اِذۡ قَالَ لِاَبِيۡهِ وَقَوۡمِهٖ مَا تَعۡبُدُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 70
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اِذۡ قَالَ لِاَبِيۡهِ وَقَوۡمِهٖ مَا تَعۡبُدُوۡنَ ۞
ترجمہ:
جب انہوں نے اپنی عرفی باپ اور اس کی قوم سے کہا تم کسی کی عبادت کرتے ؟
قوم کا معنی اور مصداق
الشعراء ۷۰ میں فرمایا جب انہوں نے اپنے (عرفی) باپ اور اس کی قوم سے کہا تم کس کی عبادت کرتے ہو ؟ عرفی باپ سے مراز آزر ہیں یہ حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے چچا تھے اور عرب کے عرف میں چچا پر بھی باپ کا اطلاق کردیا جاتا ہے اور حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کے باپ کا نام تارخ تھا جیسا کہ الانعام ۷۴میں تفصیل سے بیان کرچکے ہیں ‘ دیکھیے تبیان القرآن ج ٣ ص ٩٥٣-٤٥٣ )
قوم کا معنی بیان کرتے ہوئے علامہ راغب اصفہانی متوفی ٢٠٥ لکھتے ہیں قوم اصل میں صرف مردوں کی جماعت کو کہتے ہیں جس میں عورتیں نہ ہوں ‘ قرآن مجید میں جب عوماً قوم کا اطلاق کیا جاتا ہے تو اس سے مراد مردوں اور عورتوں دونوں کا ارادہ کیا جاتا اور قوم کی حقیقت مردوں کے لیے ہے قرآن مجید میں ہے مرد عورتوں پر قوام ( حاکم یا منتظم) ہیں (المفردات ج ٢ ص ١٤٥‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ٧١٤١ ھ)
اس آیت میں قوم کے مقابلہ میں عورتوں کا ذکر فرمایا ہے اس سے معلوم ہے کہ اس آیت میں قوم سے مراد مرد ہیں لیکن قرآن مجید میں با لعموم قوم کا مقابلہ کا لفظ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے آیا ہے جیسے ہر نبی نے کہا یا قوم اس سے مردوں اور عورتوں کی جماعت مراد ہے ‘ قوم کا لفظ اسم جمع ہے اس کے لیے مذکر اور مونث دونوں قسم کے صیغے لائے جاتے ہیں جیسے قرآن مجید میں ہے (الانعام ٦٦) اور (الشعراء ٥٠١) اس کی جمع اقوام آتی ہے
قوم کا لفظ صرف مردوں کے ؛یے ہے اس کا ثبوت اس آیت میں ہے : اے ایمان والو ! کوئی قوم دوسری قوم کا مزاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کو مزاق اڑائیں ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں
اس آیت میں قوم کے مقابلہ میں عورتوں کا ذکر فرمایا اس سے معلوم ہوا اس آیت میں قوم سے مراد مرد ہیں لیکن قرآن مجید میں بالعموم قوم کا لٖفظ مردوں اور عورتوں دونوں کے لیے آیا ہے جیسے ہر نبی نے کہا یا قوم اس سے مردوں اور عورتوں کی جماعت مراد ہے قوم کا لفظ اسم جمع ہے اس کے لیے مذکر مونث دونوں قسم کے صیغے لاءے جاتے ہیں جیسے قرآن مجید میں ہے وَكَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ الانعام 66 اور كَذَّبَتْ قَوْمُ نُوحٍ الْمُرْسَلِينَ الشعرا 105اس کی جمع اقوام آتی ہے
امام ابواالسعادات المبارک بن محمد ابن الا ثیر الجزری المتوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں
لفظ قوم ‘ قام کا مصدر ہے پھر اس کا غالب اطلاق مردوں پر ہے نہ کہ عورتوں پر حدیث میں ہے
اگر شیطان مجھے نماز میں سے کچھ بھلا دے تو قوم کو سبحان اللہ کہنا چاہیے اور عورتوں تالی بجانا چاہیے
(سن ابو دائود رقم الحدیث ٤٧١٢‘ مسد احمد ج ٢ ص ١ ٤٥ )
اس حدیث میں قوم سے مراد مرد ہیں کیونکہ قوم کے مقابلہ میں عورتوں کا ذکر فرمایا ہے اسی لیے فرمایا ہے کہ مرد عورتوں کے قوام ہیں کیو نکر عورتوں کے معاملات کا مرد انتظام کرتے ہیں عورتیں انتظام نہیں کر تیں
علامہ محمد بن محمد مرتضیٰ حسینی زبیدی متوفی ٥٠٢١ ھ لیکھتے ہیں
قوم کا معنی ہے مردوں اور عورتوں دونوں کی جماعت کیونکہ ہر آدمی کی قوم اس کے گروہ اور اس کا خاندان ہے یا یہ لفظ مردوں کے ساتھ خاص ہے اور عورتوں کو شامل نہیں ہے کیونکہ الحجرات ١١ میں قوم کے مقابلہ میں عوتوں کا ذکر ہے اسی طرح سنن ابو دائود ٤٧١٢ میں بھی قوم کے مقابلہ میں عوتوں کا ذکر ہے اگر قوم کا لفظ عوتوں کو بھی شامل ہوتا تو پھر قوم کو ذکر کر کے عوتوں کو الگ سے ذکر نہ کیا جاتا ابو العباس سے مروی ہے انفر ‘ اقوم اور الرھط یہ سب اسم جمع ہیں اور اسی لفظ سے ان کا واحد نہیں آتا اور بسا اوقات اس کے معنی میں تبعاً عورتیں بھی داخل ہوجاتی ہیں (جوہری) کیونکہ ہر نبی کی قوم مرد اور عورتیں دونوں ہیں (تاریے العروس ج ٩ ص ٤٣‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت )
اردو کی لغت میں قوم کا معنی اس طرح لکھا ہے آدمیوں کا گرو ہ ‘ فرقہ ‘ خاندان ‘ نسل ‘ ذات
(فیروز الغات ص ٥٦٩ فیروز سنز لاہور )
ہما ری تحقیق یہ ہے کہ قوم کا معنی ہر نبی کی امت دعوت ہے یعنی جن لوگوں کی طرف سے کسی نبی کو مبعوث کیا گیا کیونکہ نبی نے اپنی امت کو یا قوم کہہ کر خطاب کیا ہے۔
حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے کہا
اے میری قوم تم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اپنی جانوں پر ظلم کیا۔
(البقرہ ٤٥ )
بے شک ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا انہوں نے کہا اے میری قوم تم صرف اللہ کی عبادت کرو تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے
(الاعراف ٩٥)
اور ہم نے قوم ثمود کی طرف ان کے ہم قوم ضالح کو بھیجا انہوں نے کہا اے میری قوم تم صرف اللہ کی عبادت کرو تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے
(الاعراف ٣٧)
اور ہم نے لوط کو بھیجا جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تم ایسا بےحیائی کا کم کرتے ہو جو تم سے پہلے جہان والوں میں سے کسی نے نہیں کیا
(الا عراف ٠٨)
اور ہم نے قوم مدین کی طرف ان کے ہم قوم شعیب کو بھیجا انہوں نے کہا اے میری قوم صرف اللہ کی عبادت کرو تمہارے لیے اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہے
ان آیات سے واضح ہوگیا کہ قرآن مجید نے ہر نبی کی امت کو اس کی قوم فرمایا ہے سو تمام یہودی ایک قوم ہیں تمام عیسائی ایک قوم ہیں اور تمام مسلمان ایک قوم ہیں ان میں سید ‘ مغل اور پٹھان الگ الگ قومیں نہیں بلکہ تمام مسلمان ایک قوم ہیں اسی طرح تمام کلمہ گو اور تمام اہل اسلام ایک قوم ہیں ان میں تفریق کرنا ‘ لغت اور طلاقات قرآن کے اعتبار سے درست نہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تمام امت ایک قوم ہے۔
شیخ حسین احمد مدنی متوفی ۱۹۵۸ اور علامہ محمد اقبال متوفی ۱۹۳۸ کے درمیان یہ بحث تھی کہ قوم وطن سے بنتی ہے یا قوم دین سے بنتی ہے شیخ حسین احمد مدنی یہ کہتے تھے کہ قوم وطن سے بنتی ہے اور ایک ملک میں رہنے والے ایک قوم ہیں لہذا ہندو اور مسلمان چونکہ ایک ملک میں رہتے ہیں اس لیے وہ سب ایک قوم ہیں لہذا انگیریز سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ملک کو مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرنا صحیح نہیں ہے تمام کا نگریس اور نیشنلسٹ علماء کا یہی موقف تھا یہ لوگ پاکستان کا مطالبہ کرنے کے خلاف تھے اور علامہ اقبال کا نظریہ یہ تھا کہ قوم دین سے بنتی ہے اگر قوم وطن سے بنتی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت نہ کرتے آپ نے دین اسلام کی خاطر اپنا وطن چھوڑ دیا۔ اور جب قوم دین سے بنتی ہے تو ہندوئوں اور مسلمانوں کا دین الگ الگ ہے لہذا یہ ایک قوم نہیں بلکہ الگ الگ قومیں ہیں۔ علامہ اقبال کا یہ شعر بہت مشہور ہے
قوم مذہب سے ہے مدذہب جو نہیں تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں محفل نجم بھی نہیں
(بانگ درا ص ٩٢١ سنگ میل پبلی کیینز لاہور ٨٩٩١ ئ)
ان کی یہ ربائی بھی بہت مشہور ہے
عجم ہنوز اداند رموز دیں ورنہ
ز دیوبند حسین احمد ایچ چہ بو العجبی اسب
سرود بر سر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بیخبر ز مقام محمد عربی است
بہ مصطفیٰ بہ خویش رساں کہ دیں ہم ہاکوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بو لہبی است
(ارمغان حجاز حصہ اردو ص ٩٤‘ کلیات اقبال ص ٢٣٣)
ان کا اشعار کا ترجمہ یہ ہے
عجم کو ابھی تک دین کے اسرار کا پتا نہیں چل سکا
ورنہ دیو بند سے حسین احمد کا ظاہر ہونا کس قدر تعجب انگیز ہے
وہ برسر منبر یہ کہتے ہیں کہ قوم وطن سے بنتی ہے
وہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقام سے کس قدر بیخبر ہیں
اپنے آپ کو مصطفیٰ تک پہنچائو کہ وہی سراپا دین ہیں
اور اگر تم ان تک نہ پہنچ سکو تو یہ سراسر بو لہبی ہے
القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 70