أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالَّذِيۡنَ يَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اصۡرِفۡ عَنَّا عَذَابَ جَهَـنَّمَ ‌ۖ اِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا ۞

ترجمہ:

اور وہ لوگ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ! ہم سے دوزخ کے عذاب کو پھیر دے، بیشک دوزخ کا عذاب چمٹنے والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور وہ لوگ جو کہتے ہیں اے ہمارے رب ! ہم سے دوزخ کے عذاب کو پھیر دے بیشک دوزخ کا عذات چمٹنے والا ہے۔ بیشک وہ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بری جگہ ہے۔ (الفرقان ٦٦-٦٥ )

غراماً کا معنی 

یعنی وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے کے باوجود اللہ عزوجل کے عذاب سے ڈرتے ہوں گے اور اپنے سجدوں میں اور اپنے قیام میں یہ دعا کریں گے کہ ہمارے رب ہم سے دوزخ کا عذاب پھیر دے، بیشک دوزخ کا عذاب چمٹنے والا ہے۔

اس آیت میں دوزخ کے عذاب کو غرام فرمایا ہے۔ غرام کے معنی ہیں شدت اور سختی سے مطالبہ کرنا، قرض خواہ اور قرض دار دونوں کو عغریم کہتے ہیں، دوزخ کے عذاب کو غرام فرمایا کیونکہ وہ عذاب مجرموں کے ساتھ لازم اور دائم رہے گا اور ان سے بالکل جدا نہیں ہوگا۔ قرض خواہ کو بھی اس لئے غریم کہتے ہیں کہ وہ مقروض سے چمٹا رہتا ہے اور ہر وقت اپنے قرض کا مطالبہ کرتا رہتا ہے۔ حس نے کہا ہر قرض خواہ اپنے مقروض سے جدا ہوجاتا ہے سوا جہنم کے غریم کے، زجاج نے کہا غرام کا معنی ہے بہت شدید عذاب، ابن زید نے کہا الغرام کا معنی ہے شر۔ ابو عبیدہ نے کہا الغرام کا معنی ہے ہلاکت، محمد بن مکعب نے کہا اللہ تعالیٰ نے ان کو دنیا میں جو نعمتیں دی تھیں قیامت کے دن ان سے ان نعمتوں کی قیمت طلب کرے گا جس کو وہ ادا نہیں کرسکیں گے پھر ان نعمتوں کے عوض ان کو دوزخ میں داخل فرما دے گا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 65