أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَهُوَ الَّذِىۡ جَعَلَ الَّيۡلَ وَالنَّهَارَ خِلۡفَةً لِّمَنۡ اَرَادَ اَنۡ يَّذَّكَّرَ اَوۡ اَرَادَ شُكُوۡرًا ۞

ترجمہ:

اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دوسرے کے پیچھے آنے والا بنایا یہ اس کے لئے ہے جو نصیحت حاصل کرنے یا شکر ادا کرنے کا ارادہ کرے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو ایک دور سے کے پیچھے آنے والا بنیا، یہ اس کے لئے ہے جو نصیحت حاصل کرنے یا شکر ادا کرنے کا ارادہ کرے۔ (الفرقان : ٦٢ )

رات کی کوئی عبادت قضا ہوجائے تو اس کو دن میں ادا کرلیا جائے اسی طرح بالعکس 

خلفۃ کا ایک معنی ہے ایک دوسرے کے خلاف، یعنی دن کو روشن اور سفید بنایا اور رات کو تاریک اور سیاہ بنایا اور خلفتہ کا دوسرا معنی ہے کسی کے بعد ان والی چیز، سو رات اور دن میں سے ہر ایک دور سے کے بعد آنے والا ہے۔

فرمایا یہ اس کے لئے ہے جو نصیحت حاصل کرنے یا شکر ادا کرنے کا ارادہ کرے۔ یعنی جو شخص رات اور دن کے تعاقب اور توارد میں غور و فکر کرے کہ اللہ تعالیٰ نے دن اور رات کا آنے کا یہ سلسلہ فضول اور بعث نہیں بنایا اور وہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی چیزوں میں غور و فکر کیر اور ان نعمتوں کا شکر ادا کرے بایں طور کہ دن کے وقت میں جائز اور حلال طریقوں سے کسب معاش کرے اور اپنی اور اپنے اہل و عیال کی روزی کا اتنظام کرے، اور دن اور رات کے اوقات میں اللہ تعالیٰ نے اس پر جو نمازیں فرض کی ہیں اور ان کے علاوہ جن عبادتوں کا مکلف کیا ہے ان کو ادا کرے۔

خلفۃ کا ایک معنی بدل بھی ہے یعنی رات اور دن میں سے ہر ایک کو دوسرے کا بدل بنایا ہے، یعنی رات کو وہ جو عبادت کرتا ہے اگر وہ کسی وجہ سے رہ گئی اس کو دن میں ادا کرے اور دن میں جو عبادت کرتا ہے وہ کسی وجہ سے رہ گئی تو اس کو رات میں ادا کرے۔

حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اپنے رات کے معمول کے وظیفہ کو پڑھے بغیر سو گیا یا کسی اور معمول کی عبادت کو ادا کئے بغیر سو گیا وہ اس کو فجر اور ظہر کے درمیان پڑھ لے یا ادا کرے تو اس کے لئے لکھا جائے گا کہ اس نے رات میں ہی اس کو پڑھا ہے۔

(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٤٧، (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٣١٣ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٥٨١ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٧٨٩ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٤٣ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١٤٦٢ )

اللہ تعالیٰ نے انسان کو حیات اور علم کی نعمت عطا فرمائی ہے اور اس میں نیند اور بھوک و پیاس کی افٓت رکھی، سو اس شخص پر بڑا افسوس ہے جس نے اپنی ساری زندگی یا زندگی کا بیشتر حصہ سونے کھانے پینے اور جماع کی فانی لذتوں میں بسر کردیا اور ان فانی لذتوں کو کم کر کے رات اور دن کے کچھ اوقات کو عبادت کی باقی رہنے والی لذتوں میں صرف نہیں کیا، رات کی نیند کو ترک کر کے اس وقت کو اللہ تعالیٰ کی یاد میں اور اس وقت نماز میں قیام کرنے پر صرف کرنے کی بڑی فضیلت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ارشاد فرماتا ہے :

قرآن اور حدیث سے رات کو اٹھ کر عبادت کرنے کی فضیلت 

(الذریت :15-18) بےشکل متقی لوگ جنتوں اور چمشوں میں ہوں گے۔ وہ ان نعمتوں کو لے رہے ہوں گے جو ان کے رب نے انہیں عطا فرمائی ہیں۔ وہ اس سے پہلے (دنیا میں) نیکی کرنے والے تھے۔ وہ رات کو بہت کم سویا کرتے تھے۔ اور رات کے آخری حصہ میں بہ وقت سحر استغافر کیا کرتے تھے۔ 

ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ نیک مسلمانوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :

(السجدہ : ١٦) ان کی کروٹیں ان کے بستروں سے الگ رہتی ہیں، وہ اپنے رب کی خوف اور امید کے ساتھ عبادت کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے وہ (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔

حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک سفر میں تھا، میں سفر کرتے ہوئے آپ کے بہت قریب ہوگیا۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجھے ایسا عمل بتایئے جو مجھے جنت میں داخل کر دے اور مجھ کو دوزخ سے دور کر دے آپ نے فرمایا تم نے مجھ سے بہت عظیم چیز کے متعق سوال کیا ہے اور یہ چسیز اسی پر آسان ہوگی جس کے لئے اللہ اس کو آسان کر دے گا، تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائو، اور نماز قائم رکھو اور زککوۃ ادا کرتے رہو، اور رمضان کے روزے رکھو اور بیت اللہ کا حج کرو، پھر فرمایا : کیا میں تم کو خیر کے دروازوں کی رہنمائی نہ کروں ؟ روزہ ڈھال ہے اور صدقہ اس طرح گناہوں کو مٹا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے اور آدھی رات کو اٹھ کر آدمی کا نماز پڑھنا، پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : تتجا فی جنوبہم عن المضاجع (السجدۃ : ١٦) پھر فرمایا کیا میں تم کو تمام کاموں کے سردار اور ستون اور ان کے بلند کوہان کی خبر نہ دوں ! میں نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا تمام کاموں کا سردار اسلام ہے، اور اس کا ستون نماز ہے اور اس کے کوہان کی بلندی جہاد ہے، پھر فرمایا کیا میں تم کو اس چیز کی خبر نہ دوں جس پر ان تمام چیزوں کا دار وم دار ہے ؟ میں نے عرض کیا : کیوں نہیں یا نبی اللہ ! آپ نے اپنی زبان کو پکڑ کر فرمایا اس کو قابو میں رکھو، میں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی ! ہم جو کچھ باتیں کرتے ہیں کیا ان پر ہماری گرفت کی جائے گی ؟ آپ نے فرمایا : اے معاذ ! تم پر تمہاری ماں روئے ! جو چیز لوگوں کو دوزخ میں منہ کے بل یا نتھنوں کے بل گرائے گی وہ ان کی زبانوں کی کاٹی ہوئی فصل ہی تو ہ۔

(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٦١٦ : مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٢٠٣٠٣ مکتب اسلامی، مسند احمد ج ٥ ص ٢٣١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٩٧٣ المعجم الکبیرج ٢٠ ص ٢٦٦ )

ہم نے اس حدیث کو اس لئے ذکر کیا ہے کہ اس میں یہ تصریح ہے کہ آدھی رات کو اٹھ کر عبادت کرنا دوزخ کی آگ سے ٹھنڈی ہونے کا سبب ہے اور رات کو اٹھ کر عبادت کرنے کی فضیلت میں یہ حدیث بھی ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب رات کا پہلا تہائی حصہ گزر جاتا ہے تو ہر رات اللہ تبارک و تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف (اپنی شان کے مطابق) نازل ہوتا ہے اور فرماتا ہے میں بادشاہوں، کوئی ہے جو مجھ سے دعا کرے اور میں اس کی دعا کو قبول کروں، کوئی ہے جو مجھ سے سوال کیر اور میں اس کو عطا کروں ! کوئی ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے اور میں اس کو بخش دوں، پھر اللہ تعالیٰ یونہی صدا لگاتا رہتا ہے حتیٰ کہ فجر روشن ہوجاتی ہے۔

(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٤٤٦، صحیح البخاری رقم الحدیث : ١١٤٥ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٥٨ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٣١٤ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٣٦٦ مسند احم ج ٢ ص ٢٨٢)

امام ابوالقاسم قشیری المتوفی ٤٦٥ ھ نے لکھا ہے کہ تمام اوقات ایک جنس کے باب ہیں اور بعض اوقات کو دور سے بعض پر اس اعتبار سے فضیلت ہے کہ بعض اوقات میں عبادت کرنا زیادہ افضل ہے اور اس میں زیادہ ثواب ہوتا ہے۔ (لاطئف الاشارات ج ٢ ص ٣٩٢، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٢٠ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 62