أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِذَا رَاَوۡكَ اِنۡ يَّتَّخِذُوۡنَكَ اِلَّا هُزُوًا ؕ اَهٰذَا الَّذِىۡ بَعَثَ اللّٰهُ رَسُوۡلًا ۞

ترجمہ:

اور یہ لوگ جب بھی آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا مذاق اڑاتے ہیں (اور کہتے ہیں) کیا یہی وہ شخص ہے جس کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور یہ لوگ جب بھی آپ کو دیکھتے ہیں تو آپ کا مذاق اڑاتے ہیں (اور کہتے ہیں) کیا یہی وہ شخص ہے جس کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے۔ بیشک یہ ہم کو ہمارے معبودوں سے بہکانے لگے تھے اگر ہم ان (بتوں) کی پرستش پر ثابت قدم نہ رہتے اور وہ جب عذاب کو دیکھیں گے تو عنقریب جان لیں گے کہ کون سیدھے راستہ سے زیادہ بھٹکا ہوا ہے۔ (الفرقان : ٤٢-٤١ )

قریش کا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑانا اور آپ کو اذیت پہنچانا 

امام عبدالرحمٰن بن محمد ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

امام محمد بن ادریس بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ابوجہل نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے پیغام کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا، اے قریش کی جماعت ! (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ گمان ہے کہ دوزخ کے صرف 19 فرشتے تم سب کو دوزخ میں قید کر کے تم کو عذاب دیں گے حالانکہ تم اتنی بڑی تعداد اور اتنی زیادہ کثرت میں ہو۔ کیا ان میں سے ایک شخص تم میں سے سو آدمیوں کو عاجز کر دے گا ؟ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :

(المدثر : ٣١) اور ہم نے دوزخ کے پہرے دار صرف فرشتے مقرر کئے ہیں اور ہم نے ان کی تعداد صرف کافروں کی آزمائش کے لئے مقرر کی ہے تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں اور ایمان والوں کا ایمان اور قوی ہوجائے اور اہل کتاب اور مومنین شک نہ کریں، اور جن کے دلوں میں بیماری ہے اور کفاریہ کہیں گے کہ اس تعداد (انیس فرشتے) کو بیان کرنے سے اللہ کیا ارادہ فرماتا ہے، اسی طرح اللہ جس میں چاہتا ہے گمراہی پیدا کردیتا ہے اور جس میں چاہتا ہے ہدایت پیدا کردیتا ہے اور آپ کے رب کے لشکر کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور یہ قرآن تو انسانوں کے لئے صرف نصیحت ہے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٥١٩٦ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)

عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) سے کہا کہ آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ قریش کی کتنی زیادہ عداوت دیکھی ہے ؟ انہوں نے کہا ایک دن قریش کے سردار حطیم کعبہ میں جمع تھے، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر کر کے کہنے لگے، ہم نے نہیں دیکھا کہ ہم نے اس شخص سے زیادہ کسی اور پر صبر کیا ہو، یہ ہمارے جوانوں اور بوڑھوں کو گمراہ قرار دیتا ہے، ہمارے دین کی مذمت کرتا ہے، ہمارے جماعت میں تفرقہ ڈالتا ہے، ہمارے معبودوں کو برا کہتا ہے اور ہم اتنی بڑی زیادتی پر صبر کرتے ہیں، وہ اسی طرح کی باتیں کر رہے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آگئے، آپ نے آ کر حجر اسود کی تعظیم کی، پھر بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزرے، جب آپ ان کے پاس سے گزرے تو انہوں نے ایک دور سے کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرے پر نگاواری کے آثار دیکھے، آپ جب دورسا طواف کرتے ہوئے ان کے پاس سے گزرے اور انہوں نے حسب سابق اشارے کئے تو آپ ان کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا : اے قریش کی جماعت ! کیا تم سن رہے ہو ؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے میں تمہارے پاس قربانی کے احکام لے کر آیا ہوں، وہ لوگ اس طرح غور سے آپ کی بات سن رہے تھے جیسے ان کے سروں پر پرندے ہوں، حتیٰ کہ ان میں سے ایک شخص نے کہا اے ابو القاسم ! آپ کامیابی کے ساتھ واپس جائیں۔ اللہ کی قسم میں جاہل نہیں ہوں ! دور سے روز وہ پھر حطیم میں جمع ہوئے اور میں بھی ان کے ساتھ تھا، انہوں نے ایک دوسرے سے کہا تم نے اس شخص کا ذکر کیا اور ان باتوں کا جوا اس نے تم سے کیں اور ان باتوں کا جو تم نے اس سے کیں، حتیٰ کہ جب انہوں نے وہ باتیں شرع کیں جو تم کو ناگوار ہیں تو تم نے ان کو چھوڑ دیا۔ ابھی وہ یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لے آئے وہ سب چھلانگیں لگا کر آپ کے پاس گئے اور آپ کو گھیر لیا اور آپ سے کہنے لگے آپ ہی وہ شخص ہیں جو اس طرح اور اس طرح کہتے ہیں اور وہ سب باتیں کہیں جو آپ نے ان کے باطل خدائوں اور باطل دین کی مذمت میں کہیں تھیں، تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہاں ! میں نیہی یہ باتیں کہی ہیں، پھر میں نے دیکھا ایک شخص نے آپ کی چادر پکڑ کر آپ کو کہا تم پر افسوس ہوا تم ایک شخص کو صرف اس لئے قتل کر رہے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے، پھر وہ لوگ آپ کے پاس سے ہٹ گئے۔ یہ قریش کا سب سے سخت سلوک تھا جو میں نے آپ کے ساتھ دیکھا تھا۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٥١٩٧، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 41