أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيَةً‌ ؕ وَّمَا كَانَ اَكۡثَرُهُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ ۞

ترجمہ:

بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہ تھے

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بیشک اس میں ضرور نشانی ہے اور ان میں سے اکثر ایمان لانے والے نہ تھے۔ (الشعراء :103)

یعنی حضرت ابراہیم اور ان کی قوم کا جو قصہ ذکر کیا گیا ہے اس میں ان لوگوں کو غورو فکر کرنا چاہیے اور عبرت حاصل کرنی چاہیے جو غیر اللہ کی عبادت کرتے ہیں تاکہ وہ جان لیں کہ جن کی وہ عبادت کرتے ہیں وہ آخرت میں ان کے کسی کام نہ آسکیں گے، ان کو کسی ضرر سے نہیں بچا سکیں گے اور نہ ان کو کوئی فائدہ پہنچ اسکیں گے اور وہ بالآخر ان سے بیزار ہوجائیں گے تو کیوں نہ دنیا میں ہی ان کی عبادت کرنے سے بری ہوجائیں اور شرک کو ترک کردیں اور اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کریں، خصوصاً اہل مکہ کو اس میں غور کرنا چاہیے کیونکہ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ ملت ابراہیم پر ہیں اور حضرت ابراہیم ( علیہ السلام) کی قوم کے اکثر لوگ ایمان لانے والے نہ تھے، جس طرح ابتداء اہل مکہ میں سے اکثر لوگ ایمان نہیں لائے تھے۔ روایت ہے کہ اہل بابل میں سے حصرت ابراہیم ( علیہ السلام) پر صرف حضرت لوط اور نمرود کی بیٹی ایمان لائی تھی۔ (روح الیان ج 6 ص 373)

القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 103