أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِلَّا مَنۡ اَتَى اللّٰهَ بِقَلۡبٍ سَلِيۡمٍؕ ۞

ترجمہ:

سوا اس شخص کے جو اللہ کے حضور قلب سلیم لے کر حاضر ہوا

قلب سلیم کی تعریف، اس کی علامات اور اس کا مصداق 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : سوا اس شخص کے جو اللہ کے حضور قلب سلیم لے کر حاضر ہوا۔ (الشعرائ 89:)

کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تمہار اموال اور اولاد محض فتنہ ہیں۔ سو جو شخص اموال اولاد کے فتنہ سے سلامت رہا وہ قیامت کے دن شرمندگی سے سلامت رہے گا۔ اس آیت کی حسب ذیل تفسیریں ہیں :

کفاریہ کہتے تھے کہ ہمارے اموال اور ہماری اولاد بہت زیادہ ہیں اور وہ اپنے اموال اور اولاد کی کثرت پر فخر کرتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ ان کے اموال اور ان کی اولاد قیامت کے دن ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکیں گے، کیونکہ دنیا میں ان کے دل کفر اور شرک اور فسق و فجور سے سلامت نہیں رہے اور رہے۔ مسلمان تو ان کو ان کے اموال کا صدقہ اور خیرات کرنا نفع دے گا، اور مسلمانوں کو ان کی اولاد بھی نفع دے گی، کیونکہ مسلمان شخص کا بیٹا اگر اس سے پہلے فوج ہوجائے تو وہ اس کے لئے ذخیرہ اور اجر بن جاتا ہے اور اگر مسلمان کے بعد اس کا بیٹا فوت ہو تو وہ اس کے لئے دُعائے خیر کرتا ہے اور اس کے نیک اعمال کا ثواب اس کو پہنچتا ہے اور اس کی شفاعت متوقع ہوتی ہے۔

قلب سلیم کا مصداق یہ ہے کہ اس کا قلب جہل اور اخلاق رذیلہ سے سلامت رہے کیونکہ جس طرح بدن کی صحت کا سلامت رہنا اس کے مزاج کے معتدل ہونے پر موقوف ہے اور بدن کا مریض ہونا اس کے مزاج کے غیر معتدل ہونے سے عبارت ہے اسی طرح قلب کا سلامت رہنا علم اور اخلاق فاضلہ کے حصول اور جہل اور اخلاق رذیلہ سے خالی ہونے پر موقوف ہے۔

اس آیت میں یوں نہیں فرمایا سو اس شخص کے جو اللہ کے پاس ایمان اور اسلام کے ساتھ حاضر ہوا، بلکہ فرمایا جو اس کے پاس قلب سلیم کے ساتھ حاضر ہوا، کیونکہ ایمان وہی لاتا ہے، جس کا قلب سلامت ہو اور جس کا قلب بیمار ہو وہ ایمان سے محروم رہتا ہے، اسی طرح اعمال صالحہ بھی قلب کی سلامتی پر موقوف ہیں، حدیث میں ہے :

حضرت نعمان بن بشیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حلال ظاہر ہے اور حرام (بھی) ظاہر ہے اور ان کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں، جس کو اکثر لوگ نہیں جا نتے، پس وہ شخص مشتبہات سے اجتناب کرتا ہے وہ اپنے دین اور اپنی عزت کی حفاظت کرتا ہے اور جو شخص مشتبہات سے پرہیز نہیں کرتا، وہ اس چروا ہے کی طرح ہے جو شاہی چرا گاہ کے نزدیک بکریاں چراتا ہے۔ پس ہوسکتا ہے کہ اس کی بکریاں اس شاہی چراگاہ سے چر لیں، سنو ! ہر بادشاہ کی خاص چرا گاہ ہوتی ہیں اور اللہ کی خاص چرا گاہ اس کی حدود ہیں، سنو ! جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے، وہ درست ہو تو پورا جسم درست رہتا ہے اور وہ فاسد ہو تو پورا جسم فاسد ہوجاتا ہے، سنو وہ دل ہے !(صحیح البخاری)

قلب سلیم کی علامات یہ ہیں

(1) اس قلب میں خوف خدا ہو

(2) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت سب سے زیادہ ہو

(3) رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب، آپ کے قرابت دار، اولیاء اللہ او علماء دین کی محبت ہو۔

(4) دنیا سے دلچسپی کم اور آخرت کی طرف رغبت زیادہ ہو

(5) بےحیائی کے کاموں اور دیگر گناہوں سے نفرت ہو

(6) کینہ، حسد اور بغض سے خالی ہو

(7) عبادات سے محبت ہو

(8) ہر مسلمان کی خیر خواہی کا جذبہ ہو

(9) ایثار اور اخلاق ہو

(10) جب کسی شخص کے ساتھ نیکی کرے تو اس سے بدلہ کی توقع نہ کرے۔

امام ابو القاسم عبدالکریم بن ھوازن قشیری متوفی 465 ھ قلب سلیم کی تعریف میں لکھتے ہیں :

سلیم اس شخص کو کہتے ہیں جو سانپ یا بچھو سے ڈسا ہوا ہو، سو قلب سلیم والا وہ شخص ہے جو خوف خدا سے ڈسا ہوا ہو، یعنی جس طرح سانپ یا بچھو سے ڈسا ہوا شخص بےچین، مضطرب اور بیکل رہتا ہے وہ بھی خوف خدا سے بےکل اور بےچین رہے۔

ایک قول یہ ہے کہ وہ پہلے گمراہی سے سلامت ہو، پھر بدعت سے، پھر غفلت سے پھر غیبت سے، پھر دنیاوی عیش و آرام اور دنیاوی رنگینیوں اور دلچسپیوں سے یہ تمام چیزیں آفتیں ہیں۔ اکابران سے سلامت رہتے ہیں اور اصا غران کی آزمائش میں مبتلا رہتے ہیں۔ ایک قول یہ ہے قلب سلیم وہ ہے جو اپنے نفس کی محبت اور اس کی طرف توجہ اور ارادہ سے بھی سلامت ہو۔(لطائف الاشارات)

القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 89