علماء کا مقام ……اور ہمارے موجودہ رویے

تحریر: حافظ محمد تنویر قادری وٹالوی

ہمارے دور کی کمزور اخلاقیات کا ایک افسوس ناک پہلو علماء کرام کی توہین و تذلیل اور ان پر طعن و تشنیع کا عام ہونا ہے….

عوامی رویے تو دور رہے خود ہمارا مذہب پسند طبقہ بھی اس سلسلے میں سخت بحران کا شکار ہے……

اگر آج ہم اپنے مسلک اہلسنت میں اس رویے کا جائزہ لیں تو صورتحال یہاں تک پہنچی ہوئی ہے کہ محض اختلاف رائے کی بنیاد پر دوسرے عالم پر لعن طعن ‘ توہین و تذلیل اور اس پر گمراہی و کفر کے لیبل لگانا ایک معمولی سا کام بن کہ رہ گیا ہے…

یہ کام عمومََا کوئی بڑی شخصیت نجی مجلس میں اپنے طلباء و مریدین کے سامنے ایک مرتبہ کر دیتی ہے پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ سب اپنے استاد ‘ شیخ اور قائد کے ساتھ حق وفا داری کے لیے میدان عمل مین آ کودتے ہیں ….

آوازے کسّے جاتے ہیں ‘ پگڑیاں اچھلتی ہیں ‘ سفید دامنوں پہ داغ لگائے جاتے ہیں اور سوشل میڈیا کی خصوصی کرم نوازی سے چند لمحات میں اس کی ساری دینی خدمات پر قلم پھیر کر اسے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ‘ گستاخ صحابہ ‘ گستاخ اہل بیت رضی اللہ عنہم ‘ غدار اہل سنت اور نہ جانے کون کون سے تغمے فری میں عطا کر دیئے جاتے ہیں….

علماء پر یہ الزامات عموما بغیر تحقیق اور ان کا مؤقف توجہ سے سنے بغیر ہی داغے جاتے ہیں ….

اس وقت سوشل میڈیا کہ زور پر یہ کام سنجیدہ اور دین کا درد رکھنے والے احباب کے لیے سوہان روح بنا ہوا ہے….

تو اس سلسلے میں احتیاط اور تربیت و اصلاح کی غرض سے احباب کی خدمت میں چند گذارشات پیش کی جارہی ہیں امید ہے کہ وہ ضرور ان پر توجہ فرمائیں گے:

*……علماء کے مابین علمی اختلافات کا سلسلہ شروع سے چلا آ رہا ہے اور چلتا رہے گا…یہ علم کا حسن اور اس سلسلے میں محنت ‘ غور و فکر اور نت نئی تحقیقات کے سامنے آنے کا سبب بنتا ہے…ہمارے اسلام میں اس کی تحسین کی گئی ہے…البتہ اس میں باہمی منافرت ‘ عناد اور انا پرستی کا دخل نہیں ہونا چاہیے …ساری کاوشیں تحقیق حق کے لیے ہی ہونی چاہیں …عوام الناس کہ لیے اس میں راہ عمل یہ ہے کہ اس طرح کے اختلافات میں وہ کسی بھی عالم کی تردید اور اس کے مقام و مرتبے میں تنقیص کیے بغیر جس عالم کی رائے کو ذیادہ وزنی محسوس کریں اس کی رائے پر عمل کر لیں …

*…..فروعی معاملات کی تحقیق اور عقائد و نظریات کی تفصیلات و تشریحات مین علماء میں اختلاف کی نوعیت بڑھ بھی سکتی ہیں مثلا کوئی بات ایک عالم کے نزدیک

جائز و مباح جبکہ دوسرے کے نزدیک ناجائز ‘ اسی طرح ایک بات کسی عالم کے نزدیک حق اور دوسرے کے نزدیک خلاف حق بھی ہو سکتی ہے چونکہ دلائل دونوں کے پاس موجود ہوتے ہیں تو اس میں بھی وہی رویہ اختیار کرنا چاہیے جو اوپر مذکور ہوا ہے…ہاں اگر کوئی تحقیق کرنا چاہیے تو اسے دونوں فریقوں کے دلائل غیر جانبدار ہو کر تفصیل کے ساتھ ضرور دیکھنے چاہیں اس کے بعد کسی کےمتعلق اپنی رائے کا اظہار کرنا چاہیے…..

ہمارے ہاں کلپ کلاس کی طالبعلموں نے علماء کے خلاف جو رویہ اپنا رکھا ہے یہ انتہائی خطرناک اور قابل مذمت ہے…. عالم اگر اپنی تحقیق میں غلطی پہ بھی ہوا اسے تو ایک اجر مل جائے گا لیکن ہم نے کسی عالم کی جو توہین و تذلیل کی ہو گی اس کا گناہ تو ہمیشہ لیے ہمارے نامہ اعمال میں لکھ دیا جائے گا نا….!!!

*…..اگر کوئی ہمارے کسی استاد ‘ شیخ اور قائد کے نزدیک یا ہماری اپنی تحقیق کے مطابق کسی نظرہے میں غلط ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہم لٹھ لے کر اس کہ پیچھے پڑ جائیں…….اس کی غلطی اپنی جگہ پر لیکن بحثیت عالم اس مقام و مرتبہ تو ضرور موجود ہے نا !!!

اور یہ بھی یاد رہے کہ حق کو محض اپنے استاد اور قائد کی رائے میں ہی محصور سمجھنا بذات خود علمی دنیا کی بہت بڑی غلطی ہے….

*…..کسی دیندار اور مخلص عالم کو کسی مقدس ہستی کا گستاخ ثابت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اور نہ ہی یہ سوشل میڈیا کا کھیل ہے…..یہاں تو بڑے بڑے ائمہ و فقہاء کے قلم جواب دے گئے ہیں اور خاموشی کو ہی انہوں نے عافیت جانا ہے…خدرا نجی علمی مجالس ‘ مذاکرات ‘ مکالمات اور دارالافتاء میں بیٹھ کر کیے جانے والے نازک کام نہ تو سوشل میڈیا پہ کیے جائیں اور نہ ہی انہیں اس کی زینت بنایا جائے……اور ہر بندہ بذات خود حاکم ‘ فیصل اور مفتی بننے کی ہر گز کوشش نہ کرے……

کاش فتوی نویسی اور دوسروں کے متعلق رائے قائم کرنے مین اپنے اسلاف کی احتیاطوں پر ہم عمل پیرا ہو جائیں……

*….اگر کسی عالم کی غلطی ہم پہ واضح ہو جائے تو اس کے ساتھ رابطہ کر رہے اسے اس پہ آگاہ کیا جائے اور خلوص و خیر خواہی کے جذبات دے دلائل کے ساتھ سے رجوع پر آمادہ کیا جائے…..اس مقصد کے لیے سوشل میڈیا پر الزامات ‘ چیلنجز اور رجوع کی سر عام دعوت معاملے کو سدھارنے کی بجائے مزید بگاڑ دیتی ہے….

*….. ہمارے اسلاف تو اختلافات کے باوجود بھی ایک دوسرے سے محبت و عقیدت کے رویے رکھتے تھے اور ایک ایک دوسرے کی تعظیم و تکریم میں کچھ بھی کمی نہیں کرتے تھے….اس کے دو واقعات ملاحظہ کیجیئے:

1: ایک قابل اعتماد بزرگ کی روایت کے مطابق ایک معروف خطیب صاحب جو سید ذادے بھی ہیں وہ ہمیشہ حضرت ضیاءالامت پیر محمد کرم شاہ صاحب لازہری علیہ الرحمۃ سے غلط فہمیوں کی بنیاد پر خائف رہتے تھے اور اپنے مؤقف کو سرعام بیان بھی کرتے تھے….ایک مرتبہ انہی کے گاؤں میں ایک جلسے میں پیر کرم شاہ علیہ الرحمۃ کی آمد ہوئی وہ سید صاحب بھی وہاں موجود تھے پیر صاحب اپنے متعلق ان کے رویے سے بخوبی آگاہ تھے لیکن اس کے باوجود آپ نے خود آگے بڑھ کر تعظیم کے لیے شاہ جی کے ہاتھوں کو چوم لیا …..

*….علامہ پیر محمد چشتی صاحب علیہ الرحمۃ اپنی کتاب “پیری مریدی” میں لکھتے ہیں ہمارے استاذ گرامی غزالی زماں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی شاہ علیہ الرحمۃ اور محدث اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد علیہ الرحمۃ کے درمیان چند اعتقادی مسائل میں اختلاف رائے تھا اور تحریری انداز میں اس کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا تھا…لیکن اس کے باوجود ہمارے استاد صاحب ہمیشہ محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمۃ کا تذکرہ محبت اور ادب سے کرتے تھے ایک مرتبہ ہمارے تعجب پر آپ نے فرمایا کہ ان کے ساتھ میرا اختلاف علمی نوعیت کا ہے لیکن جہاں تک ان کی شخصیت کا تعلق ہے تو سن لو میں انہیں ولئ کامل سمجھتا ہو….

اللہ اللہ ….یہ ہمارے اسلاف کے انداز اختلاف تھے……

اور آج ہماری بات کہاں تک پہنچی ہوئی ہے…..اللہ ہی کرم نوازی فرمائے……

تو خدارا آئیے …… اپنے ان تمام علماء و محسنین کی قدر کریں …..چھوٹی چھوٹی اور بے بنیاد باتوں پر ان کی عزتیں نہ اچھالیں اور ان کے متعلق کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے لاکھ مرتبہ سوچ لیں اور تحقیق کر لیں اور جو علماء کے خلاف زبان درازی کرتے ہیں آگے بڑھ کر خود ان کی روک تھام کریں….. کہیں یہ سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے ہوائی فائرنگ ہمارے لیے بدنصیبی اور خاتمہ بالخیر میں رکاوٹ کا سبب نہ بن جائے اور اس سلسلے میں یہ حدیث مبارکہ بھی پیش نظر رکھیں:

ہمارے محبوب مکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا:

تین شخص ایسے ہیں جن کو منافق ہی تکلیف دے سکتا ہے1.. وہ شخص جو اسلام کی حالت میں بوڑھا ہوگیا….

2.. عالم دین 3..عادل بادشاہ ۔

(الترغیب و الترہیب ‘ رقم الحدیث:115 )

علامہ ابن نجیم مصری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں :

الِاسْتِہْزَاء ُ بِالْعِلْمِ وَالْعُلَمَاء کُفر…

“علم اور علماء کی توہین کفر ہے”۔

(الاشباہ والنظائر، باب الردة :160)

اللہ رب عزت کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں موجودہ فتنوں سے بچتے ہوئے صحیح معنوں میں اپنے تمام علماء کی عزت و تکریم کی توفیق عطا فرمائے….آمین…

(اس تحریر کو شیئر ضرور کریں تاکہ معاشرے میں جو آگ لگی ہے اسے بجھانے میں ہمارا بھی کچھ حصہ شامل ہو سکے…..15.06.2020

منجانب: صراط الاسلام میڈیا سیل

03414165880