موسم گرما کی چلچلاتی دھوپ میں روزانہ دو بار صبح اور دوپہر میں مدرسے جاتا تھا، جب کہ مدرسہ ہمارے محل سرا سے دو میل فاصلے پر واقع تھا
(ایضاً)
✿ اکثر ایسا بھی ہوا (کہ رات کو پڑھتے ہوئے) چراغ کی لو سے میری پگڑی اور سر کے بالوں میں آگ لگ گئی اور مجھے اُس وقت پتا چلا جب آگ کی گرمی میرے دماغ تک پہنچی
چہ ود ہائے چراغ کہ دماغ نرفت
کدام بادۂ محنت کہ در ایاغ نرفت
کدام خواب و چہ آسائش و کجا آرام
چہ خار خار کہ در بسترِ فراغ نہ رفت
(کون سے چراغ کا دھواں ہے جو میرے دماغ میں نہیں گیا، اور کون سا مادۂ محنت ہے جو میرے کاسہ میں نہ پہنچا ہو…….. نیند کہاں اور آسائش کیسی اور آرام کون سا، کون سا کانٹا ہے جو میرے بستر فراغت پر نہ گیا ہو)
(ص، 625)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 🌹
اللہ پاک آپ کے درجات بلند فرمائے، اور ان کے صدقے ہمیں بھی ذوقِ مطالعہ و شوقِ عمل عطا فرمائے!!