أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَاَ لۡقٰى مُوۡسٰى عَصَاهُ فَاِذَا هِىَ تَلۡقَفُ مَا يَاۡفِكُوۡنَ‌ ۞

ترجمہ:

پس موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا تو اچانک وہ ان کی شعبدہ بازیوں کو نگلنے لگا

بعض مفسرین نے کہا جادوگروں نے یہ دیکھا کہ ان کے پاس لاٹھیاں اور رسیاں بہت زیادہ ہیں اس کے برخلاف حضرت موسیٰ کے پاس صرف ایک لاٹھی ہے اس لئے ان کو یقین تھا کہ ان ہی کو غلبہ ہوگا اور انہوں نے یہ نہیں جانا کہ بعض اوقات کم تعداد میں حق پرست زیادہ تعداد میں مخالفین پر غالب آجاتے ہیں جیسے ایک ماچس کی تیلی جلائو یا ایک بلب روشن کرو تو وہ پورے کمرے کے اندھیرے کو ختم کردیتا ہے۔

سانپوں کو دیکھ کر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے خوف زدہ ہونے کی توجیہات

سور طہ میں ہے کہ جب انہوں نے اپنی لاٹھیاں اور رسیاں ڈالیں تو موسیٰ کو یہ خیال گزرنے لگا کہ ان کے جادو کے اثر سے ان کی رسیاں اور لاٹھیاں بھاگ رہی ہیں تو موسیٰ نے اپنے دل میں خوف محسوس کیا، ہم نے فرمایا تم خوف نہ کرو بیشک تم ہی غالب اور برتر رہو گے۔ (طہ :66-68)

انسان کی طبیعت میں جو سانپوں سے تو حش اور تنفر رکھا گیا ہے اس کے اثر سے حضرت موسیٰ خوف زدہ ہوگئے تھے اور اس خوف کا تعلق وہم سے تھا، دل سے نہیں تھا اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سحر کے ضرر کو اپنے قہر کا لباس پہنا دیا تھا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے قہر سے خوف زدہ ہوئے تھے نہ ان مصنوعی، جعلی اور وہمی سانپوں سے۔

علامہ اسماعیل حقی متوفی 1137 ھ لکھتے ہیں :

امام ابو منصور ماتریدی نے التاویلات النجمیہ میں لکھا ہے انسان کی جبلت میں خوف بشریت ہے خواہ وہ بنی ہو، حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اس کے دل سے اس خوف کو نکال لے اور اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا آپ نہ ڈریں آپ ہی اعلیٰ ہیں، اس کا معنی یہ ہے کہ آپ کا اس سے اعلیٰ درجہ ہے کہ آپ خالق کے بجائے مخلوق سے ڈریں اور اس کی ایک اور تفسیر یہ یہ کہ حضرت موسیٰ مخلوق سے نہیں خالق سے خوف زدہ ہوئے تھے کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ ان کا عصا اژدھا بن کر جادوگروں کے جادو کو نگل گیا ہے لہٰذا ان کو معلوم ہوگیا کہ ان کا عصا اللہ تعالیٰ کی صفت قہر کا مظہر ہوگیا ہے سو وہ اللہ تعالیٰ اور اس کی صفت قہر سے ڈرے تھے نہ کہ لاٹھی اور اژدھے سے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا آپ نہ ڈریں آپ ہی اعلیٰ ہیں، یعنی آپ کا درجہ ہمارے نزدیک اس لاٹھی سے اعلیٰ ہے کیونکہ اس لاٹھی کو آپ نے اپنے لئے بنایا ہے اور آپ میرے رسول اور میرے کلیم ہیں اور آپ کو میں نے اپنے لئے بنایا ہے اور اگر یہ لاٹھی میری صفت قہر کی مظہر ہے تو آپ میری صفت لطف کے بھی مظہر ہیں اور میری صفت قہر کے بھی مظہر ہیں۔

(٤ وح البیان ج ٥ ص 479-480 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 45