حدیث نمبر 449

روایت ہے حضرت مغیرہ سے فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک قیام فرمایا کہ آپ کے قدم سوج گئے ۱؎ آپ سے عرض کیا گیا کہ ایسا کیوں کرتے ہیں آپ کے تو اگلے پچھلے بخش دیئے گئے ۲؎ تو فرمایا کیا میں بندہ شاکر نہ ہوؤں ۳؎ (مسلم،بخاری)

شرح

۱؎ دراز قیام کے باعث یعنی تہجد میں اتنا دراز قیام فرمایا کہ کھڑے کھڑے قدم پر ورم آگیا یہ حدیث شبینہ پڑھنے والوں اور ان صوفیاکی دلیل ہے جو تمام رات نماز پڑھتے ہیں جیسے حضور غوث پاک اور امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہم اجمعین ان بزرگوں پر اعتراض نہ کرو۔

۲؎ یعنی یا حبیب اللہ اتنا لمبا قیام ہم لوگ کریں تو مناسب ہے کہ ہم گنہگار ہیں اللہ تعالےٰ اس کی برکت سے ہمارے گناہ بخش دے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے پھر اتنی مشقت کیوں اٹھاتے ہیں۔خیال رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اگلے پچھلے گناہ بخشنے کی بہت توجیہیں عرض کی جاچکی ہیں جن میں سے ایک یہ ہے جو ابھی عرض کی گئی۔

۳؎ یعنی میری یہ نماز مغفرت کے لیئے نہیں بلکہ مغفرت کے شکریہ کے لیئے ہے۔خیال رہے کہ ہم لوگ عبد ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم عبدہٗ ہیں،ہم لوگ شاکر ہوسکتے ہیں حضور صلے اللہ علیہ وسلم شکور ہیں یعنی ہر طرح ہر وقت ہر قسم کااعلی شکرنے والے مقبول بندے۔حضرت علی فرماتے ہیں کہ جنت کی لالچ میں عبادت کرنے والےتاجر ہیں،دوزخ کے خوف سے عبادت کرنے والے عبد ہیں مگر شکر کی عبادت کرنے والے احرار ہیں۔(ربیع الابرار و مرقاۃ)