(۱۰) کافر سے ہدیہ لیا جا سکتا ہے

۱۰۴۔ عن عبد اللہ الہوزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال : لقیت بلا لا موذن رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بحلب فقلت :یا بلال! حدثنی کیف کانت نفقۃ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ؟قال: ما کان لہ شئی کنت أنا الذی اِلی ذلک منہ منذ بعث اللہ تعالیٰ حتی توفی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ، و کان اِذا أتاہ مسلما فراہ عاریا ، یامرنی فانطلق فاستقرض فاشتری لہ البردۃ فأکسوہ و أطعمہ حتی اعترضنی رجل من المشرکین فقال: یا بلال ! اِن عندی سعۃ فلا تستقرض من أحد اِلا منی ففعلت ، فلما اِن کان ذات یوم توضات ثم قمت لاؤذن بالصلوۃ فاِذا المشرک قد أقبل فی عصابۃ من التجار فلما أن رانی قال :یا حبشی! قلت : یا لباہ ، فتجہمنی و قال لی قولا غلیظا: و قال لی : أتدری کم بینک و بین الشمیر قال :قلت : قریب، قال: اِنما بینک و بینہ أربع ، فأخذک بالذی علیک فأردک لرعی الغنم کما کنت قبل ذلک ، فأخذ فی نفسی ما یأخذ فی أنفس الناس حتی اِذا صلیت العتمۃ رجع رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم اِلی أہلہ فاستاذنت علیہ فأذن لی ، قلت : یا رسو ل اللہ ! بأبی أنت واُمی ، ان المشرک الذی کنت أتدین منہ قال لی: کذا و کذا ۔ ولیس عندک ما تقضی عنی و لا عندی وہو فاضحی فأذن لی أن أبق اِلی بعض ہؤلاء الأحیاء الذین قد أسلموا حتی یرزق اللہ تعالیٰ رسولہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ما یقضی عنی فخرجت، حتی اِذا أتیت منزلی فجعلت سیفی و جرابی و نعلی و مجنی عند راسی حتی اِذا اِنشق عمود الصبح الأول أردت أن أنطلق فاِذا اِنسان یسعی یدعوا یا بلال! أجب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فانطلقت حتی أتیتہ فاِذا أربع رکائب مناخات علیہن أحمالہن فاستاذنت فقال لی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم: أبْشِرْ فَقَدْ جَائَ کَ اللّٰہُ تَعَالیٰ بِقَضَائِکَ ، ثُم قال : أ لَمْ تَرَالرَّکَائِبَ الْمُنَاخَاتِ الْأرْبَعِ فَقُلْتُ: بَلی ، فقا ل: اِنَّ لَکَ رِقَابَہُنَّ وَ مَا عَلَیْہِنَّ ، فَاِنَّ عَلَیْہِنَّ کِسْوَۃً وَ طَعَامًا أہْدَاہُنَّ اِلیّ عَظِیْمُ فِدَکٍ فَاقْبِضْہُنَّ وَ اقْضِ دَیْنِکَ ، فَفعلت فذکرالحدیث ثم انطلقت اِلی المسجد ، فاِذا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قاعد فی المسجد فسلمت علیہ فقال : مَا فَعَلَ مَا قِبَلَکَ ؟ قلت : قَد قضی اللہ کل شیٔ کان علی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فلم یبق شیٔ،قال :أ فَضَلَ شَیٌٔ ، قلت: نعم، قال:اُنْظُرْ اَنْ تُرِیْحَنِی مِنْہٗ فَاِنِّی لَسْتُ بِدَاخِلِ عَلیٰ أحَدٍ مِنْ أہْلِی حَتّی تُرِیْحَنِی مِنْہٗ ، فلما صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم العتمۃ دعانی فقال : مَا فَعَلَ الَّذِی قِبَلَکَ ، قال : قلت : ہو معی لم یاتنا أحد، فبات رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فی المسجد و قص الحدیث حتی اذا صلی العتمۃ ، یعنی من الغد د عانی قال: مَا فَعَلَ الّذِی قِبَلَکَ ؟ قال : قلت: قد أراحک اللہ منہ یا رسول اللہ! فکبر و حمد اللہ شفق من أن یدرکہ الموت و عندہ ذلک ، ثم أتبعتہ حتی اذا جآء أزواجہ فسلم علی اِمرۃ اِمراۃ حتی أتی مبیتہ فہذا الذی سالتنی منہ ۔

حضرت عبد اللہ ہوزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملاقات کی حلب میں ۔ تو میں نے کہا:اے بلال! حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے اخراجات کے بارے میں بیان کرو کہ کس طرح خرچ فرماتے تھے۔ حضرت بلال نے کہا : آپ کے پاس کوئی چیز نہ ہوتی تو میں ہی اسکا بند وبست کرتا ۔یہ سلسلہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی تاحیات مقدسہ جاری رہا ۔ حضور کے پاس اگر کوئی شخص ننگا آتا تو آپ مجھے حکم دیتے ۔ میں قرض لیکر اسکو چادر خرید دیتا،پھر اسکو پہنادیتا ،اور کھانا کھلاتا ۔ ایک دن ایک مشرک ملا تو کہنے لگا : اے بلال! میرے پاس بہت مال ہے ۔لہذا میرے سوا کسی دوسرے سے تم قرض نہ لیا کرو ۔میں نے ایسا ہی کیا ۔ ایک دن میں وضو کر کے اذان پڑھنے کیلئے کھڑا ہوا تو وہی مشرک سوداگروں کا ایک قافلہ لیکر آپہونچا۔ مجھے دیکھ کر بولا: اے حبشی ! میں نے کہا: میں حاضرہوں ۔ وہ سختی کرنے لگا اور نازیبا کلمات بکنے لگا اور بولا: جانتا ہے مہینہ پورا ہونے میں کتنے دن باقی ہیں ۔ میں نے کہا: ہاں قریب ہے ۔بولا : دیکھ مہینے میں چار دن باقی ہیں۔ میں اپنا قرض تجھ سے لیکر چھوڑونگا ،اور تجھے ایسا ہی کردونگا جیسے تو پہلے بکریاں چرایا کرتا تھا۔ حضرت بلال کہتے ہیں: میرے دل میں ایسا ملال گذرا جیسے لوگوں کے دل میں گذرتا ہے ۔ پھر میں نے عشا کی نماز پڑھی اور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے اندر آنیکی اجازت چاہی ۔آپ نے اجازت مرحمت فرمائی۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ، میرے ماں باپ آپ پر قربان ، وہ مشرک جس سے میں قرض لیا کرتا تھا ۔ مجھ سے لڑا اور کچھ نازیبا کلمات سے پیش آیا ، آپ کے پاس بھی اتنا ما ل نہیں کہ میرا قرضہ ادا ہو جائے اور نہ میرے پاس ہے ۔ لہذا و ہ مجھے ذلیل کریگا ۔ آپ مجھے اجازت عطا فرمادیں کہ میں مدینہ سے باہر مسلمانوں کی کسی قوم کے پاس چلاجائو یہاں تک کہ اللہ عزوجل اپنے رسو ل کو اتنا مال عطا فرمائے جس سے میرا قرضہ ادا ہوجائے ۔ یہ کہہ کر میں نکل آیا اور اپنے مکان پر گیاا ور تلوار ، موزہ جوتی اور ڈھال کو اپنے سرہانے رکھا ۔ یہاں تک کہ جب پوپھٹی تو میں نے بھاگنے کا ارادہ کیا کہ اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص تیزی سے آیا اور بولا: اے بلال! تم کو حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے یاد فرمایا ہے ۔ میں حضور کی خدمت میں حاضر آیا تو کیا دیکھتا ہوں چار جانور لدے بیٹھے ہیں، میں نے اندر آنیکی اجازت چاہی ۔ آپ نے فرمایا: اے بلال ! خوش ہوجائو، اللہ تعالی نے تیرا قرض ادا کر نے کیلئے مال بھیجا ہے ۔پھر فرمایا: کیا تم نے چار جانور لدے ہوئے نہیں دیکھے ہیں؟ میں نے عرض کیا: کیوں نہیں ۔ آپ نے فرمایا: جائو جانور بھی تم لے لو اور جو ان پر اسباب لدا ہے وہ بھی لے لو ۔ ان پر کپڑا اور غلہ لدا ہے جو مجھے فدک کے رئیس نے بھیجا ہے ۔ جائو اپنا قرض ادا کردو ۔میں نے ایسا ہی کیا، پھر میں مسجد نبوی میں آیا تو میںنے دیکھا کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما ہیں۔میں نے سلام کیا : آپ نے فرمایا :اس مال سے تمہیں کیا فائدہ ہوا ؟ میں نے عرض کی :اللہ تعالیٰ نے وہ تمام قرض ادا کرادیاجو مجھ پر تھا ۔ آپ نے فرمایا : اے بلال! کیا اس مال سے کچھ بچا ہے؟ میں نے کہا: ہاں، فرمایا: اس مال کو جلدی خرچ کر ڈال ۔ میں گھر نہیں جائونگا جب تک تو مجھے بے فکر نہیں کر دیگا ۔پھر رات کو حضور سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم عشا کی نماز سے فارغ ہوئے تو مجھے بلایا ، فرمایا :اے بلال! کیا ہوا وہ مال جو بچ گیا تھا ؟ میں نے عرض کیا: آج پورے دن کوئی لینے والا نہیں آیا ۔ اس رات حضور مسجد نبوی ہی میں رہے اور لوگوں کو احادیث مبارکہ سے نوازتے رہے۔ دوسرا دن جب ہوا اور نماز عشا سے فارغ ہوئے تو مجھے بلایا اور فرمایا : کیا ہوا وہ مال جو تیرے پاس بچ رہا تھا؟ میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ! میں نے آپ کو بے فکر کر دیا ،یہ سن کر حضور نے تکبیر کہی اور شکر الہی ادا کیا اس بات پر کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ میں انتقا ل کر جائوں اور یہ مال میری ملکیت میں رہ جائے ۔ پھر میں حضور کے ساتھ ہو لیا، حضور اپنی ازواج مطہرات کے پاس تشریف لائے اور سب کو فرداً فرداً سلام کیایہاں تک کہ سونے کی جگہ تشریف لائے ۔ تو اے عبد اللہ !جس کے بار ے میں تم نے مجھ سےپوچھاوہ یہ ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۱۰۴۔ السنن لابی داؤد ، الخراج ، ۲/۴۳۴ ٭ المسند لاحمد بن حنل ، ۵/۴۲۵