فَلَوۡ اَنَّ لَـنَا كَرَّةً فَنَكُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 102
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
فَلَوۡ اَنَّ لَـنَا كَرَّةً فَنَكُوۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ۞
ترجمہ:
اگر کاش ہمیں دنیا میں دوبارہ لوٹنا ہوتا تو ہم پکے مومن بن جاتے
مصائب میں گھر کر انسان کا اللہ کی طرف رجوع کرنا اور مصائب دور ہونے کے بعد پھر غافل ہو جانا
اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ( پھر مشرکین کہیں گے) اگر کاش ہمیں دنیا میں دوبارہ لوٹنا ہوتا تو ہم پکے مومن بن جاتے۔ (الشعراء 102)
ان کا یہ کلام افسوس اور حسرت کے اظہار کے لئے ہے اور اگر ان کو دنیا میں لوٹا دیا جاتا تو وہ ضرور دوبارہ ان کاموں کو کرتے جن سے ان کو منع کیا گیا تھا، کیونکہ جو بندہ ایمان پر کفر کو اختیار کرے اور اللہ اس میں گمراہی کو پیدا کر دے اس کو پھر کوئی ہدایت نہیں دے سکتا، خواہ ان کو دنیا میں بار بار لوٹایا جائے کیا دنیا میں ایسا نہیں ہوتا کہ ایک شخص کے گناہوں کی شامت اعمال سے اس پر کوئی مصیبت آجاتی ہے وہ گڑگڑا کر اللہ سے دعا کرتا ہے کہ اس بار اس کو معاف کر دے وہ دوبارہ ایسے برے کام نہیں کرے گا، اللہ تعالیٰ اس کو معاف کردیتا ہے اور جب وہ مصیبت دور ہوجاتی ہے تو وہ اس گرفت کو بھول جاتا ہے پھر حسب سابق برائیوں میں مشغول ہوجاتا ہے قرآن مجید میں ہے :
اور جب انسان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرتے ہوئے اس سے دعا کرتا ہے، پھر جب وہ اپنے پاس سے اس کو نعمت عطا فرما دیتا ہے تو وہ بھول جاتا ہے کہ وہ اس سے پہلے کیا دعا کررہا تھا۔ (الزمر :8)
آپ کہیے وہ کون ہے جو تم کو خشکی اور سمندر کی تاریکیوں سے نجات دیتا ہے (جب) تم اس کو گڑ گڑا کر اور اور چپے چپکے پکارتے ہو اگر تو ہم کو ان تاریکیوں سے نجات دے دے تو ہم ضرور شکر کرنے والوں میں سے ہوجائیں گے { آپ کہیے کہ اللہ ہی تم کو ان تاریکیوں سے اور ہر غم سے نجات دیتا ہے، پھر تم شرک کرنے لگتے ہو۔ الانعام
وہی ہے جو تم کو خشکی اور سمندر میں سفر کراتا ہے، حتیٰ کہ جب تم کشتیوں میں (محو سفر) ہو اور وہ کشتیاں موافق ہوا کے ساتھ لوگوں کو لے کر جا رہی ہوں اور لوگ ان سے خوش ہو رہے ہوں تو (اچانک) ان کشتیوں پر تیز آندھی آئے اور (سمندر کی) موجیں ہر طرف سے ان کو گھیرلیں اور لوگ یہ یقین کرلیں کہ وہ (طوفان میں) پھنس چکے ہیں، اس وقت وہ دین میں مخلص ہو کر اس سے دعا کرتے ہیں کہ اگر تو نے ہمیں اس (طوفان) سے بچا لیا تو ہم ضرور تیرا شکر بجا لانے والوں میں سے ہوجائیں گے۔ پھر جب اللہ نے انہیں بچ الیا تو پھر وہ یکایک زمین میں ناحق بغاوت (فساد) کرنے لگتے ہیں، اے لوگو ! تمہاری بغاوت صرف تمہارے لئے ہی (مضر) ہے۔ دنیا کی زندگی کا کچھ فائدہ (اٹھا لو) پھر تم نے ہماری ہی طرف لوٹنا ہے، پھر ہم تمہیں ان کاموں کی خبر دیں گے جو تم کرتے تھے۔یونس
سو جس طرح نا شکرے انسان اور کفار مصائب میں گھر جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور مصائب دور ہوجانے کے بعد پھر اس سے منحرف ہوجاتے ہیں اور اپنی روش پر لوٹ جاتے ہیں، اسی طرح کفار قیامت کے دن دوزخ کا عذاب دیکھ کر یہ کہیں گے کہ اگر ہمیں پھر ایک بار دنیا میں لوٹا دیا جائے تو ہم شرک نہیں کریں گے لیکن اللہ کو خوب علم ہے کہ اگر ان کو دوبارہ دنیا میں بھیج دیا گیا تو یہ پھر اسی طرح شرک کریں گے اور قیامت کے اس عذاب کو بھول جائیں گے۔
القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 102