وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍۚ(۲۶)

اور بےشک ہم نے آدمی کو (ف۳۲)بَجتی ہوئی مٹی سے بنایا جو اصل میں ایک سیاہ بودار گارا تھی (ف۳۳)

(ف32)

یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو سوکھی ۔

(ف33)

اللہ تعالٰی نے جب حضرت آدم علیہ السلام کے پیدا کرنے کا ارادہ فرمایا تو زمین سے ایک مشتِ خاک لی ، اس کو پانی میں خمیر کیا جب وہ گارا سیاہ ہوگیا اور اس میں بو پیدا ہوئی تو اس میں صورتِ انسانی بنائی پھر وہ سوکھ کر خشک ہوگیا تو جب ہوا اس میں جاتی تو وہ بجتا اور اس میں آواز پیدا ہوتی ، جب آفتاب کی تمازت سے وہ پختہ ہوگیا تو اس میں روح پھونکی اور وہ انسان ہوگیا ۔

وَ الْجَآنَّ خَلَقْنٰهُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ(۲۷)

اور جِنّ کو اس سے پہلے بنایا بے دھوئیں کی آگ سے (ف۳۴)

(ف34)

جو اپنی حرارت و لطافت سے مساموں میں نفوذ کر جاتی ہے ۔

وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ خَالِقٌۢ بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(۲۸)

اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں آدمی کو بنانے والا ہوں بجتی مٹی سے جو بدبودار سیاہ گارے سے ہے

فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(۲۹)

تو جب میں اسے ٹھیک کرلوں اوراس میں اپنی طرف کی خاص معزّز روح پھونک لوں (ف۳۵)

(ف35)

اور اس کو حیات عطا فرما دوں ۔

فَسَجَدَ الْمَلٰٓىٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَۙ(۳۰)

تو اس(ف۳۶) کے لیے سجدے میں گر پڑنا تو جتنے فرشتے تھے سب کے سب سجدے میں گرے

(ف36)

کی تحیّت و تعظیم ۔

اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ(۳۱)

سوا ابلیس کے اس نے سجدہ والوں کا ساتھ نہ مانا(ف۳۷)

(ف37)

اور حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کیا تو اللہ تعالٰی نے ۔

قَالَ یٰۤاِبْلِیْسُ مَا لَكَ اَلَّا تَكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ(۳۲)

فرمایا اے ابلیس تجھے کیا ہوا کہ سجدہ کرنے والوں سے الگ رہا

قَالَ لَمْ اَكُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(۳۳)

بولا مجھے زیبا نہیں کہ بَشر کو سجدہ کروں جسے تو نے بَجتی مٹی سے بنایا جو سیاہ بودار گارے سے تھی

قَالَ فَاخْرُ جْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۙ(۳۴)

فرمایا تو جنّت سے نکل جا کہ تو مردود ہے

وَّ اِنَّ عَلَیْكَ اللَّعْنَةَ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(۳۵)

اور بےشک قیامت تک تجھ پر لعنت ہے (ف۳۸)

(ف38)

کہ آسمان و زمین و الے تجھ پر لعنت کریں گے اور جب قیامت کا دن آئے گا تو اس لعنت کے ساتھ ہمیشگی کے عذاب میں گرفتار کیا جائے گا ، جس سے کبھی رہائی نہ ہوگی یہ سُن کر شیطان ۔

قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْۤ اِلٰى یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(۳۶)

بولا اے میرے رب تو مجھے مہلت دے اس دن تک کہ وہ اٹھائے جائیں (ف۳۹)

(ف39)

یعنی قیامت کے دن تک ۔ اس سے شیطان کا مطلب یہ تھا کہ وہ کبھی نہ مرے کیونکہ قیامت کے بعد کوئی نہ مرے گا اور قیامت تک کی اس نے مہلت مانگ ہی لی لیکن اس کی اس دعا کو اللہ تعالٰی نے اس طرح قبول کیا کہ ۔

قَالَ فَاِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَۙ(۳۷)

فرمایا تو ان میں ہے جن کو

اِلٰى یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ(۳۸)

اس معلوم وقت کے دن تک مہلت ہے (ف۴۰)

(ف40)

جس میں تمام خَلق مر جائے گی اور وہ نفخۂ اُولٰی ہے تو شیطان کے مردہ رہنے کی مدّت نفخۂ اُولیٰ ہے ، نفخۂ ثانیہ تک چالیس برس ہے اور اس کو اس قدر مہلت دینا اس کے اکرام کے لئے نہیں بلکہ اس کی بلا و شقاوت اور عذاب کی زیادتی کے لئے ہے ، یہ سن کر شیطان ۔

قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ(۳۹)

بولا اے رب میرے قسم اس کی کہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں انہیں زمین میں بِھلاوے دوں گا (ف۴۱) اور ضرور میں ان سب کو (ف۴۲) بے راہ کردوں گا

(ف41)

یعنی دنیا میں گناہوں کی رغبت دلاؤں گا ۔

(ف42)

دلوں میں وسوسہ ڈال کر ۔

اِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَ(۴۰)

مگر جو ان میں تیرے چنے ہوئے بندے ہیں (ف۴۳)

(ف43)

جنہیں تو نے اپنی توحید و عبادت کے لئے برگزیدہ فرما لیا ان پر شیطان کا وسوسہ اور اس کا کید نہ چلے گا ۔

قَالَ هٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ(۴۱)

فرمایا یہ راستہ سیدھا میری طرف آتا ہے

اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَكَ عَلَیْهِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغٰوِیْنَ(۴۲)

بےشک میرے (ف۴۴) بندوں پر تیرا کچھ قابو نہیں سوا ان گمراہوں کے جو تیرا ساتھ دیں(ف۴۵)

(ف44)

ایماندار ۔

(ف45)

یعنی جو کافِر کہ تیرے مطیع و فرمانبردار ہوجائیں اور تیرے اِتِّباع کا قصد کر لیں ۔

وَ اِنَّ جَهَنَّمَ لَمَوْعِدُهُمْ اَجْمَعِیْنَ۫ۙ(۴۳)

اور بےشک جہنم ان سب کا وعدہ ہے (ف۴۶)

(ف46)

ابلیس کا بھی اور اس کے اِتِّباع کرنے والوں کا بھی ۔

لَهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍؕ-لِكُلِّ بَابٍ مِّنْهُمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ۠(۴۴)

اس کے سات دروازے ہیں (ف۴۷) ہر دروازے کے لیے ان میں سے ایک حصہ بٹا ہوا ہے (ف۴۸)

(ف47)

یعنی سات طبقے ۔ ابنِ جریج کا قول ہے کہ دوزخ کے سات درکات ہیں ۔اول جہنّم ، لظٰی ، حطمہ ، سعیر ، سقر ، جحیم ، ہاویہ ۔

(ف48)

یعنی شیطان کی پیروی کرنے والے بھی سات حصوں میں منقسم ہیں ، ان میں سے ہر ایک کے لئے جہنّم کا ایک درکہ معیّن ہے ۔