أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالَ لَهُمۡ مُّوۡسٰۤى اَلۡقُوۡا مَاۤ اَنۡتُمۡ مُّلۡقُوۡنَ ۞

ترجمہ:

موسیٰ نے ان سے کہا تم ان چیزوں کو ڈالو جن کو تم ڈالنے والے ہو

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : موسٰی نے ان سے کہا تم ان چیزوں کو ڈالو جن کو تم ڈالنے والے ہو۔ تو انہوں نے اپنی رسایں اور اپنی لاٹھیاں ڈلایں اور کہا فرعون کی عزت کی قسم ! یقینا ہم ہی غالب ہیں۔ پس موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا تو اچانک وہ ان کی شعبدہ بازیوں کو نگلنے لگا۔ تو اسی وقت تمام جادوگر سجدہ میں گرگئے۔ انہوں نے کہا ہم رب العالمین پر ایمان لے آئے۔ جو مسیٰ اور ہارون کا رب ہے۔ (الشعرائ :43-48)

اس کی توجیہات کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جادوگروں کو پہلے لاٹھیاں اور رسیاں ڈالنے کا حکم دیا

جب حضرت موسیٰ اور جادوگر مقابلہ کے لئے جمع ہوئے تو ضروری تھا کہ مقابلہ کی ابتداء دونوں فریقوں میں سے کوئی ایک کرتا، جادوگروں نے تواضح کی اور کہا اے موسیٰ یا آپ پہلے ڈلایں یا ہم پہلے ڈالنے والے بن جائیں۔ (طہ : ٦٥) جب انہوں نے تواضع کی تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی تواضح سے کام لیا اور فرمایا : تم ان چیزوں کو ڈالو جن کو تم ڈالنے والے ہو۔

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ جادوگروں کا لاٹھیوں اور رسیوں کا ڈالنا، جادو تھا اور کفر تھا، تو حضرت موسیٰ کے لئے کس طرح جائز ہوگیا کہ وہ ان کو جادو کرنے اور کفر کرنے کا حکم دیں، اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا منشاء یہ تھا کہ وہ ایمان لے آئیں اور ان کا ایمان لانا اس پر موقوف تھا کہ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مقابلہ کریں اور مقابلہ میں شکست کھا کر حق کا اعتراف کرلیں، اس لئے امام رازی نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس حکم کی تاویل یہ کی ہے کہ اگر تم برحق ہو تو ڈالو جو ڈالنا چاہتے ہو، اور یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم اس قرآن کی کسی سورت کو مثل بنا کر لائو اگر تم سچے ہو۔ (البقرہ : ٢٣) اس کا ایک اور جواب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ ظاہر کیا کہ ان کے نزدیک ان کے جادو کی کوئی اہمیت نہی ہے اور حضرت موسیٰ کو ان کی کوئی پرواہ نہیں ہے، سو وہ جو کرنا چاہیت ہیں وہ کریں، ایک اور جواب یہ ہے کہ اگر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پہلے ہی اپنا عصا ڈال دیتے تو تمام جادوگر اور عوام اس سے خوف زدہ ہو کر بھاگ جاتے اور یہ مقابلہ منعقد نہ ہوتا اور نہ حضرت موسیٰ کا جادوگروں پر غلبہ ظاہر ہوتا اور نہ جادوگروں کے ایمان لانے کا واقعہ ہوتا، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت یہی تھی کہ پہلے جادوگر اپنی لاٹھیاں اور رسیاں ڈالیں اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان سے فرمایا : تم ان چیزوں کو ڈالو جن کو تم ڈالنے والے ہو۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 43