أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَتِلۡكَ نِعۡمَةٌ تَمُنُّهَا عَلَىَّ اَنۡ عَبَّدْتَّ بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ ۞

ترجمہ:

اور کیا تو مجھ پر یہی احسان جتا رہا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے

فرعون کے اس احسان کا جواب کہ اس نے حضرت موسیٰ کی پرورش کی تھی 

فرعون نے حضرت موسیٰ پر یہ احسان یہ احسان جتایا تھا : کیا ہم نے بچپن میں تمہاری پرورش نہیں کی تھی اور تم نے اپنی عمر کے کئی سال ہمارے پاس بسر نہیں کئے تھے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کے جواب میں فرمایا اور کیا تو مجھ پر یہی احسان جتا رہا ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے !

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس جواب کے حسب ذیل تقریریں ہیں :

(١) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی اس کے ہاتھوں میں تربیت اس وجہ سے ہوئی کہ اس نے بنو اسرائیل کو غلام بنا رکھا تھا اور ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا تھا، گویا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ فرمایا اگر تو ہم پر اور ہمارے آباء و اجداد پر یہ ظلم نہ کرتا کہ بنو اسرائیل کو غلام بناتا اور ان کے بیٹوں کو ذبح کرت، تو میں تیری پرورش کرنے سے مستغنی ہوتا، سو تیری پرورش مجھ پر کوئی احسان نہیں ہے۔

(٢) حسن بصری نے کہا اس کی تقریر یہ ہے کہ تو نے بنو اسرائیل کو غلام بنایا اور ان کے مال و متاع پر قبضہ کرلیا اور میری پرورش کے لئے تو نے اسی مال کو خرچ کیا تو اس میں تیرا مجھ پر کیا احسان ہے۔

(٤) میری جن لوگوں نے پرورش کی ہے، وہ وہی لوگ ہیں جن کو تو نے غالم بنا رکھا تھا، تو تیرا مجھ پر کیا احسان ہے ! کیونکہ میری پرورش میری ماں نے کی تھی اور ان لوگوں نے جن کو تو نے غلام بنا رکھا تھا، تو نے میرے ساتھ یہی کیا تھا کہ مجھ کو قتل نہیں کیا تھا اور کسی شخص کا کسی کو قتل نہ کرنا اس پر احسان نہیں ہے۔

(٥) تیرا یہ دعویٰ ہے کہ بنو اسرائیل تیرے غلام ہیں اور مولیٰ اپنے غلاموں کے کھانے پینے اور ان کی ضروریات پر جو کچھ کرتا ہے وہ اس کی ذمہ داری اور اس کا فرض ہے تو اس میں تیرا مجھ پر کیا احسان ہے۔

کافر اگر کسی کے ساتھ نیکی کرے تو آیا وہ شکر کا مستحق ہے یا نہیں ؟

اس مسئلہ میں علماء کا اختلاف ہے کہ اگر کافر کسی شخص کے ساتھ کوئی نیکی یا حسن سلوک کرے تو اس کے کفر کے باوجود اس کی وہ نیکی باقی رہے گی یا اس کے کفر کی وجہ سے وہ نیکی زائل ہوجائے گی۔ بعض علماء نے کہا کہ کافر لوگوں کے ساتھ جو نیکی کرتا ہے وہ لوگوں سے اس نیکی پر شکر کا مستحق نہیں ہوتا، بلکہ ہو اپنے کفر کی وجہ سے اس بات کا مستحق ہوتا ہے کہ اس کی توہین کی جائے اور وہ اپنی نیکی کی وجہ سے اس کا مستحق ہو کہ اس کا شکر ادا کیا جائے اور شکر کا معنی یہ ہے کہ انعام کرنے والے کی تعظیم کی جائے اور وہ اپنے کفر کی وجہ سے اس کا مستحق ہوگا کہ اس کی توہین کی جائے تو لازم آئے گا کہ وہ تعظیم کا بھی مستحق ہو اور توہین کا بھی مستحق ہو، اور استحقاق میں دو ضدوں کا جمع کرنا محال ہے اور بعض دور سے علمئا نے یہ کہا کہ کفر کی وجہ سے کسی نعمت پر کافر کے شکر کا استحقاق باطل نہیں ہوتا، بلکہ کفر کی وجہ سے اس نعمت پر دنیا میں تعریف اور تحسین اور آخرت میں اس نعمت پر اجر وثواب باطل ہوجاتا ہے، اور قرآن مجید کی اس آیت سے اس دور سے قول کی تائید ہوتی ہے، نیز اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ اگر ماں باپ مشرک بھی ہوں تو اسلام میں ان کے ساتھ نیکی کرنے کا حکم ہوے۔ قرآن مجید میں ہے :

(العنکبوت : ٨) اور ہم نے ہر انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی وصیت کی ہے ہاں ! اگر وہ یہ کوشش کریں کہ تم میرے ساتھ اس کو شریک کرلو جس کا تم کو علم نہیں ہے تو تم ان کا کہنا نہ مانو۔

اور اس مسئلہ میں حسب ذیل احادیث بھی ہیں :

حضرت عبداللہ بن الزبیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ قتیلہ بنت عبدالعزی نے اپنی بیٹی اسماء بنت ابی بکر کے پاس کوئی ھدیہ بھیجا۔ حضرت ابوبکر نے قتیلہ کو زمانہ جاہلیت میں طلاق دے دی تھی۔ انہوں نے اپنے ہدیہ میں پنیر اور گھی بھیجا۔ حضرت اسماء نے ان کے ھدیہ کو قبول کرنے اور ان کے گھر میں آنے سے انکار کردیا، پھر انہوں نے حضرت عائشہ (رض) کے پاس پیغام بھیجا کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ مسئلہ معلوم کریں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ ان کو گھر میں آنے دے اور ان کے ہدیہ کو قبول کرے اور اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی :

(الممتحتہ : ٨) جن لوگوں نے تم سے دین میں جنگ نہیں کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا اللہ ان کے ساتھ تمہیں نیکی کرنے اور ان کے ساتھ انصاف پر مبنی سلوک کرنے سے منع نہیں فرماتا۔

مسند احمد ج ٤ ص ٤ مسند احمد ج ٦ ص 344, 355 مسند البز اور رقم الحدیث : ١٨٧٤)

حضرت عائشہ اور حضرت اسماء (رض) بیان کرتی ہیں کہ مدینہ میں ہم سے ملنے کے لئے ہماری والدہ آتیں وہ مشرکہ تھیں یہ وہ زمانہ تھا جب قریش اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان صلح تھی، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ! ہماری والدہ رغبت سے ہمارے پاس آتی ہے، کیا ہم اس کے ساتھ صلہ رحم کریں، آپ نے فرمایا : ہاں ! اس کے ساتھ صلہ رحم کرو۔

(مسند البزار رقم الحدیث : ١٨٧٣ مجمع الزوائد ج ٨ ص ٤٤ ۃ)

القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 22