أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَمَا لَـنَا مِنۡ شٰفِعِيۡنَۙ ۞

ترجمہ:

سو ہمارے لیے کوئی شفاعت کرنے والا نہیں

صدیق اور حمیم کا معنی 

اس کے بعد مشرکین کہیں گے : سو ہمارے لئے کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے۔ اور نہ کوئی سچا دوست۔ 

(الشعراء {: (100-101

جب مشرکین اور کفار یہ دیکھیں گے کہ انبیاء (علیہم السلام) اور ملائکہ مومنوں کی شفاعت کررہے ہیں اور ان کو دوزخ اور عذاب سے نجات دلا رہے ہیں تو اس وقت وہ حسرت اور افسوس سے کہیں گے کہ ہمارے لئے کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے اور نہ کوئی سچا دوست ہے۔

علامہ راغب اصفہانی متوفی 502 ھ لکھتے ہیں :

صدیق کا معنی ہے دوست، اس کی جمع اصدقاء ہے، علامہ راغب نے کہا ہے کہ صدقۃ کا معنی ہے دوستی میں صدق اعتقاد، اور یہ صرف انسان کے ساتھ مخصوص ہے (المفردات ج 2 ص 365، مکہ مکرمہ) حمیم کا معنی ہے نہایت گرم پانی اور گہرا دوست، اصل میں حمیم سخت گرم پانی کو کہتے ہیں اور اسی اعتبار سے اس قریبی دوست کو بھی حمیم کہا جاتا ہے جو اپنے دوست کی حمایت میں گرم ہوجائے، اگر حمیم گرم پانی کے معنی میں ہو تو اس کی جمع حمائم ہے اور اگر گہرے دوست کے معنی میں ہو تو اس کی جمع احماء ہے۔ حمیم بہ معنی گرم پانی اس آیت میں ہے۔

اور (کافروں کو دوزخ میں) گرم پانی پلایا جائے گا۔ (محمد :15)

اور دوست کے معنی میں اس آیت میں ہے :

اور کوئی دوست کسی دوست کو نہیں پوچھے گا۔

(المفردات ج ا ص 172، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، 1418 ھ)

مومنوں کی مغفرت اور اس پر کفار کی حسرت کے متعلق احادیث 

حافظ جلال الدین سیوطی متوفی 911 ھ لکھتے ہیں :

امام ابن مردویہ نے حضرت جابر (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا لوگ قیامت کے دن پل صراط سے گزریں گے اور صراط ایک پھسلواں جگہ ہے۔ لوگ اس سے پھسل کر دوزخ کی آگ میں گریں گے اور دوزخ کی آگ ان کو پکڑ لے گی اور جس طرح برف باری کے ایام میں برف گرتی ہے اسی طرح دوزخ کی آگ ان پر گرے گی، اور وہ بہت زور سے چنگھاڑ رہی ہوگی، وہ اسی حال میں ہوں گے کہ ان کے پاس رحمان کی جانب سے ایک ندا آئے گی : اے میرے بندو ! تم دنیا میں کس کی عبادت کرتے تھے ؟ وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! تو خوب جانتا ہے کہ ہم تیری ہی عبادت کرتے تھے، پھر وہ ان کو ایسی آظاز کے ساتھ جواب دے گا کہ تمام مخلوق میں سے کسی نے ایسی آواز نہیں سنی ہوگی، اے میرے بندو ! مجھ پر حق ہے کہ میں آج تم کو اپنے سوا کسی کے سپرد نہ کروں۔ میں نے تم کو معاف کردیا اور تم سے راضی ہوگیا، پھر اس وقت ملائکہ شفاعت کے لئے کھڑے ہوں گے، پس لوگ اس جگہ سے نجات حاصل کریں گے اور جو لوگ ان کے نیچے دوزخ میں ہوں گے وہ کہیں گے کیا وجہ سے کہ ہمارے لئے کوئی شفاعت کرنے والا نہیں ہے اور نہ کوئی سچا دوست، اللہ تعالیٰ نے فرمایا پھر ان کو اور غاو ون (بتون) کو اوندھے منہ دوزخ میں گرا دیا جائے گا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا ان سے کہا جائے گا اب تم آخر دن تک دوزخ میں رہو۔

امام ابن مردویہ نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک میری امت کو قیامت کے دن جمع کیا جائے گا۔ جب وہ ارض محشر میں کھڑے ہوں گے تو اللہ کی طرف سے ایک منا دی آئے گا اور ندا کرے گا جن لوگوں نے ناحق خون بہایا ہے وہ الگ کھڑے ہوجائیں، وہ دوسروں سے الگ ہو کر کھڑے ہوجائیں گے، ان کے پاس خون بہ رہا ہوگا، ان کو بلانے والا ان سے کہے گا اس خون کو ان کے جسموں میں لوٹائوں، پھر ان سے کہے گا دوزخ کی طرف اکٹھے ہو جائو پھر جس وقت ان کو دوزخ کی طرف گھسیٹ کر لایا جائے گا ایک منادی ندا کرے گا یہ لوگ لا الٰہ الا اللہ پڑھتے تھے، پھر ان کو ایک جگہ کھڑا کیا جائے گا جہاں وہ دوزخ کی تپش محسوس کریں گے، حتیٰ کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت کے حساب سے فراغت ہوجائے گی، پھر ان کو اوندھے منہ دوزخ میں گرا دیا جائے گا۔ ان کو ان کے متبوعین کو اور ابلیس کو اور اس کے لشکر کو۔

امام ابو الشیخ، امام ابن مردویہ نے حضرت ابو امامہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ حضرت عائشہ (رض) نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! آیا کوئی ایسا دن ہوگا جس میں ہمیں اللہ تعالیٰ سے کوئی مستغنی نہیں کرسکے گا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہاں تین مقامات پر، میزان کے پاس، نور اور ظلمت کے پاس اور پل صراط کے پاس، جس کو اللہ سلامت رکھنا چاہے گا اس کو پل صراط سے گزار دے گا اور جس کو چاہے گا اس کو اوندھے منہ دوزخ میں گرا دے گا، حضرت عائشہ (رض) نے پوچھا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! پل صراط کیا چیز ہے ؟ آپ نے فرمایا وہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک راستہ ہے، جو استرے کی مثل ہے، لوگ اس سے گزریں گے اور ملائکہ دائیں بائیں صف باندھے کھڑے ہوں گے، اس پر درخت سعدان کے کانٹوں کی طرح آنکڑے (ہک) ہوں گے اور وہ فرشتے دعا کررہے ہوں گے، اے رب ! سلامت رکھ، سلامت رکھ اور ان کے دل خالی اور اڑے ہوئے ہوں گے۔ پس جس کو اللہ تعالیٰ چاہے گا اس کو سلامت رکھے گا اور جس کو چاہے گا اوندھے منہ دوزخ میں گرا دے گا۔

(الدر المثورج 6 ص 278-279، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1421 ھ)

مومنوں کے دوستوں کا قیامت کا دن کام آنا اور کفار کا اس نعمت سے محروم ہونا 

امام الحسین بن مسعود الفراء البغوی الشافعی المتوفی 516 ھ لکھتے ہیں :

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک آدمی جنت میں یہ کہے گا کہ میرا فلاں دوست کہاں ہے ؟ اور اس کا وہ دوست دوزخ میں ہوگا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا اس کے دوست کو جنت میں بھیج دو ، پھر جو لوگ دوزخ میں باقی ہوں گے وہ کہیں گے، ہمیں کیا ہوا کہ ہمارے لئے شفاعت کرنے والا نہیں ہے اور نہ کوئی سچا دوست ہے۔ (معالم المتنزیل ج 3 ص 472، الوسیط ج 3 ص 357)

علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی 1137 ھ لکھتے ہیں :

بعض احادیث میں یہ روایت ہے کہ قیامت کے دن ایک بندے کا حساب لیا جائے گا اس کی نیکیاں اور برائیاں بالکل برابر ہوں گی اور اس کو صرف ایک نیکی کی ضرورت ہوگی جس سے وہ اپنے قرض خواہوں کو راضی کر دے، اس سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اے میرے بندے تیری صرف ایک نیکی رہ گئی ہے اگر وہ ہوتی تو میں تجھے جنت میں داخل کردیتا، تم دیکھو اور لوگوں میں تلاش کرو شاید کوئی شخص تم کو ایک نیکی دے دے، وہ آکر میدان حشر کی صفوں میں تلاش کرے گا، اپنے باپ، اپنی ماں اور اپنے دوستوں میں سے ہر ایک سے کہے گا، ان میں سے کوئی بھی اس کو ایک نیکی نہیں دے گا، اور ان میں سے ہر ایک یہ کہے گا آج ہم خود نیکیوں میں سے کسی ایک نیکی تک کے محتاج ہیں، پس اللہ تعالیٰ فرمائے گا، اے میرے بندے ! کیا تیرا کوئی وفادار دوست نہیں ہے ؟ پھر اس بندے کو اپنا ایک وفادار دوست یاد آئے گا، وہ اس کے پاس جا کر اس سے ایک نیکی کا سوال کرے گا، وہ اس کو ایک نیکی دے دے گا، وہ پھر اسی جگہ اپنے رب کو اس نیکی کے ملنے کی خبر دے گا، اللہ فرمائے گا میں نے اس نیکی کو اس سے قبول کرلیا اور اس کے حق سے کسی چیز کی کمی نہیں کی، میں نے اس کو بھی بخش دیا اور تمہیں بھی بخش دیا۔

اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ اللہ کے نزدیک دوستی کا بہت بڑا اعتبار ہے۔

حسن نے کہا زیادہ سے زیادہ مسلمانوں سے دوستی رکھو کیونکہ قیامت کے دن ان کی شفاعت ہوگی۔

حسن بصری نے کہا جب ب ھی کوئی جماعت اللہ کا ذکر کرنے کے لئے بیٹھتی ہے تو ان میں کوئی جنتی بندہ ہوتا ہے جو ان کی شفاعت کرتا ہے اور مومنین ایک دوسرے کی شفاعت کریں گے اور وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک شفاعت کرنے والے ہیں اور ان کی شفاعت قبول کی جانے والی ہے۔ (روح البیان ج 6 ص 372-373، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1421 ھ)

علامہ اسماعیل حقی نے جو روایت ذکر کی ہے مجھے اس کی تائید حدیث کی کسی کتاب میں نہیں ملی۔

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :

کعب احبار نے بیان کیا دوہ آدمی دنیا میں دوست تھے، قیامت کے دن ان میں سے ایک دوسرے کے پاس سے گزرا، جس کو دوزخ کی طرف گھسیٹ کر لایا جا رہا تھا، پس اس کا بھائی اس سے کہے گا اللہ کی قسم ! تمہاری نجات کے لئے صرف ایک نیکی کی ضرورت ہے ! اے میرے بھائی تم وہ نیکی لے لو تم کو اس عذاب سے نجات مل جائے گی اور میں اور تم دونوں اصحاب الاعراف سے ہوجائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ ان دونوں کو جنت میں داخل کرنے کا حکم دے گا۔

(الجامع لاحکام القرآن جز 13 ص 110، مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1415 ھ)

یہ حدیث اسرائیلیات میں سے ہے۔

ان روایات سے یہ معلوم ہوگیا کہ مومنوں کے دوست آخرت میں ان کے کام آئیں گے اور کفار اس نعمت سے محروم ہوں گے۔ قرآن مجید میں ہے :

اس دن سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہوں گے ماسوا متقین کے۔ (الزخرف : 27)

اس دن جب کفار دیکھیں گے کہ مسلمانوں کی شفاعت انبیائ، ملائکہ اور ان کے دنیا کے دوست کر رہے ہیں تو اس وقت وہ حسرت سے کہیں گے، ہماری شفاعت کرنے والا کوئی نہیں ہے اور نہ ہمارا کوئی وفادار دوست ہے اور جن کو ہم دنیا میں اپنا دوست اور نجات دہندہ سمجھتے تھے آج وہ خظد عذاب میں گرفتار ہیں اور نجات کے طالب ہیں اور جن بتوں کو ہم خدا سمجھ کر ان کی عبادت کرتے تھے، وہ سب ہم سے پہلے جہم میں جا گرے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 100