فَجُمِعَ السَّحَرَةُ لِمِيۡقَاتِ يَوۡمٍ مَّعۡلُوۡمٍۙ ۞- سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 38
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَجُمِعَ السَّحَرَةُ لِمِيۡقَاتِ يَوۡمٍ مَّعۡلُوۡمٍۙ ۞
ترجمہ:
سو ایک مقرر دن کے وعدہ پر تمام جادوگر اکٹھے کئے گئے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو ایک مقرر دن کے وعدہ پر تمام جادوگر اکٹھے کئے گئے۔ اور عوام سے کہا گیا کہ آیا تم بھی اکٹھے ہو گے ؟۔ اگر وہ غالب آگئے تو شاید ہم ان جادوگروں ہی کی پیروی کریں !۔ سو جب جادو گر آگئے تو انہوں نے فرعون سے کہا اگر ہم غالب آگئے تو کیا ہم کو انعام ملے گا۔ فرعون نے کہا ہاں ! اس صورت میں تم میرے خواص اور مقربین میں سے ہو جائو گے۔ (الشعرائ : ٤٢-٣٨)
فرعون اور اس کے حواریوں کی اپنی کامیابی کے متعلق خوش فہمی
مقرر دن سے مراد ہے ان کی زینت (جشن) کا دن، حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہ سال کی پہلی تاریخ تھی اور وہ ان کی عید کا دن تھا اور وہی یوم نیروز ہے۔ (معالم التنزیل ج ٣ ص ٤٦٦، داراحیاء التراث العربی بیروت)
اور مقابلہ کا وقت دن روشن ہونے کے بعد طے ہوا تھا۔
(طہ : ٥٩) تمہارے ساتھ زینت (جشن) کے دن کا وعدہ ہے اور یہ کہ جب دن روشن ہوجائے تو سب لوگ جمع ہوجائیں۔
فرعون کے اہل دربار نے اس مقابلہ کو موخر کرنے کا مشورہ دیا تھا تاکہ تمام جادوگر جمع ہوجائیں اور سب لوگوں کے سامنے یہ مقابلہ ہو۔ فرعون نے ان کے اس مشورہ کو مان لیا اس کا خیال تھا کہ سب جادوگر مل کر اکیلے حضرت موسیٰ پر غالب آجائیں گے اور سب کے سامنے حضرت موسیٰ کو شکست ہوجائے گی اور اس کی خدائی برقرار رہے گی، اور وہ یہ بھول گیا کہ حضرت موسیٰ کا معجزہ دیکھ کر اس پر کیسی ہیبت طاری ہوئی تھی اور اس کو اپنی جان کے لالے پڑگئے تھے کیونکہ اپنی خدائی کو ثابت کرنے کی محبت نے اس کو ہر خطرہ سے غافل کردیا تھا :
حضرت ابوالدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی چیز کی محبت تم کو اندھا اور بہرا کردیتی ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٥١٣٠، مسند احمد ج ٥ ص ١٩٤، مشکوۃ رقم الحدیث : ٤٩٠٨ تاریخ بغداد ج ٣ ص ١١٧)
پھر اس نے یہ ارادہ کیا کہ ان کی عید کے دن یہ مقابلہ منعقد کیا جائے تاکہ تمام لوگ حضرت موسیٰ کی اس کے زعم میں شکست کا مشاہدہ کرلیں، اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی یہی چاہتے تھے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دلیل کا غلبہ متام لوگوں کے سامنے ظاہر ہو اور یہ بھی حضرت موسیٰ کا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر خاص کرم تھا کہ خود فرعون نے ایسی بات کہی جو حضرت موسیٰ کے موافق اور ان کی منشاء کے مطابق تھی۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اگر وہ غالب آگئے تو شاید ہم ان جادوگروں ہی کی پیروی کریں۔ بہ ظاہر سیاق کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات بھی اعلان کرنے والوں نے کہی تھی کیونکہ بھرے دربار میں جنہوں نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ۔ کا معجزہ اور اس کے مقابلہ میں فرعون کی پسپائی دیکھی تھی وہ فرعون کی خدائی کے عقیدہ سے متزلزل ہوگئے تھے یہی حال ان عوام کا تھا جن تک اس واقعہ کی خبر پہنچیھی اس لئے اعلان کرنے والوں نے کہا اگر جادو گر موسیٰ پر غالب آئے تو شاید ہم جادوگروں کی اتباع میں فرعون کی خدائی کے عقیدہ پر برقرار رہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فرعون اور اس کے حواریوں نے حضرت موسیٰ پر طنز کرتے ہوئے کہا ہوا اگر یہ اور ہارون غالب آگئے تو شاید ہم ان کی اتباع کریں۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 38