وَ لَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّ زَیَّنّٰهَا لِلنّٰظِرِیْنَۙ(۱۶)

اور بےشک ہم نے آسمان میں بُرج بنائے(ف۱۹) اور اسے دیکھنے والو ں کے لیے آراستہ کیا (ف۲۰)

(ف19)

جو کواکبِ سیارہ کے منازل ہیں وہ بارہ ہیں ، (۱) حمل (۲) ثور (۳) جوزا (۴) سرطان (۵) اسد (۶) سنبلہ (۷) میزان (۸) عقرب (۹) قوس (۱۰) جدی (۱۱) دلو (۱۲) حوت ۔

(ف20)

ستاروں سے ۔

وَ حَفِظْنٰهَا مِنْ كُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍۙ(۱۷)

اور اسے ہم نے ہر شیطان مردود سے محفوظ رکھا (ف۲۱)

(ف21)

حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا شیاطین آسمانوں میں داخل ہوتے تھے اور وہاں کی خبریں کاہنوں کے پاس لاتے تھے جب حضرت عیسٰی علیہ السلام پیدا ہوئے تو شیاطین تین آسمانوں سے روک دیئے گئے ۔ جب سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت ہوئی تو تمام آسمانوں سے منع کر دیئے گئے ۔

اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَهٗ شِهَابٌ مُّبِیْنٌ(۱۸)

مگر جو چوری چھپے سننے جائے تو اس کے پیچھے پڑتا ہے روشن شعلہ (ف۲۲)

(ف22)

شہاب اس ستارہ کو کہتے ہیں جو شعلہ کے مثل روشن ہوتا ہے اور فرشتے اس سے شیاطین کو مارتے ہیں ۔

وَ الْاَرْضَ مَدَدْنٰهَا وَ اَلْقَیْنَا فِیْهَا رَوَاسِیَ وَ اَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ(۱۹)

اور ہم نے زمین پھیلائی اور اس میں لنگر ڈالے (ف۲۳) اور اس میں ہر چیز اندازے سے اُگائی

(ف23)

پہاڑوں کے ۔ تاکہ ثابت و قائم رہے اور جنبش نہ کرے ۔

وَ جَعَلْنَا لَكُمْ فِیْهَا مَعَایِشَ وَ مَنْ لَّسْتُمْ لَهٗ بِرٰزِقِیْنَ(۲۰)

اور تمہارے لیے اس میں روزیاں کردیں (ف۲۴) اور وہ کردئیے جنہیں تم رزق نہیں دیتے (ف۲۵)

(ف24)

غلے ، پھل وغیرہ ۔

(ف25)

باندی ، غلام ، چوپائے او رخدام وغیرہ ۔

وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَآىٕنُهٗ٘-وَ مَا نُنَزِّلُهٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ(۲۱)

اور کوئی چیز نہیں جس کے ہمارے پاس خزانے نہ ہوں (ف۲۶) اور ہم اسے نہیں اتارتے مگر ایک معلوم اندازے سے

(ف26)

خزانے ہونا عبارت ہے اقتدار و اختیار سے ۔ معنی یہ ہیں کہ ہم ہر چیز کے پیدا کرنے پر قادرہیں جتنی چاہیں اور جو اندازہ مقتضائے حکمت ہو ۔

وَ اَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَاَسْقَیْنٰكُمُوْهُۚ-وَ مَاۤ اَنْتُمْ لَهٗ بِخٰزِنِیْنَ(۲۲)

اور ہم نے ہوائیں بھیجیں بادلوں کو بارور کرنے والیاں (ف۲۷) تو ہم نے آسمان سے پانی اتارا پھر وہ تمہیں پینے کو دیا اور تم کچھ اس کے خزانچی نہیں (ف۲۸)

(ف27)

جو آبادیوں کو پانی سے بھرتی اور سیراب کرتی ہیں ۔

(ف28)

کہ پانی تمہارے اختیار میں ہو باوجود یکہ تمہیں اس کی حاجت ہے ۔ اس میں اللہ تعالٰی کی قدرت اور بندوں کے عجز پر دلالتِ عظیمہ ہے ۔

وَ اِنَّا لَنَحْنُ نُحْیٖ وَ نُمِیْتُ وَ نَحْنُ الْوٰرِثُوْنَ(۲۳)

اور بےشک ہم ہی جِلائیں اور ہم ہی ماریں اور ہم ہی وارث ہیں (ف۲۹)

(ف29)

یعنی تمام خَلق فنا ہونے والی ہے اور ہم ہی باقی رہنے والے ہیں اور مدعیٔ مُلک کی مِلک ضائع ہو جائے گی اور سب مالکوں کا مالک باقی رہے گا ۔

وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنْكُمْ وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاْخِرِیْنَ(۲۴)

اور بےشک ہمیں معلوم ہیں جو تم میں آگے بڑھے اور بےشک ہمیں معلوم ہیں جو تم میں پیچھے رہے (ف۳۰)

(ف30)

یعنی پہلی اُمّتیں اور امّتِ محمّدیہ جو سب اُمّتوں میں پچھلی ہے یا وہ جو طاعت و خیر میں سبقت کرنے والے ہیں اور جو سُستی سے پیچھے رہ جانے والے ہیں یا وہ جو فضیلت حاصل کرنے کے لئے آگے بڑھنے والے ہیں اور جو عذر سے پیچھے رہ جانے والے ہیں ۔

شانِ نُزُول : حضرت ابنِ عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے مروی ہے کہ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جماعتِ نماز کی صفِ اول کے فضائل بیان فرمائے تو صحابہ صفِ اول حاصل کرنے میں نہایت کوشاں ہوئے اور ان کا ازدحام ہونے لگا اور جن حضرات کے مکان مسجد شریف سے دور تھے وہ اپنے مکان بیچ کر قریب مکان خریدنے پر آمادہ ہوگئے تاکہ صفِ اوّل میں جگہ ملنے سے کبھی محروم نہ ہوں ۔ اس پر یہ آیتِ کریمہ نازِل ہوئی اور انہیں تسلّی دی گئی کہ ثواب نیتوں پر ہے اور اللہ تعالٰی اگلوں کو بھی جانتا ہے اور جو عذر سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کوبھی جانتا ہے اور ان کی نیتوں سے بھی خبردار ہے اور اس پر کچھ مخفی نہیں ۔

وَ اِنَّ رَبَّكَ هُوَ یَحْشُرُهُمْؕ-اِنَّهٗ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ۠(۲۵)

اور بےشک تمہارا رب ہی انہیں قیامت میں اٹھائے گا (ف۳۱) بےشک وہی علم و حکمت والا ہے

(ف31)

جس حال پر وہ مرے ہوں گے ۔