وَهُوَ الَّذِىۡۤ اَرۡسَلَ الرِّيٰحَ بُشۡرًۢا بَيۡنَ يَدَىۡ رَحۡمَتِهٖۚ وَاَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوۡرًا ۞- سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 48
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَهُوَ الَّذِىۡۤ اَرۡسَلَ الرِّيٰحَ بُشۡرًۢا بَيۡنَ يَدَىۡ رَحۡمَتِهٖۚ وَاَنۡزَلۡنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً طَهُوۡرًا ۞
ترجمہ:
اور وہی ہے جو باران رحمت سے پہلے بشارت دینے والی ہوائیں بھیجتا ہے، اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والا پانی نازل کیا
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور وہی ہے جو باران رحمت سے پہلے بشارت دنیے والی ہوائیں بھیجتا ہے، اور ہم نے آسمان سے پاک کرنے والی پانی نازل کیا۔ (الفرقان : ٤٨ )
طہورکا معنی اور اس کا مصداق
طہور اس پانی کو کہتے ہیں جو فی نفسہ پاک ہوا اور نجس اشیاء کو پاک کرنے والا ہو، اس آیت سے معلوم ہوا کہ بارش کا پانی طاہر اور مطہر ہے، قرآن مجید میں ہے :
(الانفال : ١١) وہی ہے جس نے آسمان سے تم پر پانی نازل کیا تاکہ تم کو پاک کرے۔
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا اور کہا یا رسول اللہ ! ہم سمندر میں سفر کرتے ہیں اور ہمارے پاس بہت تھوڑا پانی ہوتا ہے، اگر ہم اس پانی سے وضو کرلیں تو پھر ہم پیاسے رہ جائیں گے ! تو کیا ہم سمندر کے پانی سے وضو کرلیا کریں، تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سمندر کا پانی طہور (پاک کرنے والا) ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٦٩ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٨٣ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٦ سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٩ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١ ص ١٣١ مسند احمد ج ٢ ص ٢٣٧، سنن الدارمی رقم الحدیث : ٧٣٥، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ١٢٤٣، المستدرک ج ١ ص ١٤٠، سنن بیہقی ج ١ ص ٣ شرح السنتہ رقم الحدیبث : ٢٨١)
بعض علماء نے یہ کہا کہ طہور اس پانی کو کہتے ہیں جس سے طہارت کا عمل بار بار حاصل ہو، جس طرح صبور اس شخص کو کہتے ہیں جو بار بار صبر کرے اور شکور اس شخص کو کہتے ہیں جو بار بار شکر کرے، اور یہ امام مالک قول ہے حتیٰ کہ ان کے نزدیک جس پانی سے ایک بار وضو کرلیا گیا ہو اس پانی سے بھی وضو کرنا جائز ہے اور جمہور کے نزدیک وہ پانی مستعمل ہے وہ اگرچہ فی نفسہ پاک ہے لیکن اس سے پاکیزگی حاصل نہیں ہوسکتی۔
کسی نجس چیز کے گرنے سے اگر پانی میں نجاست کی بو، اس کا رنگ یا اس کا ذائقہ آجائے تو وہ پانی طہور نہیں رہے گا۔
اگر پانی میں ایسی کوئی چیز گرج ائے جس سے پانی کا ذائقہ یا اس کا رنگ یا اس کی بو متغیر ہوجائے، اگر وہ ایسی چیز ہے جس سے پانی کو محفوظ رکھنا بہت مشکل ہے جیسے کیچڑ، مٹی اور درختوں کے پتے تو اس پانی سے طہارت حاصل کرنا جائز ہے، جیسے اگر کسی جگہ پانی کافی عرصہ تک ٹھہرا رہے تو اس کے اوصاف متغیر ہوجاتے ہیں اس طرح اگر پانی میں کوئی ایسی چیز گرجائے جو پانی میں سرایت اور حلول نہ کرے مثلاً تیل وغیرہ تو خواہ اس کی بو اور مزہ تبدیل ہوجائے پھر بھی اس سے وضو کرنا جائز ہے۔
اور اگر پانی میں کوئی پاک چیز گرجائے اور اس سے پانی کے اوصاف (رنگ، بو اور مزہ) تبدیل نہ ہوں تو پانی کا طہور ہونا باقی رہے گا، خواہ پانی قلیل ہو یا کثیر، اور گار پانی کی مقدار وہ دردہ سے کم ہو اور اس میں کوئی نجس چیز گرجائے تو وہ پانی نجس ہوجائے گا، اور اگر پانی کی مقدار وہ دردہ سے زیادہ ہو یا وہ پانی جاری ہو تو اس پانی میں نجاست کے گرنے سے پانی نجس ہوگا اور طہور ہی رہے گا جب تک کہ پانی کا رنگ یا بو یا مزہ تبدیل نہ ہوجائے۔
دہ دردہ کی مقدار میں پانی کا طہور ہونا
کثیر پانی کی مقدار فقہاء احناف کے نزدیک وہ دردہ ہے یعنی وہ تالاب جس کی لمبائی اور چوڑائی دس دس ہاتھ ہو۔ ملا علی بن سلطان حمد القاری حنفی متوفی 1014 ھ لکھتے ہیں :
اگر پانی جاری ہو یا دہ دردہ ہو۔ (یعنی دس ہاتھ لمبا اور دس ہاتھ چوڑا، ایک ہاتھ ڈیڑھ فٹ کا ہے، خلاصیہ ہے کہ وہ پانی پندرہ فٹ لمبا اور پندرہ فٹ چوڑا ہو اور اس کی کم از کم اتنی گہرائی ہو کہ چلو بھر پانی لیا جائے تو زمین خالی نہ ہو) تو اس پانی میں نجاست کے گرنے سے وہ پانی نجس نہیں ہوگا اور طہور ہی رہے گا۔
عامتہ المشائخ کا یہی قول ہے اور اسی قول پر فتویٰ ہے جیسا کہ ابواللیث نے کہا ہے، اور شرح الوقایہ میں مذکور ہے کہ ہم نے دو دردہ کا اعتبار اس لئے کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے کنواں کھودا اس کی حریم چالیس ہاتھ ہے پس ہر جانب سے اس کی حریم دس ہاتھ ہوگی، اور کوئی دوسرا شخص کنواں کھودے تو وہ اس کے چاروں طرف سے دس ہاتھ چھوڑ کر دوسرا کنواں کھودے گا اور اسی حدیث سے وہ دردہ کی مقدار کا تعین کیا گیا ہے۔ (شرح التقایہ ج ١ ص ٤٤ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچ)
قلتین کی مقدار میں پانی کا طہور ہونا
اور فقہاء شافعیہ کے نزدیک کثیر پانی کی مقدار قلتین ہے یعنی دو گھڑوں کی مقدار یا اس سے زیادہ پانی ہو۔
ابومحمد الحسین بن معسود الفرابغوی شافعی متوفی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں :
اور اگر پانی کی مقدار قلتان (دو گھڑے) یا اس سے زیادہ ہو تو وہ نجاست کے گرنے کے باوجود طہور ہے اور اس سے وضو کرنا جائز ہے۔ اور قلتان کی مقدار پانچ مشک ہے اور اس کا وزن پانچ سو رطل ہے (یعنی ڈھائی سو لیٹر) اور اس کی دلیل یہ حدیث ہے :
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس پانی کے متعق سوال کیا گیا جو جنگل کی زمین میں ہوتا ہے اور جس پانی سے چوپائے اور درندے آ کر پیتے رہتے ہیں، آپ نے فرمایا جب پانی قلتین (دو گھڑوں) کی مقدار ہو تو وہ حامل نجاست نہیں ہوتا۔
(سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٦٤ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٦٧ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٥١٧ مسند احمد ج ٢ ص ٢٧ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١ ص ١٤٤ سنن الدارقطنی ج ١ ص 19 المستدرک ج ١ ص 133 السنن الکبری اللبیہقی ج ١ ٢٦١ )
امام بغوی فرماتے ہیں یہ امام شافعی، امام احمد، اسحاق اور محدثین کی ایک جماعل کا قول ہے جب پانی اس مقدار کو پہنچ جائے تو اس میں نجاست کے گرنے سے وہ نجس نہیں ہوگا جب تک کہ اس کے تین اوصاف میں سے کوئی ایک وصف متغیر نہ ہوجائے۔ (معالم التنزیل ج ٣ ص ٤٤٩ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢٠ ھ)
ملا علی بن سلطان محمد القاری قلتین کی حدیث پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
اس حدیث کو حفاظ کی ایک جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے، ان میں حافظ ابن عبدالبر ہیں، قاضی اسماعیل بن اسحاق ہیں، اور ابوبکر بن العربی ہیں اور مالکی علماء ہیں، امام بیہقی نے کہا یہ حدیث قوی نہیں ہے، امام غزالی اور الرویانی نے اس کو ترک کردیا حالانکہ وہ امام شافعی کی بہت زیادہ اتباع کرتے ہیں اور امام بخاری کے استاذ علی بن المدینی نے کہا کہ قلتین کی حدیث بات نہیں ہے اس لئے کہ جب زمزم کے کنوئیں میں ایک حبشی گر کر مرگیا تو حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابن الزبیر نے یہ حکم دیا کہ زمزم کا تمام پانی نکالا جائے۔ اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو وہ اس سے استدلال کرتے (کیونکہ زمزم کے کنوئیں کا پانی قلتین یعنی دو گھوڑوں کی مقدار سے تو بہر حال بہت زیادہ تھا) اور بقیہ صحابہ اور تابعین اس سے استدلال کرتے اس سے معلوم ہوا کہ یہ حدیث شاذ ہے اور کسی مخصوص حادثہ کے متعق ہے اور اس حدیث کو اس حدیث کی طرح رد کردیا جائے گا جس طرح آگ سے پکی ہوئی چیز کو کھانے پینے سے وضو ٹوٹنے کی حدیث کو رد کردیا گیا ہے۔
پھر امام ابو دائود نے بھی قلتین کی حدیث کو رد کردیا ہے، کیونکہ اس حدیث کی سند اور متن مضطرب ہے۔ ایک روایت میں ہے اس پانی کو کوئی چیز نجس نہیں کرتی۔ ایک روایت میں ہے وہ پانی حامل نجاست نہیں ہے، امام بیہقی نے کہا کہ یہ حدیث غریب ہے ایک روایت میں ہے جب پانی دو قلہ یا تین قلہ (دو یا تین گھڑے) کی مقدار کو پہنچ جائے تو اس کو کوئی چیز نجس نہیں کرتی، ایک روایت میں ہے کہ جب پانی چالیس قلہ کی مقدار کو پہنچ جائے تو وہ حامل خبث نہیں ہوتا، اور اس حدیث کو امام الدارقطنی نے ضعیف کہا ہے اور انہوں نے ذکر کیا ہے کہ ایک جماعت نے حضرت ابن عمر (رض) سے موقوفاً روایت کیا ہے کہ جب پانی چالیس قلہ کی مقدار کو پہنچ جائے تو وہ نجس نہیں ہوتا، اور ایک روایت میں ہے اس کو کوئی چیز نجس نہیں کرتی اور ایک روایت میں ہے وہ پانی حالم خبث نہیں ہے، اور امام الدارقطنی نے کہا متعدد لوگوں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے چلایس ڈول کو روایت کیا ہے اور بعض نے چالیس غربال (چھلنی، دف) کو روایت کیا ہے اور یہ اضطراب ضعف کو واجب کرتا ہے، اس لفظی اضطراب کے علاوہ اس کے معنی میں بھی اضطراب ہے، کیونکہ وہ پانی حامل خبث نہیں ہے اس کا یہ معنی بھی کیا گیا ہے کہ وہ پانی نجاست کو اٹھانے یا بردشات کرنے سے ضعیف ہے اس لئے پانی نجس ہوجائے گا، نیز قلہ کا لفظ ان معنوں میں مشرتک ہے، گھڑا، مشک اور پہاڑ کی چوٹی، نیز ابن جریج نے کہا ہے کہ یہ حدیث جب پانی دو قلہ کی مقدار ہو تو وہ حامل خبث نہیں ہے، منقطع ہے، کیونکہ اس کی سند مجہول ہے، اور امام ابن عدی نے حضرت ابن عمر سے ایک حدیث روایت کی جب پانی کی مقدار قلال ہجر سے دو قلہ ہو تو اس کو کوئی چیز نجس نہیں کرتی، اور اس کی مقدار دو فرق بیان کی گئی ہے اور ایک فرق آٹھ کلو گرام کا ہے۔ (مجمل اللغتہ) اور ابن جریج نے کہا قلال ہجر نو مشک کے برابر ہیں یا ڈھٹائی مشک کے برابر ہیں، یہ اس کا خلاصہ ہے جس کو امام ابن ھمام نے ذکر کیا ہے۔ (شرح النقایہ ج ١ ص ٤٦، مطبوعہ ایچ ۔ ایم ۔ سعید، کمپنی، کراچی)
جاری پانی کا طہور ہونا
ہم نے یہ بھی لکھا ہے کہ جو پانی جاری ہو وہ بھی طہور ہے سوا اس کے کہ اس کے رنگ، بو اور مزے میں (رح) سے کوئی ایک وصف تبدیل ہوجائے اس کی ایک دلیل یہ ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سمندر کے پانی کے متعلق فرمایا وہ طہور ہے اور دوسری دلیل یہ حدیث ہے :
حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا یا رسول اللہ ! آیا ہم بیربضاعہ سے وضو کرلیا کریں اور بیر بضاعہ وہ کنواں تھا جس میں حیض کے کپڑے، کتوں کا گوشت اور بدبو دار چیزیں ڈال دی جاتی تھیں، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پانی طہور ہے اس کو کوئی چیز نجس نہیں کرتی۔
(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٦٧-٦٦ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٦٦ سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٢٥ سنن للبیہقی ج ١ ص ٤٠٥ سنن الدار قطنی ج ١ ص ٣٠ مسند احمد ج ٣ ص ١٥)
یہ حدیث اس پر محمول ہے کہ بیر بضاعہ میں پانی جاری تھا اور وقوع نجاست سے جب تک اس میں نجاست کی بو اس کا رنگ یا اس کا مزہ نہ آجائے وہ پانی طہور ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 48