قَالَ اٰمَنۡتُمۡ لَهٗ قَبۡلَ اَنۡ اٰذَنَ لَـكُمۡۚ اِنَّهٗ لَـكَبِيۡرُكُمُ الَّذِىۡ عَلَّمَكُمُ السِّحۡرَۚ فَلَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ لَاُقَطِّعَنَّ اَيۡدِيَكُمۡ وَاَرۡجُلَـكُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ وَّلَاُصَلِّبَنَّكُمۡ اَجۡمَعِيۡنَۚ ۞- سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 49
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَالَ اٰمَنۡتُمۡ لَهٗ قَبۡلَ اَنۡ اٰذَنَ لَـكُمۡۚ اِنَّهٗ لَـكَبِيۡرُكُمُ الَّذِىۡ عَلَّمَكُمُ السِّحۡرَۚ فَلَسَوۡفَ تَعۡلَمُوۡنَ لَاُقَطِّعَنَّ اَيۡدِيَكُمۡ وَاَرۡجُلَـكُمۡ مِّنۡ خِلَافٍ وَّلَاُصَلِّبَنَّكُمۡ اَجۡمَعِيۡنَۚ ۞
ترجمہ:
فرعون نے کہا تم مجھ سے اجازت لینے سے پہلے اس پر ایمان لے آئے ! یقینا وہی تمہارا وہ بڑا ماہر جادوگر ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے، سو عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا، میں ضرور تمہارے ہاتھوں اور پیروں کو (ہر ایک کی) مخلاف جانب سے کاٹ ڈالوں گا اور میں ضرور تم سب کو سولی پر لٹکا دوں گا
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فرعون نے کہا تم مجھ سے اجازت لینے سے پہلے اس پر ایمان لے آئے ! یقینا وہی تمہارا وہ بڑا ماہر جادوگر ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے، عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا، میں ضرور تمہارے ہاتھوں اور پیروں کو (ہر ایک کی) مقابل جانب سے کاٹ ڈالوں گا اور ضرور میں تم سب کو سولی پر لٹکا دوں گا۔ انہوں نے کہا کوئی مضائقہ نہیں، ہم اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ بیشک ہماری یہ خواہش ہے کہ ہمارا رب ہمرے گناہوں کو بخش دے، کیونکہ ہم سب سے پہلے ایمان لانے والے ہیں۔ (الشعرائ :49-51)
فرعون کا اپنے عوام کو حضرت موسیٰ سے متنفر کرنے کے لئے جادوگروں پر الزام تراشی کرنا
فرعون نے جب یہ دیکھا کہ تمام جادوگر حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون (علیہما السلام) پر ایمان لے آئے تو اس نے سوچا کہ اب لوگ یہی کہیں گے کہ جادوگروں کی اتنی بڑی اکثریت جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر ایمان لے ائٓی ہے تو ضرور اس کی وجہ یہ ہے کہ جادوگروں پر یہ منکشف ہوگیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی رسالت برحق ہے، اور انہوں نے جو یہ کہا ہے کہ اس تمام کائنات کا صرف ایک خدا ہے اور اس کے علاوہ فرعون، افالک، سیارے اور اس کائنات کی ہر چیز اللہ بلندو برتر کی مخلوق ہے سو ان کا یہ کہنا بھی برحق ہے، اس لئے فرعون نے سوچا کہ اب کسی طریقہ سے عوام کو حضرت موسیٰ اور ان جادوگروں سے متنفر اور برگشتہ کرنا چاہیے ورنہمصر میں اس کی خدائی کا بھرم قائم نہیں رہے گا اور اس کی الوہیت کا طلسم ٹوٹ جائے گا سو اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور جادوگروں سے عوام کو متنفر کرنے کے لئے حسب ذیل نکات اٹھائے۔
(١) اس نے جادوگروں سے کہا تم میری اجازت سے پہلے (حضرت) موسیٰ پر ایمان لے ائٓے۔ اس قول سے اس نے یہ وہم ڈالا کہ اس قدر سرعت کے ساتھ تمہارا (حضرت) موسیٰ پر ایمان لانا یہ بتاتا ہے کہ تم پہلے سے ان کی طرف مائل تھے اور اس بات میں جادوگروں پر یہ تہمت لگائی کہ انہوں نے حضرت موسیٰ سے جادو کے معا قبلہ میں اپنے مکمل فن اور مہارت کا اظہار نہیں کیا اور عمداً جلدی شکست کھا گئے۔
(٢) پھر کہا یقیناً وہی تمہارا بڑا ماہر جادو گر ہے جس نے تمہیں جادو سکھایا ہے۔ اس قول میں اس نے جادوگروں پر یہ الزام لے گیا تاکہ درحقیقت تم موسیٰ ہی کے شاگرد ہو اور تمہاری آپس میں یہ سازش اور ملی بھگت تھی کہ معمولی مقابلہ کر کے تم ہار جائو، اس لئے تمہارا یہ مقابلہ دراصل نورا کشتی تھی ورنہ ان جادوگروں کے پاس بھی ایسی قوت تھی جیسی موسیٰ کے پاس ہے، اس طرح اس نے عوام کے سامنے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی کامیابی کے تاثر کو زائل کرنے کی کوشش کی۔
(٣) پھر اس نے کہا عنقریب تمہیں معلوم ہوجائے گا۔ اپنے اس قول سے اس نے ساحروں کو شدید وعید سنائی اور بہت بڑی دھمکی دی۔
(٤) نیز فرعون نے کہا میں ضرور تمہارے ہاتھوں اور پیروں کو (ہر ایک ٍ کی) مقابل جانب سے کاٹ ڈالوں گا یعنی سیدھا ہاتھ اور الٹا پیر اور میں ضرور تم سب کو صلیب (سولی) پر لٹکا دوں گا۔
صلیب کا معنی
صلیب کا معنی ہے چوبی (لسان العرب ْ ١ ص 528) اور تصلیب کا معنی ہے کسی شخص کے دونوں ہاتھوں کو T کی شکل میں پھیلا کر اس کو لٹکا دینا، روایت ہے کہ فرعون نے ان کو درختوں کے تنوں پر لٹکا دیا حتیٰ کہ وہ فوت ہوگئے (روح البیان ج ٦ ص 353) داراحیاء التراث العربی بیروت) نیز لکھا ہے کہ قتل کے لئے انسان کو لٹکا دینا، ایک قول ہے اس کی پشت کو لکڑی پر بادنھ دینا، اس نے ایک لمبے عرصہ تک ان کو اس لکڑی کے ساتھ باندھے رکھا تھا اور فرعون وہ پہلا شخص تھا جس نے کسی کو سولی پر چڑھایا تھا۔ (روح البیان ج ٥ ص 483-484) نیز اردو کی لغات میں مقروم ہے : سولی کا معنی ہے ایک چوبی (لکڑی کا) آلہ جس میں مجرموں کو ہاتھوں اور پائوں میں میخیں ٹھونک کر لٹکا دیتے تھے، (فیروز اللغات اردو ص 821) صلیب اس شکل+ کی لکڑی جس پر عیسائیوں کو لٹکا کر ہلاک کرتے تھے (فیروز اللغات ص 865) امام رازی نے لکھا ہے کہ کسی شخص کو ہلاک کرنے کے لیء اس سے قوی اور کوئی ذریعہ نہیں ہے۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 49