وَالَّذِيۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ يُسۡرِفُوۡا وَلَمۡ يَقۡتُرُوۡا وَكَانَ بَيۡنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ۞- سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 67
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَالَّذِيۡنَ اِذَاۤ اَنۡفَقُوۡا لَمۡ يُسۡرِفُوۡا وَلَمۡ يَقۡتُرُوۡا وَكَانَ بَيۡنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ۞
ترجمہ:
اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ وہ فضول خرچ کرتے ہیں اور نہ بخل کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا میانہ روی پر ہوتا ہے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو وہ نہ فضول خرچ کرتے ہیں اور نہ بخل کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا میانہ روی پر ہوتا ہے۔ (الفرقان : ٦٧ )
اسراف کا معنی
علامہ راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :
ہر وہ کام جس میں انسان حد سے تجاوز کرے اسراف ہے، اگرچہ اس کا مشہور اطلاق حد سے زیادہ خرچ کرنے پر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
ولا تاکلوھآ اسرافاً وبداراً (النسائ : ٦) اور یتمیوں کے مال کو جلد جلد اور فضول کرنے پر ہوتا ہے
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
(النسائ : ٦) اور یتیموں کے مال کو جلد جلد اور فضول خرچ کر کے ہڑپ نہ کرو۔
کبھی مقدار کے لحاظ سے زیادہ خرچ کرنے کو اسراف کہتے ہیں اور کبھی کیفیت کے لحاظ سے خرچ کرنے کو اسراف کہتے ہیں اسی لئے سفیان نے کہا اگر تم اللہ کی معصیت میں بہت کم بھی خرچ کرو تو وہ اسراف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
(الانعام : ١٤١) (جب درخت پھل دیں) تو ان کے پھلوں سے کھائو اور ان پھلوں میں فقراء کا جو حق واجب ہے (عشر) وہ ان کی کٹائی کے دن دیا کرو، اور حد سے تجاوز نہ کرو، بیشک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو ناپسند فرماتا ہے۔
اس آیت کا معنی ہے صدقہ و خیرات کرنے اور عشر ادا کرنے میں بھی حد سے تجاوز مت کرو، ایسا نہ ہو کہ آج تم حد سے زیادہ مال صدقہ کردو اور کل تم خود ضرور مند ہو جائو، اس کا تعلق حکام سے بھی ہوسکتا ہے کہ وہ بھی صدقات کی وصول یابی میں حد سے تجاوز نہ کریں، اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کھانے پینے میں حد سے تجاوز نہ کرو، کیونکہ بسیار خوری انسان کی صحت کے لئے بہت مضر ہے اور بہت سی بیماریوں کی موجب ہے جن میں بہت نمایاں بدہضمی ہے اور شوگر، بلڈ پریشر، السر اور یرقان، پیلیا بسیار خوری کے دیرپا اثرات ہیں۔ غرض اسراف کسی چیز میں بھی پسند یدہ نہیں ہے۔ اپنے اوپر خرچ کرنے میں دوسروں پر خرچ کرنے میں اور نہ کھانے پینے میں۔ قوم لوط کو بھی مسرفین فرمایا کیونکہ وہ عورت کے اندام نہانی سے تجاوز کر کے مردں کی پشت میں دخول کرتے تھے اور بےریش لڑکوں سے ہم جنس پرستی کرتے تھے اور یہ عمل خواہ ایک بار بھی کیا جائے تو یہ اسراف ہے، میں دخول کرتے تھے اور بےریش لڑکوں سے ہم جنس پرستی کرتے تھے اور یہ عمل خواہ ایک بار کیا جائے تو یہ اسراف ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرشتوں سے کہا تمہارے آنے کا کیا مقصد ہے انہوں نے کہا ہم گنہگار قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ یعنی قوم لوط کی طرف :
(الذریت : ٣٤-٣٣) تاکہ ہم ان پر مٹی کے کنکر برسائیں جو آپ کے رب کی طرف سے مسرفین کے لئے نشان زدہ ہیں۔
اسی طرح قصاص لینے میں بھی اسراف سے منع فرمایا :
فلایسرف فی القتل (بنی اسرائیل : ٣٣) بہ طور قصاص قتل کرنے میں اسراف نہ کیا جائے یعنی قصاص میں حد سے تجاوز نہ کیا جائے اور قاتل کے بجائے کسی اور کو قتل نہ کیا جائے جیسے زمانہ جاہلیت میں قاتل کے بجائے اس کے قبیلہ کے زیادہ معزز آدمی کو قتل کردیا جاتا تھا۔
خلاصیہ یہ ہے کہ کسی بھی معاملہ میں حد سے تجاوز کرنا اسراف ہے۔ (المفردات ج ١ ص ٣٠٤، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ )
اقتار کا معنی
علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :
القتر کا معنی ہے خرچ میں کمی کرنا اور یہ اسراف کا مقابل ہے اور یہ دونوں مذموم ہیں، قرآن مجید میں ہے :
(الفرقان : ٦٧) اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچ کرتے ہیں اور نہ بخل کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا میانہ روی پر ہوتا ہے۔
وکان الانسان قتوراً ۔ (بنی اسرائیل : ١٠٠) اور انسان فطرۃ تنگ دل ہے۔
یعنی انسان کی جبلت میں بخل ہے۔ طلاق دینے کے بعد مطلقہ کو متاع میں جو کپڑے دیے جاتے ہیں ان کے متعلق فرمایا :
(البقرہ : ٢٣٦) مطلقہ عورتوں کو متاع دو خوشحال شخص اپنے اندازے سے اور تنگ دست شخص اپنی حیثیت کے مطابق۔
قتر کے اصل معنی ہیں کسی جلی ہوئی لکڑی کا اٹھتا ہوا دھواں۔ کنجوس شخص بھی کسی شخص کو اصل چیز دینے کے بجائے اس کا دھواں دے کر اس کو ٹالنا چاہتا ہے۔ قترۃ کا منی ہے دھوئیں کی طرح غبار نما بدرونقی جو چہرے پر چھا جاتی ہے، قرآن مجید میں ہے۔
(عبس : ٤١-٤٠) اور بہت سے چہرے اس دن غبار آلود ہوں گے۔ جن پر دھوئیں کے مشابہ سیاہی چڑھی ہوئی ہوگی۔ (المفردات ج ٢ ص ٥٠٨ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)
ان لوگوں کا مصداق جو فضول خرچ اور بخل نہیں کرتے تھے
خلاصہ یہ ہے کہ جس جگہ خرچ کرنا ممنوع ہو وہاں خرچ کرنا اسراف ہے اور جس جگہ خرچ کرنے کا حکم ہے وہاں خرچ نہ کرنا قتر اور بخل ہے، اور جس جگہ جتنا خرچ کرنے کا حکم ہے وہاں اتنا خرچ کرنا میانہ روی ہے۔
امام عبدالرحمان بن علی بن محمد جوزی متوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں، اسراف اور اقتار کے دو معنی ہیں :
(١) خرچ کرنے میں حد سے تجاوز کرنا اسراف ہے، اور جتنا خرچ کرنا ضروری ہو اتنا بھی خرچ نہ کرنا اقتار ہے۔ حضرت عمر بن الخطاب نے فرمایا کسی آدمی کے اسراف کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ ہر وہ چیز کھالے جس کو کھانے کے لئے اس کا دل چاہے۔
(٢) اللہ کی معصیت میں خرچ کرنا خواہ قلیل ہو وہ اسراف ہے اور اللہ کے حق کو ادا کرنے سے منع کرنا اقتار ہے۔ یہ حضرت ابن عباس (رض) مجاہد قتادہ اور ابن جریج وغیرھم کا قول ہے۔ (زاد المسیرج ٦ ص ١٠٣، ١٠٢ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت، ١٤٢٠٧ ھ)
یزید بن ابی حبیب نے کہا اس آیت کے مصداق سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں جو حصول لذت کے لئے کھانا نہیں کھاتے تھے اور نہ حصول جمال کے لئے لباس پہنتے تھے بلکہ وہ صرف اتنی مقدار میں کھانا کھاتے تھے جس سے ان کی بھوک دور ہوجائے اور جس کھانے سے ان کو اتنی توانائی حاصل ہوجائے جس سے وہ اپنے رب کی عبادت کرسکیں، اور وہ اتنے کپڑے پہنتے تھے جس سے ان کی شرم گاہ چھپ جائے اور وہ لباس ان کو سردی اور گرمی سے بچا سکے۔ (معالم التنزیل ج ٣ ص ٤٥٦ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢٠ ھ)
اسلام میں اچھے کھانوں اور اچھے لباس پر پابندی نہیں ہے
صحابہ کرام کا یہ عمل ان کے زہد اور تقویٰ کی وجہ سے تھا، یا یہ اس دور کی بات ہے جب مسلمانوں پر تنگ دستی کا دور تھا لیکن جب فتوحات کی کثرت کی وجہ سے مسلمانوں پر خوش حالی کا دور آیا تو وہ کھانے پینے کی چیزوں میں اور لباس میں عمدہ اور اچھی چیزوں کو اختیار کرتے تھے اور اسلام میں اس کی ممانعت نہیں ہے اور ہر شخص کے لئے یہ جائز ہے کہ ہو اپنی آمدنی کے لححاظ سے میانہ روی برقرار رکھتے ہوئے کشادگی اور فراخی کے ساتھ زندگی گزارے۔
ابراہیم بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف (رض) کے پاس کھانا لایا گیا وہ روزے سے تھے، انہوں نے کہا حضرت مصعب بن عمیر شہید ہوگئے اور وہ مجھ سے افضل تھے، ان کو صرف ایک چادر میں کفنا دیا گیا جس سے ان کا سر ڈھانپا جاتا تو ان کے پیر کھل جاتے تھے اور اگر ان کے پیر ڈھانپے جاتے تو ان کا سر کھل جاتا تھا اور حضتر حزہ شہید ہوگئے اور وہ مجھ سے افضل تھے، پھر ہمارے لئے دنیا اتنی کشادہ کردی گئی جتنی کشادہ کردی گئی اور دنیا سے ہمیں اتنا کچھ دیا گیا جو دیا گیا اور مجھے یہ خدشہ ہے کہ ہمیں ہماری نیکیاں دنیا میں ہی ملگئی ہیں پھر وہ رونے لگے حتیٰ کہ کھانا ترک کردیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٢٧٥ مطبوعہ دار ارقم، بیروت)
اس حدیث سے یہ معلوم ہوگیا کہ صحابہ کرام پر ابتداء اسلام میں تنگ دستی کا دور تھا بعد میں فتوحات کی کثرت اور مال غنیمت کی بہتات سے اللہ تعالیٰ نے انہیں غنی کردیا تھا اور وہ کشادگی سے زندگی گزارتے تھے اور اسلام میں کشادگی سے زندگی گزارنا ممنوع نہیں ہے۔ جی اس کہ ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے :
(الطلاق : ٧) کشادگی والے کو اپنی کشادگی سے خرچ کرنا چاہیے اور جس پر اس کے رزق میں تنگی کی گئی ہو اسے چاہیے کہ جو کچھ اللہ نے اسے دیا ہے وہ اسی میں سے حسب حیثیت خرچ کرے۔
(البقرہ : ٢٣٦) اور مطلقہ عورتوں کو متاع میں کپڑے دو ، فراخ دست اپنی حیثیت کے مطابق اور تنگ دست اپنی گنجائش کے مطابق، دستور اور رواج کے اعتبار سے۔
ان آیتوں میں امیر لوگوں کو فراخی کے ساتھ کھانے اور کپڑوں میں خرچ کرنے کی تلقین کی گئی ہے اور اچھے کپڑے پہننے اور اچھے جوتے پہننے کی اسلام میں اجازت ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص کے دل میں ایک ذرہ کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا، ایک شخص نے کہا ایک آدمی یہ چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے خوبصورت ہوں اور اس کے جوتے عمدہ ہوں آپ نے فرمایا اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے، تکبر حق بات کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩١، (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٩٩٩، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٠٩١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٥٩ )
ابوالاحوص اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گھٹیا کپڑے پہنے ہوئے گئے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا کیا تمہارے پاس مال ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں ! میرے پاس ہر قسم کا مال ہے، آپ نے پوچھا کس قسم کا مال ہے ؟ انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ نے مجھے اونٹ دیے ہیں اور بکریاں اور گھوڑے اور غلام، آپ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں مال دیا تو اللہ تعالیٰ کی نعمت اور کرامت کا اثر تم پر نظر آنا چاہیے۔
(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٦٥، مسند احمد رقم الحدیث : ٧٢٥٠ عالم الکتب بیروت)
میانہ روی کی اسلام میں تاکید
قرآن مجید کی ان آیات اور ان احادیث سے یہ واضح ہوگیا کہ جس آدمی کو اللہ تعالیٰ نے مال و دلوت کی نعمت عطا کی ہے اس کے کھانے پینے، لباس اور رہن سہن میں وہ نعمت نظر آنی چاہیے اور تو نگری کے باوجود فقیروں اور تنگ دستوں کی طرح رہنا اسلام میں میں مطلوب اور پسندیدہ نہیں ہے، البتہ اپنی چادر سے زیادہ پیر پھیلانا اور قرض لے کر امارت جتانا، اور شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں بےجا خرچ کرنا اور نمود و نمائش کرنا یہ اسلام میں ممنوع ہے۔ اس لئے نہ قرض لے کر اللے تللے کئے جائیں اور نہ مال و دولت کے باوجود تنگ دستی سے زندگی گزاری جائے اور بلا وجہ تفشف کیا جائے بلکہ اقتصاد اور میانہ روی سے زندگی گزاری جائے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے میانہ روی سے کام لیا وہ تنگ دست نہیں ہوگا۔
(مسند احمد رقم الدیث : ٤٢٦٩ دارالفکر المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٠١١٨ الفتح الربانی ج ١٩ ص ١٨ دار احیاء التراث العربی بیروت)
حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا دولت مندی میں میانہ روی کتنی اچھی ہے اور تنگ دستی میں میانہ روی کتنی اچھی ہے اور عبادت میں میانہ روی کتنی اچھی ہے۔ (مسند البزار رقم الحدیث : ٣٦٠٤ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٧٨٥٠)
حضرت طلحہ بن عبید اللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے ساتھ مکہ میں گئے، آپ روزے سے تھے اور آپ کو روزہ سخت لگ رہا تھا ہم نے آپ کے لئے اونٹنی سے دودھ دوہا اور اس میں شہد ملایا اور افطار کے وقت آپ کو پیش کیا آپ نے فرمایا : اللہ تم کو عزت دے جس طرح تم نے میری عزت کی ہے یا کوئی اور دعا ی، پھر فرمایا : جس نے میانہ روی رکھی اللہ اس کو غنی کر دے گا، اور جس نے فضول خرچ کیا اللہ اس کو تنگ دست کر دے گا اور جس نے توضع کی اللہ اس کو سربلند کر دے گا اور جس نے تکبر کیا اللہ اس کو ہلاک کر دے گا۔ (مسند البزار رقم الحدیث : ٣٦٠٥ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٧٨٥١ )
خوش حال لوگوں کے لئے اچھا کھانا اور اچھا پہننا جائز ہے لیکن ان پر لازم ہے کہ وہ اس میں غرباء کا بھی خیال رکھیں اور اپنے طعام اور لباس میں سے اتنی مقدار غرباء کے لئے ضرور نکالیں جتنی نسبت سے زکوۃ نکالی جاتی ہے اور جب وہ اپنے کپڑوں اور دیگر اشیاء میں سے غریبوں کو دیتے رہیں گے تو امید ہے کہ کھانے اور پہننے کی کشادگی اور فراخ دستی میں ان سے مواخذہ نہیں ہوگا۔
امام ابو القاسم عبدالکریم بن ھوازن قشیری متوفی ٤٦٥ ھ لکھتے ہیں :
اسراف یہ ہے کہ تم اپنی خواہش پوری کرنے میں اور فنس کا حصہ ادا کرنے میں خرچ کرو اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے جتنا بھی خرچ کرو اس میں اسراف نہیں ہے اور اقتاریہ یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے لئے خرچ کرنے کے بجائے جمع کر کے رکھو اور نفس کی خواہشات کا گھلا گھوکنٹنے کے لئے اور اتباع شہوات کو کلچنے کے لئے خرچ کرنے پر جو اپنے نفس پر پابندی لگائی جائے وہ اقتار نہیں ہے۔ (لطائف الاشارات ج ٢ ص ٣٩٣ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٢٠ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 67