أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنۡ نَّشَاۡ نُنَزِّلۡ عَلَيۡهِمۡ مِّنَ السَّمَآءِ اٰيَةً فَظَلَّتۡ اَعۡنَاقُهُمۡ لَهَا خٰضِعِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اگر ہم چاہتے تو ان کے اوپر آسمان سے ایسی نشانی نازل کردیتے جس سے ان کی گردنیں ہمیشہ جھکی رہتیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اگر ہم چاہتے تو ان کے اوپر آسمان سے ایسی نشانی نازل کردیتے جس سے ان کی گردنیں ہمیشہ جھکی رہتیں۔ (الشعرائ : ٤)

اختیاری ایمان اور اختیاری اطاعت کا مطلوب ہونا اور جبری ایمان اور جبری اطاعت کا نامطلوب ہونا 

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اللہ تعالیٰ کی توحید اور اپنی نبوت پر متعدد معجزات اور نشانیاں دکھائیں اور سب سے بڑا معجزہ قرآن مجید پیش کیا مگر انہوں نے ان نشانیوں کو قبول نہیں کیا اور فرمائشی معجزات طلب کرتے رہے مثلاً وہ کہتے تھے کہ آپ آسمان کو ہم پر ٹکڑے ٹکڑے کر کے گرا دیں یا اللہ تعالیٰ کو اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لا کھڑا کریں، یا آپ کا سونے کا کوئی گھر ہو یا آپ آسمان پر چڑھ جائیں ! اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا کہ اس قسم کی نشانیاں نازل کرنا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے باہر نہیں ہے، وہ چاہتا تو آسمان کے اوپر سے کوئی ایسی نشانی نازل کردیتا جس سے اضطراری طور پر ان کی گردنیں جھک جاتیں اور یہ جبراً مسلمان ہوجاتے لیکن ایسا کرنا اللہ تعالیٰ کی حکمت کے خلاف ہے۔ وہ فرماتا ہے :

(یونس : ٩٩) اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام روئے زمین کے لوگ سب ایمان لے آتے، کیا آپ لوگوں پر زبردستی کریں گے حتیٰ کہ وہ مئومن ہوجائیں !

لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسا نہیں چاہا کیونکہ اس قسم کا جبری ایمان اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کی مصلحت کے خلاف ہے، پھر اللہ کو کیا ضرورت ہے کہ وہ لوگوں کو جبراً مومن بنائے وہ انہیں ابتداء مومن پیدا کرسکتا ہے وہ چاہتا تو لوگوں کو فرشتوں کی طرح بنا دیتا ان میں اختیار اور ارادہ نہ رکھتا وہ اضطراری طور پر اس کی عبادت کرتے رہتے لیکن وہ چاہتا تھا ایک ایسی مخلوق بنائے جس میں خیر اور شر کی دونوں قوتیں ہوں، اس لئے اس نے ہدات دینے کے لئے نبی پیدا کئے اور گمراہ کرنے کے لئے شیطان کو پیدا کیا اور انسان کے اندر بھی دو قوتیں رکھ دیں ایک وہ قوت ہے جو اس کو نیکی کی طرف ابھاتری ہے اور ایک وہ طاقت ہے جو اس کو برائی کی طرف ابھاتری ہے۔ پھر دنیا میں ایسی چیزیں پیدا کیں جن میں سے بعض نیکی کی اور بعض برائی کی ترغیب دیتی ہیں اور انسان کو عقل اور شعور دے دیا، اور اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید پر دلالت کرنے والی نشانیاں رکھ دیں اور خود انسان کے اندر بھی اس کی ذات کی معرفت کی نشانیاں پیدا کردیں، اور ان نشانیوں کی طرف متوجہ کرنے کے لئے انبیاء علہیم السلام کو بھیجا اور علماء ربانبین کو پیدا کیا اور انسان کو اختیار اور ارادہ دیا تاکہ وہ اپنے اتخیار اور ارادہ سے نبی کی ہدیات کو قبول کرے اور علماء ربانبین کی رہنمائی سے اسلام کو قبول کرے یا اس کائنات کی نشانیوں سے یا خود اپنی ذات سے اللہ تعالیٰ کو پہچانے اور اس کا عرفان حاصل کرے، اور قبول حق کے راستہ سے منحرف کرنے کے لئے جو شیطانی قوتیں اس کو گمراہ کرنے کی کوشش کریں اور عبادت و ریاضت سے روکنے لئے دنیاوی لذتوں اور شہوتوں کی ترغیبات سامنے آئیں ان سب کو آہنی ارادہ سے رد کر دے اور اپنے اختیار اور پختہ عزم سے ایمان پر قائم رہے اور اعمال صالحہ پر جما رہے، سو ایسا ایمان اور ایسے اعمال صالحہ اس کو مطلوب ہیں ان ہی پر انعام و اکرام عطا کرنے کے لئے اس نے جنت بنائی ہے اور ان سے اعراض اور ان کا انکار کرنے والوں کے لئے اس نے دوزخ بنائی ہے یعنی اختیاری اطاعت یا اختیاری معصیت کے لئے اس نے جزاء اور سزا کا سلسلہ قائم کیا ہے، ورنہ جبری اطاعت پر کسی انعام کی ضرورت تھی نہ کسی سزا کی۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 4