خدایا بحقّ بنی فاطمہ کہ برقولِ ایماں کنم خاتمہ
خدایا بحقّ بنی فاطمہ کہ برقولِ ایماں کنم خاتمہ
یعنی یااِلٰہی! میں تجھے اولادِ فاطمہ سلام اللہ علیھا کا واسطہ دیتاہوں ہوں کہ تو کلمۂ شہادت پرمیراخاتمہ فرما(یعنی کلمہ پڑھنے یا اُس پر باقی رہنے کی حالت میں مجھے اِس دنیا سے اٹھا) _ (آمین یا رب)
یہاں #کنم میں م ضمیرِ مجرور خاتمہ کی قیدہے بعض احباب ” کنم” کی جگہ کنی پڑھتے ہیں یہ خیال کرکے کہ کنم” فعلِ مضارع صیغہ واحدمتکلم ہےاگراسےدرست ماناجائے تو معنیٰ فاسد ہوں گے اِس لیے کہ دعا اللہ سے ہے اور معنی یہ ہورہے ہیں کہ” ایمان کے قول پر میں خاتمہ نصیب کروں
اپنے اِس خیال کی بناپر تصحیحِ معنیٰ کےلیے وہ کنی (مضارع بمعنی عرض ودعا) پڑھتے ہیں اور معنی یہ کرتے ہیں کہ تو ایمان کے قول پر خاتمہ نصیب فرما
عاجز کے خیال میں کنم کو نادرست ٹھہرانا قطعی درست نہیںاور کنم کو واحدمتکلم بتانا اسلوبِ اہلِ فارس سے ناواقفیت یاعدمِ تَاَمُّل کا نتیجہ ہے
خاتمہ کردن کے دومعنیٰ ممکن ہیں، ایک اختتام کرنابمعنی اِس دنیا سے اٹھانا، دوسرےاختتام کو پہنچنابمعنی اِس دنیاسے اٹھنا _ اول الذکر معنی کے اعتبار سے کنم کو “کنی” کرنا معنی کے اعتبار سے درست ہے البتہ اس صورت میں خاتمہ کے بعد مَن محذوف ماننا پڑے گا جبکہ کنم کہنے کی صورت میں مَن محذوف نہیں ماننا پڑتا
اور ثانی الذکر معنی مراد لیے جانے کی صورت میں کنی کا حاصل ایک کفر نقدِ وقت ہوگا، اس لیے کہ اس کے معنی یہ ہوں گے کہ “اے اللہ تو دنیاسے کوچ کر* العیاذ باللہ تعالیٰ
اور کنم کہنے کی صورت میں اگراس کی میم کو خاتمہ کی قید قرار دیں تو ثانی الذکر معنی مراد لیاجانا ممکن ہی نہیں ہوگا اور اگراسے میمِ تکلم مانیں تو معنی یہ ہوں گے کہ ایمان کے قول پر میں دنیا سے کوچ کروں
آج فجر کی نماز پڑھ کر شیخ سعدی علیہ الرحمہ کا یہ شعر دعا میں پڑھا تو بھتیجے نے کہا کہ *بہت سے لوگ. *کنم* کی جگہ کنی پڑھتے ہیں ایسا کیوں ہے؟
اس کے نتیجے میں یہ چند سطریں لکھی گئیں اور افادۂ عام کےلیے یہاں بھی پیش کردیا گیا،
احباب امیج میں دوفارسی شرحوں کے نمونے بھی ملاحظہ فرمالیں:

