أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالَ فِرۡعَوۡنُ وَمَا رَبُّ الۡعٰلَمِيۡنَؕ‏ ۞

ترجمہ:

فرعون نے کہا رب العلمین کی کیا تعریف ہے ؟

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فرعون نے کہا رب العالمین کی کیا تعریف ہے ؟۔ موسیٰ نے کہا وہ آسمان اور زمینوں اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہے، اگر تم یقین کرنے والے ہو تو !۔ فرعون نے اپنے گرد بیٹھنے والوں سے کہا کیا تم غور سے سن رہے ہو !۔ (موسیٰ نے) کہا وہ تمہارا اور تمہارے پہلے باپ دادا کا رب ہے۔ فرعون نے کہا : (اے لوگو ! ) بیشک تمہارا یہ رسول جو تمہارے طرف بھیجا گیا ہے ضرور مجنون ہے۔ موسیٰ نے (پھر) کہا وہ مشرق اور مغرب اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کا رب ہے اگر تم عقل رکھتے ہو۔ فرعون نے کہا : اے موسیٰ اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں ضرور تم کو قیدیوں میں شامل کر دوں گا۔ موسیٰ نے کہا خواہ میں تمہارے پاس کوئی روشن چیز بھی لے آئوں !۔ فرعون نے کہا اگر تم سچے ہو تو وہ چیز لے آئو۔ پس موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا تو وہ یکایک کھلم کھلا اژدھا بن گیا۔ اور انہوں نے اپنا ہاتھ نکالا تو وہ اچانک دیکھنے والوں کے لئے چمکتا ہوا بن گیا۔ (الشعرائ : ٣٣-٢٣ )

اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید کے متعلق حضرت موسیٰ اور فرعون کا مباحثہ 

فرعون حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر اپنی پرورش کا احسان رکھنا چاہتا تھا اور جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دلائل سے ثابت کردیا کہ ان کی پرورش میں اس کا کوئی احسان نہیں ہے تو اس نے بات کا رخ موڑنے کے لئے کہا بتائو رب العالمین کی کیا تعریف ہے، کیونکہ وہ خود اپنے لئے رب ہونے کا مدعی تھا، جب کسی چیز کی تعریف کی جاتی ہے تو تعریف میں اس چیز کے اجزاء اور اس جنس اور فصل بیان کی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ اجزاء اور جنس اور فصل سے پاک ہے۔ اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی ایسی صفات کے ساتھ تعریف کی جو اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی پر صادق نہیں آتیں، کیونکہ تعریف سے یہی مقصد ہوتا ہے کہ جس چیز کی تعریف کی جائے وہ دوسروں سے مکمل طور پر ممتاز ہوجائے، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز حادث اور فانی ہے۔ کوئی چیز بھی پہلے موجود نہ تھی پھر اللہ تعالیٰ کے پیدا کرنے سے موجود ہوئی، خود فرعون بھی پہلے موجود نہ تھا سو وہ بھی حادث ہے تو اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کسی کی یہ شان نہیں کہ وہ تمام آسمانوں اور زمینوں اور ان کے درمیان کی تمام چیزوں کا رب ہو، اس کائنات میں نظم اور ضبط کا تسلسل اور ہر چیز کا ان گنت حکمتوں پر مبین ہونا زبان حال سے پکار پکار کر کہتا ہے کہ اس کائنات کا کوئی خالق ہے اور وہ ممکن اور حادث نہیں ہے ورنہ وہ ان ہی کی طرح ہوتا لہٰذا وہ واجب اور قدیم ہے۔

چونکہ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے یہ سوال کیا تھا کہ بتائو رب العالمین کیا ہے ؟ یعنی اس کی ماہیت کیا ہے ؟ اور حضرت موسیٰ نے اس کے جواب میں رب العالمین کی وہ صفات بیان کیں جن میں وہ یکتا اور منفرد ہے جن سے وہ دوسروں سے ممتاز ہے تو فرعون نے اپنے درباریوں کی طرف رخ کر کے کہا کیا تم غور سے سن رہے ہو ؟ اس کا مطلب یہ تھا کہ میں نے رب العالمین کی مایہت اور حقیقت پوچھی تھی اور یہ اس کی صفات بیان کر رہے ہیں ! اس جاہل کو یہ پتا نہیں تھا کہ ماہیت اس چیز کی ہوتی ہے جس کے اجزاء ہوں اور جنس اور فصل ہو اور اللہ تعالیٰ جنس اور فصل سے اور اجزاء حقیقہ سے پاک اور منز ہ ہے، اجزاء کسی مرکب چیز کے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ واحد ہے، جو اجزاء سے بنا ہو وہ حادث ہوتا ہے اور اپنے اجزاء کا محتاج ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ واحد ہے اور کسی کا محتاج نہیں ہے سب اس کے محتاج ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی تعریف صرف ان صفات سے کی جاسکتی ہے جن صفات میں وہ منفرد ہے اور سب سے ممتاز ہے، سو وہ تعریف حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے کردی تھی کہ اللہ تعالیٰ تمام آسمانوں اور زمینوں اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کا رب ہے، پھر مزید وضاحت کے لئے حضرت موسیٰ نے فرمایا وہ تمہارا اور تمہارے پہلے باپ دادا کا رب ہے، اس قول سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ بتایا کہ تو بھی حادث اور مخلوق ہے اور تیرے باپ دادا بھی حادث اور مخلوق تھے، کیونکہ تیرے وجود سے پہلے تیرا عدم تھا اور تیرے باپ دادا کے وجود سے پہلے ان کا عدم تھا اور جس کے وجود سے پہلے اس کا عدم ہو وہ حادث ہوتا ہے سو تو بھی حادث اور مخلوق ہے اور تیرے باپ دادا بھی حادث اور مخلوق تھے اور جو حادث اور مخلوق ہو وہ خدا ہوسکتا ہے نہ خالق ہوسکتا ہے۔ خدا اور خالق وہ ہے جس نے تجھ کو اور تیرے باپ دادا کو پیدا کیا۔ حضرت موسیٰ نے پہلے اللہ تعالیٰ کی عام صفات سے استدلال کیا تھا اب اس کی خاص صفات سے استدلال کیا، کیونکہ انسان آسمانوں، زمینوں اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کے احوال کی بہ نسبت اپنے اور اپنے باپ دادا کے احوال بہتر طریقہ سے پہچانتا ہے، فرعون حضرت موسیٰ کی اس دلیل کا بھی حسب سابق کوئی جواب نہ دے سکا تو جھنجھلا کر یہ کہنے لگا (اے لوگو ! ) بیشک تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ضرور مجنون ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک اور اسلوب سے رب العالمین کی تعریف کی اور کہا وہ مشرق اور مغرب اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کا رب ہے، اگر تم عقل رکھتے ہ۔ اس کا صاف مطلب یہ یہ کہ رب العالمین وہ ہے جو سورج اور چاند ستاروں کو ایک مقرر وقت اور ایک مقرر جہت سے طلوع کرتا ہے اور ایک مقرر وقت اور مقرر جہت میں غروب کرتا ہے جو اس کائنات کے نظام کو چلا رہا ہے، جب تو نہ تھا تب بھی سورج اسی طرح طلوع اور غروب ہوتا تھا اور جب تیرے باپ دادا تھے تب بھی یہ نظام کائنات اسی طرح چل رہا تھا، سو اس کا ئنات کا رب تو ہے نہ تیرے باپ دادا۔ اس کائنتا کا رب وہی ہے جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ فرعن جب حضرت موسیٰ کے دلائل سے عاجز آگیا تو دھمکیاں دینے پر اتر آیا اور اس نے کہا :

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 23