حدیث رسول پر معترض سے حضرت عمران بن حصین کی بحث
sulemansubhani نے Thursday، 18 June 2020 کو شائع کیا.
آپ بہت سی ایسی حدیثیں بیان کرتے ہیں جنکی اصل ہم قرآن میں نہیں پاتے؟
ابو فضالہ مالکی کہتے ہیں کہ جب یہ جامع مسجد تعمیر ہوئی تو اتفاق سے حضرت عمران بن حصین وہاں بیٹھے ہوئے تھے ۔لوگوں نے انکے ساتھ شفاعت کا مسئلہ ذکر کیا، تو وہاں بیٹھے ہوے لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا،
اے ابونجید! بےشک تم لوگ ہمیں بہت ساری حدیثیں بیان کرتے ہو جنکی اصل ہم قرآن میں نہیں پاتے ؟
حضرت عمران بن حصین ناراض ہوگئے اور اس شخص سے کہنے لگے :
(1) آپ نے قرآن مجید پڑھا ہوا ھے؟ اس نے جواب دیا کہ جی ہاں پڑھا ہے۔
حضرت عمران بن حصین نے پوچھا ۔۔۔۔
کیا آپ نے اس میں یہ مسئلہ پڑھا ھے کہ عشاء کی نماز کی چار رکعتیں ہیں؟
کیا آپ نے قرآن میں یہ پایا کہ مغرب کی تین رکعات ہیں؟
اور صبح کی دو رکعات ہیں؟
ظہر و عصر کی چار چار رکعات ہیں؟
اس شخص نے کہا کہ نہیں پایا۔
پھر حضرت عمران بن حصین نے پوچھا کہ تم لوگوں نے یہ باتیں کہاں سے اخذ کی ہیں۔کیا تم لوگوں نے یہ باتیں ہم یعنی اصحاب رسول سے نہیں اخذ کی اور سیکھیں ہیں؟
اور ہم نے یہ تمام باتیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اخذ کی اور سیکھیں ہیں۔
(2) کیا تم نے یہ مسئلہ قرآن میں پایا کہ 40 درہم میں سے ایک درہم ہے؟ ( یعنی بطور زکوٰۃ دینا ہے ۔اور یہ کہ بکریوں میں ایک بکری ہے؟ اور اتنے اتنے اونٹوں میں زکوٰۃ کا ایک اونٹ ہے؟ کیا تم نے یہ سب قرآن میں پایا ھے؟
اس نے کہا نہیں پائی تفصیل ۔
پھر انھوں نے پوچھا کہ یہ سب باتیں تم نے کس سے حاصل کی ہیں ؟ ظاہر ہے یہ سب باتیں ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھی ہیں اور آپ لوگوں نے ہم سے سیکھی ہیں۔
(3) پھر حضرت نے ان سے پوچھا کہ قرآن کریم میں آپ نے یہ پڑھا ھے کہ ( الیطوفو بالبیت العتیق) کہ آپ لوگوں کو پرانے گھر یعنی کعبے کا طواف کرنا چاہیے۔مگر یہ بتائیے کیا تم نے یہ بھی پڑھا ھے کہ تم لوگ سات بار طواف کرو؟ اور تم لوگ اسکے بعد مقام ابراہیم کے پیچھے دو رکعت نفل ادا کرو۔کیا تم نے یہ باتیں قرآن میں پائی ہیں؟ پھر بتاوں کے تم نے یہ کس سے اخذ کی ہیں؟ کیا تم نے یہ ساری باتیں ہم لوگوں سے ( صحابہ کرام سے) نہیں حاصل کی؟ اور ہم نے انکو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا تھا۔اور کیا تم لوگ انکو ہم سے لے رہے ہو کہ نہیں۔لوگوں نے عرض کیا ہاں ہاں، کیوں نہیں، آپ سے ہی سیکھیں گے۔
(4) پھر فرمایا کہ کیا تم نے یہ مسئلہ قرآن میں پایا ھے کہ اسلام میں جلب نہیں ( جانوروں کو ایک شہر اے فروخت کرنے کیلئے دوسرے شہر لے جانا) اور اسلام میں جنب نہیں ( یعنی دور دراز بیٹھ کر مویشیوں کو اپنے پاس منگوانا کہ اس میں سے زکوٰۃ کے جانور وصول کرو۔ اور اسلام میں شغار نہیں ھے( اپنی بہن یا بیٹی دیکر دوسرے کی بہن یا بیٹی سے مہر کے بغیر نکاح کرنا). کیا تم نے یہ مسئلہ قرآن میں پایا ہے؟ لوگوں نے جواب دیا کہ نہیں۔تو حضرت عمران بن حصین نےفرمایا، بے شک میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا، فرمارھے تھے کہ لا جلب ولا جنب ولا شغار فی الاسلام ۔
(5) انہوں نے فرمایا کہ کیا تم نے یہ سنا کہ اللہ نے اپنی کتاب میں حکم فرمایا :
قدسمع اللہ سورۃ الحشر : آیت 7
وَ مَاۤ اٰتٰىکُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوۡہُ ٭ وَ مَا نَہٰىکُمۡ عَنۡہُ فَانۡتَہُوۡا ۚ
اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ.
حضرت عمران بن حصین نے فرمایا، تحقیق ہم لوگوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کئی اشیاء حاصل کیں اور سیکھیں جنکا تمہیں علم نہیں ھے۔
(6) اسکے بعد حضرت عمران بن حصین نے شفاعت کا ذکر کرتے ہوے فرمایا، کیا تم نے اللہ کا جہ فرمان سنا ھے کہ اس نے کچھ لوگوں سے فرمایا
تبارک الذی سورۃ المدثر :
مَا سَلَکَکُمۡ فِیۡ سَقَرَ ﴿۴۲﴾
قَالُوۡا لَمۡ نَکُ مِنَ الۡمُصَلِّیۡنَ ﴿ۙ۴۳﴾
وَ لَمۡ نَکُ نُطۡعِمُ الۡمِسۡکِیۡنَ ﴿ۙ۴۴﴾
وَ کُنَّا نَخُوۡضُ مَعَ الۡخَآئِضِیۡنَ ﴿ۙ۴۵﴾
وَ کُنَّا نُکَذِّبُ بِیَوۡمِ الدِّیۡنِ ﴿ۙ۴۶﴾
حَتّٰۤی اَتٰىنَا الۡیَقِیۡنُ ﴿ؕ۴۷﴾
الشفاعۃ نافعۃ دون ماتسمعون
سفارش مفید اور کارآمد ہوگی ۔( ما سوا ان لوگوں کے جنکا ذکر اوپر آیا ہے جسے تم نے سنا ہے۔)
(دلائل النبوۃ، جلد اول، ص 133 ،مترجم، دار الاشاعت)
احمدرضارضوی