گواہ بننے سے انکار
sulemansubhani نے Wednesday، 17 June 2020 کو شائع کیا.
گواہ بننے سے انکار
حضرت نعمان بن بشر اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ
انہ اتیٰ رسول اللہ ﷺ بان لہ یحملہ
انکے باپ اپنے بیٹے کو اٹھاکے لیکر بارگاہ رسالت میں آئے
فقال یا رسول اللہ ﷺ انی نحلت لابنی غلاما وانا ان تحب ان تشھد
اور عرض کی اے الہ کے رسول ﷺ میں نے اپنے بیٹے کو غلام دیا اور پسند کرتا ہوں کہ آپ گواہ ہوں
فقال لک ابن غیرہ
آپنے فرمایا تمہارے اور بھی کوئی بیٹا ہے؟
قال نعم عرض کی ہاں،قال فکلھم نحلت مثل ما نحلت
فرمایا کیا جیسے تمنے اسکو دیا سب کو دیا؟
قال :لا عرض
کی نہیں
قال لا اشھد علیٰ ذا
فرمایا میں اس پر گواہ نہ بنوں گا (ابو نعیم،کنز العمال ج۱۶ ص ۵۸۵)
حضرت سھل بن سعد سے روایت ہے آپنے فرمایا
اتی النبی ﷺ رجل بان لہ وغلام فقال یا رسول اللہ اشھد بغلامی ھذا لابنی ھذا
ایک شخص اپنے بیٹے اور غلام کو لیکر بارگاہ رسالت میں آیا اور عرض کی اے اللہ کے رسول میرے اس غلام کے میرے اس بیٹے کے لئے گواہ بن جایئں
قال الکل ولدک جعلت مثل ھذا
فرمایا کیا تمنے اپنے ہر بیٹے کے لئے ایسا کیا؟
قال :لا قال:لا اشھد علیٰ رغیف محترق
عرض کی نہیں آپنے فرمایا میں گواہ نہ بنوں گا اگر چہ جلی ہوئی روٹی پر ہو (ابن نجار،کنز العمال ج۱۶ ص ۵۸۶)
اولاد کی دلشکنی نہ کرو
ان دو حدیثوں سے معلوم ہوا کہ سرور عالم ﷺ نے اولاد میں ناانصافی کی بات تھی اس لئے گواہ بننے سے منع فرما دیا اور یہ فرمایا کہ تم اپنی بعض اولاد کو دوسرے بعض کو چھوڑ کر قیمتی چیز نہیں جلی ہوئی روٹی دینا چاہوتو اس پر بھی میں گواہ بننا پسند نہیں کرتا،اس لئے کہ اولاد میں ناانصافی اچھی نہیں، اس سے معاشرتی محبتوں میں کمی آتی ہے،اور اس طرح کی ناانصافیوں سے باہم دشمنی ہونے کا بھی قوی امکان ہے،اس لئے اس طرح کے کام نہیں کرنے چاہیئے،غور کیجیئے کہ ہمارے آقا ﷺ نے تو یہاں تک تلقین فرمائی کہ بوسہ لینے میں بھی انصاف کا خیال رکھنا چاہیئے ،اور ظاہر سی بات ہے کہ سبھی اپنی اولاد ہیں تو سبھی کہ ہم والدین ہوئے ان سب کو والدین سے لگاوٗ بھی ہوتا ہے اور امید بھی ہوتی ہے ایسی صورت میں والدین کا کسی ایک طرف جھک جانا دوسروں کی دلشکنی کا باعث کیوں نہ ہوگا؟
شبہ کا ازالہ
سوال۔اولاد اگر اس بات کی اجازت دے تو ایسا کیا جاسکتا ہے؟
جواب۔ناانصافی اس صورت میں نہیں ہے اس لئے کہ اولاد نے ملکر کسی ایک کو دینے کی اجازت عطا فرما دی ہے،مگر وہ اجازت برضا و خوشی ہونی چاہیئے
سوال ۔جو مال والدین کا اپنا ہے وہ اپنی حیاتی میں چاہے اسے دی سکتے ہیں تو پھر یہ پابندی کیوں؟؎
جواب۔ہاں مالک اپنا مال چاہے اسے دے سکتا ہے دینے سے ممانعت نہیں ہے لیکن عدل و مساوات کی نصیحت انجام کار کو دیکھ کر ہے، ایسا کر تو سکتے ہیں مگر اس کا نتیجہ اچھا نہیں ہے،اس لئے ایسا نہیں کرنا چاہیئے،یہ حکم واجب اور ضروری نہیں ہے ہمارے خاندانی مفاد کا خیال رکھ کر ہے اسکا فائدہ ہماری طرف لوٹنے والا ہے،اور نہ کریں گے تو اسکا نقصان ہماری طرف پلٹ کر آنے والا ہے،اس لئے اس بات کو فراموش نہ کرنا چاہیئے،اور اس معامیہ میں لڑکیوں کی دلشکنی تو کبھی نہ ہونی چاہیئے،اور لئے کہ وہ بہت کمزور دل کی ہوتی ہیں،کچھ بولتی تو نہیں مگر اندر ہی اندر پگھلتی رہتی ہیں