أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِنَّا لَجَمِيۡعٌ حٰذِرُوۡنَؕ‏ ۞

ترجمہ:

اور بیشک ہم لوگ ان سے محتاط ہیں

الشعرائ : ٥٦ میں خذرون ہے، بعض قرأت میں حاذرون ہے، حذر کا معنی دشمن کے شر سے خائف اور خبردار رہنا، زجاج نے کہا اس کا معنی ہے مستعد اور بیدار دماغ، فراء نے کہا اس کا معنی ہے خوف کے سبب سے کسی چیز سے اجتناب کرنا پرہیز کرنا اور احتیاط کرنا، جیسے ذیابیطس کا میرض میٹھی اور نشاستہ دار چیزوں سے پرہیز کرتا ہے تاکہ شوگر بڑھے اور ہائی بلڈ پر یرش کا میرض فالج اور دماغ کی شریان پھٹنے کے خطرے سے نمک سے پرہیز کر ات ہے اور جس کا کلیسٹرول بڑھا ہوا ہو وہ چکنائی سے پرہیز کرتا ہے، واضح رہے کہ چکنائی کی زیادتی سے کمر کا درد بھی زیادہ ہوتا ہے۔ غرض فرعون نے کہا ہم خذرون ہیں یعنی ہمیں احتیاط کرنی چاہیے اور مستعد رہنا چاہیے اور ہتھیاروں سے مسلح ہو کر ان کا پیچھا کرنا چاہیے۔ باغات سے مراد وہ درخت ہیں جو دریائے نیل کے دونوں کناروں پر اگے ہوئے تھے اور چشموں سیم راد دریائے نیل سے نکلنے والی نہریں ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 56