أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَيَضِيۡقُ صَدۡرِىۡ وَلَا يَنۡطَلِقُ لِسَانِىۡ فَاَرۡسِلۡ اِلٰى هٰرُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور میرا دل تنگ ہو رہا ہے اور میری زبان (روانی سے) نہیں چل رہی سو تو ہارون کی طرف (بھی) وحی بھیج دے

حضرت ہارون کے لئے رسالت کا سوال کرنے کی توجیہ 

حضرت موسیٰ نے کہا اے میرے رب ! مجھے خدشہ ہے کہ وہ میری تکذیب کریں گے اور میرا دل تنگ ہو رہا ہے اور میری زبان (روانی سے) نہیں چل رہی سو تو ہارون کی طرف (بھی) وحی بھیج دے اور ان کا مجھ پر ایک قصور کا الزام ہے سو مجھے خطرہ ہے کہ وہ مجھے قتل کردیں گے، یعنی حضرت موسیٰ نے یہ کہا کہ مجھے خطرہ ہے کہ وہ مجھے جھوٹا قرار دیں گے اس سے مجھے رنج اور افسوس ہوگا اور آپ کا پیغام پہنچانے کے لئے جس روانی سے بات کرنی چاہیے وہ مججھے حاصل نہیں ہے۔ میرے بھائی ہارون میری بہ نسبت زیادہ فصیح اللسان ہیں سو آپ ان کو بھی منصب نبوت عطا فرمائیں۔ سورة طہ میں اس مضمون کو اس طرح فرمایا تھا :

(طہ : ٣٢-٢٩) اور میرے اہل میں سے میرا ایک وزیر (مددگار) بنا دے۔ میرے بھائی ہارون کو۔ اور ان سے تو میری کمر کو مضبوط کر دے۔ اور ان کو میرا شریک کار بنا دے۔

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے بجائے حضرت ہارون کی رسالت کا سوال کیا تھا یا اپنی مدد کے لئے ؟

سورۃ طہ اور سورة الشعراء میں بہ ظاہر تعارض ہے، کیونکہ سورة الشعرئ : ١٣ کا یہ معنی ہے کہ تو رسالت کو حضرت ہارون کے ذمہ لگا دے یعنی ان کو رسول بنا دے اور سورة طہ : ٣٠ کا یہ معنی ہے : کہ حضرت ہارون کو میرا مددگار بنا دے، اسی طرح سورة قصص ذمہ لگا دے یعنی ان کو رسول بنا دے اور سورة طہ : ٣٠ کا یہ معنی ہے : کہ حضرت ہارون کو میرا مددگار بنا دے، اسی طرح سورة قصص میں فرمایا :

(القصص : ٣٤) اور میرا بھائی ہارن جو مجھ سے زیادہ فصیح زبان والا ہے تو ان کو بھی میری مدد کے لئے رسول بنا دے وہ میری تصدیق کریں گے کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ وہ مجھے جھٹلائیں گے۔

علامہ قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ اس تعارض کے جواب میں لکھتے ہیں :

سورۃ الشعرائ : ١٣ کا یہ معنی ہے کہ تو جبریل کو میرے بھائی کے پاس وحی دے کر بھیج دے تاکہ وہ میری مدد اور معاونت کریں، اور اس آیت میں صراحتہ یہ نہیں فرمایا تاکہ وہ میری مدد کریں، جی اس کہ سورة طہ : ٣٠ اور سورة اقصص : ٣٤ میں فرمایا ہے کیونکہ ان سورتوں میں صراحتہ رسالت کا کا ذکر کردینے سے یہ معلوم ہوچکا تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ درخواست کی تھی کہ ان کی مدد کے لئے حضرت ہارون کو رسول بنادیا جائے اس لئے سورة الشعرائ : ٣ ۃ کا یہ معنی نہیں ہے کہ تو میرے بجائے حضرت ہارون کو رسول بنا دے اور جب ایک جگہ کسی سبب اور علت کا ذکر کردیا جائے تو دوسری جگہ اس کو حذف کرنا جائز ہے اور اس حذف پر قرینہ دوسری جگہ اس سبب کا ذکر ہوتا ہے کلام عرب میں اس کی بہت نظائر ہیں۔ (الجامع لا حکام القرآن جز ١٣ ص ٨٨ مطبوعہ دارالفکر بیروت)

سید ابوالاعلیٰ مودودی متوفی ١٣٩٩ ھ اس تعارض کو دور کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

ممکن ہے کہ ابتداء حضرت موسیٰ کی درخواست یہی رہی ہو کہ آپ کے بجائے حضرت ہارون کو اس منصب پر مامور کیا جائے اور بعد میں آپ نے محسوس کیا ہو کہ مرض الٰہی آپ ہی کو مامور کرنے کی ہے تو پھر یہ درخواست کی ہو کہ انہیں آپ کا وزیر اور مددگار بنایا جائے، یہ شبہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ یہاں حضرت موسیٰ ان کو وزیر بنانے کی درخواست نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ عرش کر رہے ہیں کہ فارسل الی ہارون آپ ہارون کی طرف رسالت بھیجیں اور سورة طہ میں یہ گزارش کرتے ہیں کہ میرے لئے میرے خاندان میں سے ایک وزیر مقرر فرما دیجیے، میرے بھائی ہارون کو نیز سورة قصص میں وہ یہ عرض کرتے ہیں کہ میرے بھائی مجھ سے زیادہ زبان آور ہیں لہٰذا آپ انہیں مددگار کے طور پر میرے ساتھ بھیجئے تاکہ وہ میری تصدیق کریں، اس سے خیال ہوتا ہے کہ غالباً یہ موخر الذکر دونوں درخواستیں بعد کی تھیں اور پہلی بات وہی تھی جو حضرت موسیٰ سے اس سورے میں نقل ہوئی ہے۔ (تفہیم القرآن ج ٣ ص ٤٨٢ مطبوعہ لاہور، مارچ ١٩٨٣ ئ)

ہمارے نزدیک سید ابوالاعلی مودودوی کا جواب صحیح نہیں ہے اولاً اس لئے کہ اس جواب سے یہ لازم آتا ہے کہ پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے وہ دعا کی جو اللہ تعالیٰ کی مرضی اور منشاء کے خلاف تھی اللہ تعالیٰ انہیں نبی بنانا چاہتا تھا اور وہ نبی بننا نہیں چاہتے تھے اور انہوں نے یہ کہا کہ تو میرے بجائے میرے بھائی ہارون کو نبی بنا دے، ثانیاً اس لئے کہ اس جواب کی بنا محض امکان، مفروضے اور اٹکل پچو پر ہے کسی تاریخی واقعہ کے بارے میں یہ دعویٰ کرنا کہ پہلے فلاں واقعہ ہوا اور پھر فلاں واقعہ ہوا بغیر تاریخی شہادت کے صحیح نہیں ہے، اور ثالثاً اس لئے کہ سورة طہ کا نزول کے اعتبار سے نمبر ٤٥ ہے اور سورة الشعراء کا نزول کے اعتبار سے نمبر ٤٧ ہے (التحریر والتنویر لابن عاشور) نیز حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا پہلے سورة طہ نازل ہوئی پھر الواقعہ اور اس کے بعد سورة الشعراء نازل ہوئی (روح المعانی جز ١٩ ص ١٠٦) پہلے اللہ تعالیٰ نے سورة طہ نازل کی اور اس میں بتادیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت ہ اورن کو اس لئے رسول بنانے کی دعا کی تاکہ وہ ان کے وزیر اور مددگار ہوں اور اس کے بعد سورة الشعراء نازل کی جس میں اس دعا کے سبب کو حذف کردیا کیونکہ پہلے اس کا ذکر فرما چکا تھا۔ اس لئے وہی جواب صحیح ہے جس کا علامہ قرطبی نے ذکر کیا ہے۔

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی طرف ذنب کی نسبت کی توجیہ 

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو یہ فرمایا کہ مجھے خطرہ ہے کہ ہو مجھے قتل کردیں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک اسرائیلی اور ایک قبطی میں لڑائی ہو رہی تھی، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس اسرائیلی کو بچانے کے لئے قبطی کو تادیباً ایک گھونسا مار دیا تھا وہ شخص اتفاقاً گھونسا لگنے سے مرگیا، حضرت موسیٰ نے اس کو قتل کرنے کے ارادہ سے اس کو گھونسا نہیں مارا تھا نہ عادۃ کوئی شخص ایک گھونسے سے مرتا ہے۔ بعد میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم ہوا کہ قوم فرعون کو اس واقعہ کی اطلاع ہوگئی ہے اور وہ اس قبطی کے انتقام میں ح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو قتل کرنے کی تیاری کر رہے ہیں تو وہ مصر کو چھوڑ کر مدین کی طرف چلے گئے، آٹھ دس سال بعد اچانک اللہ تعالیٰ نے ان پر وحی نازل فرمائی اور انہیں یہ حکم دیا کہ وہ فرعون اور اس کی قوم کے پاس جائیں اور انہیں اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دیں اس وقت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ خطرہ ہوا کہ ان لوگوں نے تو ان کے خلاف ایک قبطی کو قتل کرنے کے سلسلہ میں پہلے ہی ایک الزام قائم کیا ہوا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ انہیں توحید کا پیغام سنانے سے پہلے وہ ان سے اس قتل کے سلسلہ میں باز پرس کرنا شروع کردیں اور ان سے بدلہ لینے کے لئے ان کو قتل کرنے کی کارروائی شروع کریں۔

منکرین عصمت نبوت اس مقام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس آیت میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے خود گناہ کرنے کا اعتراف کیا ہے ولھم علی ذنب ان کا مجھ پر ایک گناہ ہے، اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء علہیم السلام سے گناہ سر زد ہوتے ہیں، اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قول کا محمل یہ ہے کہ ان کے زعم میں میرا ایک گناہ ہے اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ فی الواقع میں نے گناہ کیا ہے، رہا یہ کہ کیا قتل کرنا گناہ نہیں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس قبطی کو قصداً قتل نہیں کیا تھا، آپ نے اس کو تادیباً ایک گھونسا مارا تھا اور وہ قضاء الٰہی سے مرگیا۔

القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 13