كَذٰلِكَؕ وَاَوۡرَثۡنٰهَا بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَؕ ۞- سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 59
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
كَذٰلِكَؕ وَاَوۡرَثۡنٰهَا بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَؕ ۞
ترجمہ:
یہ واقعہ اسی طرح ہوا اور ہم نے بنی اسرائیل کو ان کا وارث بنایا
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : یہ واقعہ اسی طرح ہوا، اور ہم نے بنی اسرئایل کو ان کا وارث بنایا۔ سو دن کے روش ہوتے ہی فرعونیوں نے ان کا پیچھا کیا۔ پھر جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا تو اصحاب موسیٰ نے کہا ہم یقیناً پکڑ لئے گئے۔ موسیٰ نے کہا ہرگز نہیں ! بیشک میرے سات ھمیرا رب ہے جو یقیناً میری رہنمائی فرمائے گا۔ (الشعراء :59-62)
بنی اسرائیل کو کس سرزمین کا وارث بنایا گیا تھا ؟
اللہ تعالیٰ نے بنو اسرائیل کو فرعونیوں کی کس چیز کا وارث بنایا تھا ؟ بعض مفسرین نے کہا اس سے مراد وہ چیزیں ہیں جن کا اس سے پہلے آیتوں میں ذکر ہے، یعنی باغات، چشمے، خزانے اور عمدہ رہائشی مکان، حسن بصری وغیرہ نے کہا اس سے مراد یہ ہے کہ فرعون اور اس کی قوم کو ہلاک کرنے کے بعد بنو اسرائیل کو مصر میں آباد کردیا، ایک قول یہ ہے کہ بنو اسرئایل نے قبطیوں سے عاریتاً زیورات لئے تھے جن کو وہ مصر سے جاتے وقت اپنے ساتھ لے گئے تھے اس وراثت سے وہ زیورات مراد ہیں، لیکن یہ صحیح نہیں ہے، قوم کو دی ہوئی نعمتوں کے وارث بنانے کا ذکر اس آیت میں بھی ہے۔
(الدخان : ٢٨) ہم نے ان کا وارث کسی دوسری قوم کو بنایا۔
سورۃ الدخان کی اس آیت میں ہرچند کہ قوم کا لفظ عام ہے لیکن جب سورة الشعراء میں بنی اسرائیل کو وارث بنانے کی تصریح آگئی ہے تو سورة الدخان میں قوم سے مراد بنی اسرائیل ہی ہے۔
علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :
پہلی دو آیتوں کا معنی یہ ہے کہ دن چڑھنے کے بعد فرعون اور اس کی قوم نے بنو اسرائیل کا تعاقب کیا لیکن ہم نے ان کو سمندر میں غرق کردیا اور بنو اسرائیل کو ان کے شہروں کا وارث کردیا۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٣ ص ٩٩ مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)
واضح رہے کہ فرعون کے شہروں سے مراد سر زمین مصر کے شہر میں سو علامہ قرطبی کی تفسیر کا معنی یہ ہوا کہ بنو اسرائیل کو مصر کے شہروں کا وارث بنادیا لیکن یہ تفسیر صحیح نہیں ہے، کیونکہ خود قرآن مجید میں تصریح ہے کہ مصر سے نکلنے کے بعد بنی اسرائیل کو ارض مقدسہ میں داخل ہونے کا حکم دیا گیا تھا، اور ان کے انکار کرنے کے بعد ان کو چالیس سال تک میدان تیہہ میں بھٹکنے کے لئے چھوڑدیا گیا، اس کے بعد وہ ارض مقدسہ میں داخل ہوئے، جہاں پر بیت المقدس ہے، اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قبر بھی ارض مقدسہ میں ہی ہے، چناچہ صحیہ حدیث میں ہے : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان سے روایت ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہان کو موت کے وقت ارض مقدسہ کے اتنا قریب کر دے جتنا ایک پتھر پھینکنے کا فاصلہ ہوتا ہے، حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اگر میں اس جگہ ہوتا تو تم کو راستے کی ایک جانب سرخ ریت کے ٹیلے کے پاس حضرت موسیٰ کی قبر دکھاتا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٣٩، صحیح مسلم رقم الحدیث ٢٣٧٢، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٠٨٩)
حافظ شہاب الدین ابن حجر عسقلانی شافعی متوفی ٨٥٢ ھ اور حافظ بدر الدین عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
ابن التین نے کہا ارض مقدسہ شام ہے، اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بیت المقدس کے قریب دفن ہونے کا سوال کیا تھا کیونکہ بیت المقدس ارض مقدسہ میں ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ارض مقدسہ کے قریب دفن ہونے کی اس لئے دعا کی تھی کہ ان کا مطلب ان انبیاء (علیہم السلام) کا قرب تھا جو بیت المقدس میں مدفون تھا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو بیت المقدس میں داخل ہونے سے روک دیا تھا اور ان کو چالیس سال تک میدان تیہ میں چھوڑ دیا، حتیٰ کہ ان کو موت نے فنا کردیا۔ پس ارض مقدسہ میں حضرت یشع کے ساتھ صرف ان کی اولاد داخل ہوسکی تھی اور ان لوگوں میں سے کوئی بھی ارض مقدسہ میں داخل نہیں ہوسکا تھا جنہوں نے پہلے ارض مقدسہ میں داخل ہونے سے انکار کیا تھا اور ارض مقدسہ کے فتح ہونے سے پہلے حضرت ہارون (علیہ السلام) فوت ہوئے اور پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) فوت ہوگئے اور چونکہ جبارین کا ارض مقدسہ پر غلبہ تھا اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو ارض مقدسہ میں داخل ہونے کا موقع نہیں مل سکا، اس لئے انہوں نے چاہا کہ وہ ارض مقدسہ کے قرب میں مدفون ہو اجئیں۔ (فتح الباری ج ٣ ص 568 دارالفکر، بیروت ١٤٢٠ ھ عمدۃ القاری ج ٨ ص 149 ادارۃ الطباعتہ المنیر یہ مصر ١٤٣٩ ھ) اس تفصیل سے واضح ہوگیا کہ بنو اسرائیل مصر سے نکلنے کے بعد مصر میں نہیں گئی بلکہ چالیس سال تک میدان تیہ میں بھٹکتے رہے۔ اس کے بعد ارض مقدسہ میں گئی جہاں بیت المقدس ہے اور وہ فلسطین میں ہے نہ کہ مصر میں، سو علامہ قرطبی اور بعض دیگر مفسرین کا یہ لکھنا صحیح نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو فرعون کے شہروں کا وارث کردیا تھا، بلکہ صحیح یہ ہے کہ اس آیت کا محمل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو مصر سے نکلنے کے بعد فلسطین کا وارث کردیا تھا۔
امام عبدالرزاق، امام عبن بن حمید، امام ابن المنذر، امام ابن عساکر اور امام ابن ابی حاتم نے کہا :
اللہ تعالیٰ نے بنو اسرئایل کو جس سر زمین کا وارث کیا تھا اس کا ذکر اس آیت میں ہے :
(الاعراف : ١٣٧) اور جس قوم کو کمزور سمجھا جاتا تھا اس کو ہم نے اس سر زمین کے مشارق اور مغارب کا وارث بنادیا جس میں ہم نے برکتیں رکھی تھیں۔
اور جس سر زمین میں اللہ تعالیٰ نے برکتیں رکھی ہیں وہ شام ہے، حدیث میں ہے :
حضرت عبداللہ بن عمر(رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دعا کی : اے اللہ ! ہمارے شام اور ہمارے یمن میں برکت دے ! مسلمانوں نے کہا اور ہمارے نجد میں، آپ نے دعا کی اے اللہ ہمارے شام اور ہمارے یمن میں برکت دے، مسلمانوں نے کہا اور ہمارے نجد میں، آپ نے فرمایا وہاں لزلزے آئیں گے اور فتنے نمودار ہوں گے اور وہیں سے شیاطن کا سینگ طولع ہوگا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٠٣٧، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٩٥٣ مسند احمد رقم الحدیث : ٥٦٤٢ )
امام عبدالرزاق متوفی ٢١١ ھ، امام ابن جریر متوفی 310 ھ اور امام ابن ابی حاتم متوفی 327 ھ نے اپنی سندوں کے ساتھ حسن بصری اور قتادہ سے روایت کیا ہے کہ الاعراف : ١٣٧ میں جس سر زمین کا ذکر ہے اس سے مراد شام ہے۔
(تفسیر امام عبدالرزاق ج ١ ص 321 جامع البیان جز ٩ ص ٥٨ تفسیر امام ابن ابی حاتم ج ٥ ص 1551)
امام ابو القاسم علی بن الحسن ابن العسا کر المتوفی 571 ھ اپنی اسانید کے ساتھ روایت کرتے ہیں :
ابوسلام الاسود نے کہا شام میں برکت دگنی چوگنی ہوتی ہے۔
مکحول نے ایک شخص سے کہا تم شام میں کیوں نہیں رہتے وہاں برکت دگنی چوگنی ہوتی ہے۔
یحیٰ بن یحییٰ نے کہا مجھے سے عبیدبن یعلیٰ نے کہا وہ بیت المقدس کے رہنے والے تھے وہ اس وقت عسقلان میں تھے اور فلسطین سے دمشق میں آگئے تھے انہوں نے کہا شم کی تمام برکتیں دمشق میں ہیں
(تاریخ دمشق الکبیر ج ١ ص ٥٨١‘ مطبوعہ دارلحیاء التراث ‘ العربی بیرو ت ‘ ١٠٤١ ھ)
حفاظ جلال الدین السیوطی نے امام ابو الشیخ سے روایت کیا ہے کہ اس سرزمین کا بنو اسرائیل کو وارث بنایا گیا وہ مصر نہیں بلکہ فلسطین ہے
(در منثورج ٣ ص ٥٨٤‘ مطبوعہ دارالحیاء التراث العربی بیروت ١٢٤١ ھ)
بہر حال ہمارے تزدیک راجح یہ ہے کہ جس سرزمین کا بنو اسرائیل کو وارث بنایا گیا وہ مصر نہیں ہے بلکہ وہ فلسطین ہے کیونکہ الا عراف ٧٣١ میں فرمایا ہم نے بنی اسرائیلی کو اس زمین کا وارث بنایا ہے جس کے ارد گرد برکتیں ہیں اور بنی اسرائیل ١ میں فرمایا ہے مسجد اقصیٰ کے اور گرد برکتیں ہیں اور مسجد اقصیٰ ارض مقدسہ میں ہے اور وہ فلسطین میں ہے ہم نے الا عراف ٧٣١ میں بھی اس سززمینکے متعلق متعدد اقوال نقل کیے ہیں جس کا بنو اسرائیل کو وارث بنایا گیا تھا لیکن ہمارے نزدیک راجح یہی ہے کہ اس سرزمین سے مراد فلسطین ہے۔ فلسطین کبھی شام کا ایک صوبہ تھا لیکن آ ج کل یہ الک الگ ملک ہے جس کا بیشتر حصہ اسرائیل کے تحت ہے اور کچھ اردن کا حصہ ہے اور مسجد اقصیٰ اسی حصہ بیت المقدس کے شہر میں ہے احادیث میں جو شام کو برکت والا شہر قرار دیا ہے وہ بنو اسرائیل کو فلسطین کا وارث بنانے کے خلاف نہیں ہے کیونکہ پہلے فلسطین شام ہی کا ایک صوبہ تھا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 59