قَالَ اَلَمۡ نُرَبِّكَ فِيۡنَا وَلِيۡدًا وَّلَبِثۡتَ فِيۡنَا مِنۡ عُمُرِكَ سِنِيۡنَۙ ۞- سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 18
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَالَ اَلَمۡ نُرَبِّكَ فِيۡنَا وَلِيۡدًا وَّلَبِثۡتَ فِيۡنَا مِنۡ عُمُرِكَ سِنِيۡنَۙ ۞
ترجمہ:
فرعون نے کہا کیا ہم نے بچین میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی، اور تم نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے پاس نہیں بسر کئے تھے
فرعون کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ناشکری کا الزام لگانا
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دو چیزوں کا سوال کیا تھا، ایک یہ کہ ان سے فرعون کے شر کو دور کردیا جائے اور دوسرا یہ کہ ان کے ساتھ حضرت ہارون کو بھی رسول بنادیا جائے، اللہ تعالیٰ نے ان کے پہلے سوال کہ یہ فرما کر پورا کیا ہرگز ایسا نہیں ہوگا، یعنی فرعون تمہارے خلاف کوئی شرارت نہیں کرسکے گا، اور دوسرے سوال کو یہ فرما کر پورا کیا لہٰذا تم دونوں فرعون کے پاس جائو اور کہو کہ ہم دونوں رب العالمین کے رسول ہیں۔
جب حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون فرعون کے دربار میں اللہ تعالیٰ کا پیغام سنانے کے لئے گئے، امام رازی نے کہا وہ ایک سال تک دروازے پر منتظر ہے اور ان کو دربار میں جانے کی اجازت نہیں ملی، حتیٰ کہ دربان نے کہا کہ دربار کے باہر ایک شخص کھڑا ہوا ہے جس کا زعم یہ ہے کہ وہ رب العالمین کا رسول ہے۔ فرعون نے کہا اس کو بلائو، ہوسکتا ہے کہ ہم اس سے دل لگی کریں، جب ان دونوں نے پیغام حق سنایا تو فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو پہچان لیا، اس نے پہلے تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنی نعمتیں گنوائیں، پھر اپنے زعم کے مطابق حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی ناشکری اور احسان ناسپاسی کا ذکر کیا۔ اپنی نعمتیں گنواتے ہوئے یہ کہا کیا ہم نے بچپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی اور تم نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے پاس بسر نہیں کئے تھے، اور اس نے اپنے خیال میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی جو ناشکری بیان کی وہ یہ تھی اور تم نے وہ کام کئے جو تم نے کئے اور تم ناشکروں میں سے تھے۔ فرعون نے کہا تم نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے پاس بسر نہیں کئے تھے۔ ایک قول یہ یہ کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان کے پاس تیس سال رہے تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بارہ سال کی عمر میں قبطی کو گھونسا مارا تھا اس کے بعد وہاں سے ہجرت کر گئے تھے اور صحیح مدت کا اللہ تعالیٰ ہی کو علم یہ۔
فرعون نے کہا اور تم ناشکروں میں سے تھے، اس قول کے کئی محمل ہیں، ایک محمل یہ ہے کہ جس وقت تم نے اس قبطی کو قتل کیا اس وقت تم میرے احسانات کو فراموش کرنے والے تھے، اور اس کا دوسرا محمل یہ ہے کہ تم ان لوگوں میں سے تھے جن کی عادت کفران نعمت ہے، اور جس شخص کی یہ عادت ہو اس سے یہ بعید نہیں ہے کہ وہ اپنے ولی نعمت کے خواص کو قتل کر ڈالے، اور اس کا تیسر امحمل یہ ہے کہ تم فرعون اور اس کی ربوبیت کا کفر کرنے والے تھے یا ان لوگوں میں سے تھے جو فرعون اور اس کی ربوبیت کا کفر کرنے والے تھے۔
القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 18