کنزالایمان مع خزائن العرفان پارہ 14 رکوع 3 سورہ الحجر آیت نمبر 45 تا 60
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍؕ(۴۵)
بےشک ڈر والے باغوں اور چشموں میں ہیں (ف۴۹)
(ف49)
ان سے کہا جائے گا کہ ۔
اُدْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍ اٰمِنِیْنَ(۴۶)
ان میں داخل ہو سلامتی کے ساتھ امان میں (ف۵۰)
(ف50)
یعنی جنّت میں داخل ہو امن و سلامتی کے ساتھ ، نہ یہاں سے نکالے جاؤ ، نہ موت آئے ، نہ کوئی آفت رونما ہو ، نہ کوئی خوف نہ پریشانی ۔
وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰى سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ(۴۷)
اور ہم نے ان کے سینوں میں جو کچھ (ف۵۱) کینے تھے سب کھینچ لیے(ف۵۲)آپس میں بھائی ہیں (ف۵۳) تختوں پر روبرو بیٹھے
(ف51)
دنیا میں ۔
(ف52)
اور ان کے نفوس کو حقد و حسد و عناد و عداوت وغیرہ مذموم خصلتوں سے پاک کر دیا وہ ۔
(ف53)
ایک دوسرے کے ساتھ مَحبت کرنے والے ۔ حضرت علی مرتضٰی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ میں اور عثمان اور طلحہ اور زبیر انہیں میں سے ہیں یعنی ہمارے سینوں سے عناد و عداوت اور بغض و حسد نکال دیا گیا ہے ، ہم آپس میں خالص مَحبت رکھنے والے ہیں ۔ اس میں روافض کا رد ہے ۔
لَا یَمَسُّهُمْ فِیْهَا نَصَبٌ وَّ مَا هُمْ مِّنْهَا بِمُخْرَجِیْنَ(۴۸)
نہ انہیں اس میں کچھ تکلیف پہنچے نہ وہ اس میں سے نکالے جائیں
نَبِّئْ عِبَادِیْۤ اَنِّیْۤ اَنَا الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُۙ(۴۹)
خبردو (ف۵۴) میرے بندوں کو کہ بےشک میں ہی ہوں بخشنے والا مہربان
(ف54)
اے محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔
وَ اَنَّ عَذَابِیْ هُوَ الْعَذَابُ الْاَلِیْمُ(۵۰)
اور میرا ہی عذاب دردناک عذاب ہے
وَ نَبِّئْهُمْ عَنْ ضَیْفِ اِبْرٰهِیْمَۘ(۵۱)
اور انہیں احوال سناؤ ابراہیم کے مہمانوں کا (ف۵۵)
(ف55)
جنہیں اللہ تعالٰی نے اس لئے بھیجا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو فرزند کی بشارت دیں اور حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کو ہلاک کریں ۔ یہ مہمان حضرت جبریل علیہ السلام تھے مع کئی فرشتوں کے ۔
اِذْ دَخَلُوْا عَلَیْهِ فَقَالُوْا سَلٰمًاؕ-قَالَ اِنَّا مِنْكُمْ وَ جِلُوْنَ(۵۲)
جب وہ اس کے پاس آئے تو بولے سلام (ف۵۶) کہا ہمیں تم سے ڈر معلوم ہوتا ہے (ف۵۷)
(ف56)
یعنی فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو سلام کیا اور آپ کی تحیّت و تکریم بجا لائے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان سے ۔
(ف57)
اس لئے کہ بے اذن اور بے وقت آئے اور کھانا نہیں کھایا ۔
قَالُوْا لَا تَوْجَلْ اِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍ(۵۳)
انہوں نے کہا ڈرئیے نہیں ہم آپ کو ایک علم والے لڑکے کی بشارت دیتے ہیں (ف۵۸)
(ف58)
یعنی حضرت اسحٰق علیہ السلام کی ۔ اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ۔
قَالَ اَبَشَّرْتُمُوْنِیْ عَلٰۤى اَنْ مَّسَّنِیَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُوْنَ(۵۴)
کہا کیا اس پر مجھے بشارت دیتے ہو کہ مجھے بڑھاپا پہنچ گیا اب کاہے پر بشارت دیتے ہو (ف۵۹)
(ف59)
یعنی ایسی پیرانہ سالی میں اولاد ہونا عجیب وغریب ہے کس طرح اولاد ہوگی ، کیا ہمیں پھر جوان کیا جائے گا یا اسی حالت میں بیٹا عطا فرمایا جائے گا ؟ فرشتوں نے ۔
قَالُوْا بَشَّرْنٰكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُنْ مِّنَ الْقٰنِطِیْنَ(۵۵)
کہا ہم نے آپ کو سچی بشارت دی ہے (ف۶۰) آپ ناامید نہ ہوں
(ف60)
قضائے الٰہی اس پر جاری ہو چکی کہ آپ کے بیٹا ہو اور اس کی ذُرِّیَّت بہت پھیلے ۔
قَالَ وَ مَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَةِ رَبِّهٖۤ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ(۵۶)
کہا اپنے رب کی رحمت سے کون ناامید ہو مگر وہی جو گمراہ ہوئے(ف۶۱)
(ف61)
یعنی میں اس کی رحمت سے نا امید نہیں کیونکہ رحمت سے نا امید کافِر ہوتے ہیں ، ہاں اس کی سنّت جو عالَم میں جاری ہے اس سے یہ بات عجیب معلوم ہوئی اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے فرشتوں سے ۔
قَالَ فَمَا خَطْبُكُمْ اَیُّهَا الْمُرْسَلُوْنَ(۵۷)
کہا پھر تمہارا کیا کام ہے اے فرشتو(ف۶۲)
(ف62)
اس بشارت کے سوا اور کیا کام ہے جس کے لئے تم بھیجے گئے ہو ۔
قَالُوْۤا اِنَّاۤ اُرْسِلْنَاۤ اِلٰى قَوْمٍ مُّجْرِمِیْنَۙ(۵۸)
بولے ہم ایک مجرم قوم کی طرف بھیجےگئے ہیں(ف۶۳)
(ف63)
یعنی قومِ لوط کی طرف کہ ہم انہیں ہلاک کریں ۔
اِلَّاۤ اٰلَ لُوْطٍؕ-اِنَّا لَمُنَجُّوْهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ(۵۹)
مگر لوط کے گھر والے ان سب کو ہم بچالیں گے (ف۶۴)
(ف64)
کیونکہ وہ ایماندار ہیں ۔
اِلَّا امْرَاَتَهٗ قَدَّرْنَاۤۙ-اِنَّهَا لَمِنَ الْغٰبِرِیْنَ۠(۶۰)
مگر اس کی عورت ہم ٹھہراچکے ہیں کہ وہ پیچھے رہ جانے والوں میں ہے (ف۶۵)
(ف65)
اپنے کُفر کے سبب ۔