وَاغۡفِرۡ لِاَبِىۡۤ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّآلِّيۡنَۙ ۞- سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 86
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَاغۡفِرۡ لِاَبِىۡۤ اِنَّهٗ كَانَ مِنَ الضَّآلِّيۡنَۙ ۞
ترجمہ:
اور میرے (عرفی) باپ کو بخش دے بیشک وہ گمراہوں میں سے تھا
حضرت ابراہیم کی آزر کے لئے دعا کی توجیہات
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے چوتھی دعا یہ کی : اور میرے (عرفی) باپ کو بخش دے بیشک وہ گمراہوں میں سے تھا۔
(الشعرا 86)
اس دعا پر یہ اعتراض ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا عرفی باپ آزر کافر تھا، اور کافر کے لئے مغفرت کی دعا کرنی جائز نہیں ہے، بعض علماء نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ مغفرت ایمان لانے پر موقوف ہے۔ اس لئے زندہ کافروں اور مشرکوں کے لئے مغفرت کی دعا کرنا در اصل ان کے ایمان لانے کی دعا کرنا ہے۔ اس لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے عرفی باپ آزر کے لئے مغفرت کی دعا کر کے حقیقت میں ہی دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ اس کو ایمان کی توفیق عطا فرمائے لیکن اس پر یہ اعتراض ہے کہ اس تاویل سے تو ہر زندہ مشرک اور کافر کے لئے مغفرت کی دعا کی جاسکتی ہے۔
اس اعتراض کا دوسرا جواب یہ ہے کہ آزر نے حضرت ابراہیم سے ایمان لانے کا وعدہ کیا تھا، حضرت ابراہیم نے اس کے وعدہ پر اعتماد کر کے اس کے لئے مغفرت کی دعا کی تھی اور جب وہ اپنے وعدہ سے منحرف ہوگیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس سے بیزار ہوگئے۔
اور ابراہیم کا اپنے (عرفی) باپ کے لئے مغفرت کی دعا کرنا صرف اس وعدہ کی وجہ سے تھا جو اس نے ان سے کرلیا، اور جب ابراہیم پر یہ منکشف ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بےزار ہوگئے، بیشک ابراہیم بہت نرم دل اور بہت بردبار تھے۔
امام رازی نے اس کا ایک یہ جواب دیا ہے کہ آزر باطنی طور پر حضرت ابراہیم کے دین پر تھا اور ظاہراً نمرود کے دین پر تھا کیونکہ وہ اس سے ڈرتا تھا تو حضرت ابراہیم نے اس اعتبار سے اس کے لئے دعا کی ہے اور جب حضرت ابراہیم پر یہ ظاہر ہوا کہ واقعہ اس کے خلاف ہے تو وہ اس سے بےزار ہوگئے۔ (تفسیر کبیرج)
اس جواب پر یہ اعتراض ہے کہ یہ کیسے معلوم ہوا کہ وہ حقیقتاً حضرت ابراہیم پر ایمان لا چکا تھا اور نمرود کے ڈر اور خوف سے اس پر ایمان کا اظہار کرتا تھا اور حضرت ابراہیم پر اس کا خلاف کیسے ظاہر ہوا، اس مفروضہ پر کوئی دلیل نہیں ہے اس لئے صحیح جواب وہی ہے جو التوبہ 114 سے ظاہر ہوتا ہے۔
قیامت کے دن حضرت ابراہیم کی آزر سے ملاقات کے متعلق احادیث
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے (عرفی) باپ کو قیامت کے دن اس حال میں دیکھیں گے کہ اس کا چہرہ غبار سے آلودہ ہوگا اور اس پر سیاہی چھائی ہوئی ہوگی۔ (صحیح الخباری رقم الحدیث)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حضرت ابراہیم کی اپنے (عرفی) باپ سے ملاقات ہوگی تو حضرت ابراہیم کہیں گے کہ اے میرے رب تو نے وعدہ فرمایا تھا کہ تو مجھے قیامت کے دن شرمندہ نہیں کرے گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے جنت کو کافروں پر حرام کردیا ہے۔ (صحیح الخباری)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اپنے (عرفی) باپ آزر سے ملیں گے آزر کے چہرے پر سیاہی اور گرد و غبار ہوگا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس سے کہیں گے کیا میں نے تم سے یہ نہیں کہا تھا کہ تم میری نافرمانی نہ کرو، اس کے (عرفی) باپ کہیں گے آج میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا، حضرت ابراہیم (اللہ تعالیٰ سے) عرض کریں گے : اے میرے رب تو نے مجھ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ تو قیامت کے دن مجھے شرمندہ نہیں کرے گا اور اس سے بڑی میری اور کیا شرمندگی ہوگی کہ میرا باپ (تیری رحمت سے) بہت دور ہو۔
پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے جنت کو کافروں پر حرام کردیا ہے، پھر کہا جائے گا اے ابراہیم دیکھو ! تمہارے پیروں کے نیچے کیا ہے ؟ حضرت ابراہیم دیکھیں گے تو وہ گندگی میں لتھڑا ہوا زیادہ بالوں والا نربجو ہوگا (یعنی ازر کو مسخ کر کے بجو بنادیا جائے گا) (صحیح الخباری )
قیامت کے دن آزر کی شفاعت کرنے پر اشکال اور اس کے جوابات
حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجرعسقلانی متوفی 852 ھ ان احادیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
پھر اس کو ٹانگوں سے پکڑ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ اس کو بجو کی شکل میں مسخ کرنے کی حکمت یہ ہے کہ حضرت ابراہیم اس سے متنفر ہوں اور چونکہ اس کی صورت حضرت ابراہیم کے مشابہ تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا تھا کہ اس صورت کے حامل کو دوزخ میں ڈالا جائے اس لئے اس کی صورت کو مسخ کر کے زیادہ بالوں والے نربجو کی شکل بنادی اور اس لئے کہ حضرت ابراہیم نے نہایت نرمی اور عاجزی سے اس کو ایمان لانے کی طرف ترغیب دی، مگر اس نے تکبر کیا اور کفر پر اصرار کیا، اس لئے قیامت کے دن اس کو ذلت میں مبتلا کیا گیا اور اس کو مسخ کر کے بجو بنادیا گیا۔
محدث اسماعیلی نے اس حدیث کی صحت پر یہ اعتراض کیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا، پھر انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اس کی مغفرت کا کیوں سوال کیا، علاوہ ازیں قیامت کے دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا اس کی مغفرت کے لئے سوال کرنا اس آیت کے بھی خلاف ہے۔
اور ابراہیم کا اپنے (عرفی) باپ کے لئے استغفار کرنا صرف اس وعدہ کی وجہ سے تھا جو انہوں نے اس سے کیا تھا، جب ان پر یہ منکشف ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بےزار ہوگئے بیشک ابراہیم بہت نرم دل اور بردبار تھے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ مفسرین کا اس میں اختلاف ہے کہ حضرت ابراہیم نے کس وقت اس سے بیزاری کا اظہار کیا تھا۔ ایک قول یہ ہے کہ انہوں نے دنیا میں ہی اس سے بےزاری کا اظہار کیا تھا جب وہ حالت شرک میں مرگیا تھا، یہ قول امام ابن جریر نے سندصحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس (رض) عنھما سے روایت کیا ہے، ایک روایت میں ہے جب وہ مرگیا تو انہوں نے اس کے لئے استغفار نہیں کیا۔ ایک اور روایت میں ہے جب تک وہ زندہ رہا، حضرت ابراہیم اس کے لئے استغفار کرتے رہے اور جب وہ مرگیا تو پھر انہوں نے اس کے لئے استغفار کو ترک کردیا۔
دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس سے قیامت کے دن بیزار ہوئے جب اس کی شکل مسخ کردی گئی اور وہ اس سے مایوس ہوگئے یہ قول بھی امام ابن جریر نے سعید بن جبیر سے روایت کیا ہے، سعید بن جبیر نے کہا قیامت کے دن حضرت ابراہیم اس کا ہاتھ پکڑ کر کہیں گے اے میرے رب ! میرا والد، میرا والد، جب تیسری باری اس کا ہاتھ پکڑ کر یہ کہیں گے تو اس کی طرف ان کی نظر پڑے گی تو وہ بجو ہوگیا، پھر وہ اس سے بےزار ہوجائیں گے، اور ان دونوں قولوں میں اس طرح سے تطبیق ہوسکتی ہے کہ جب وہ دنیا میں شرک پر مرگیا تو حضرت ابراہیم اس سے بیزار ہوگئے، پھر جب قیامت کے دن اس کو دیکھا تو ان پر پھر نرمی اور شفقت غالب آگئی اور انہوں نے اس کی مغفرت کا سوال کیا، پھر جب اس کو مسخ شدہ بجو کی شکل میں دیکھا تو پھر اس سے دائمی طور پر بیزار ہوگئے دوسری تطبق یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو یہ یقین نہیں تھا کہ وہ کفر پر مرا ہے، کیونکہ یہ ہوسکتا تھا کہ وہ دل میں ایمان لایا ہو اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اس کے ایمان پر مطلع نہ ہوئے ہوں، اس لئے قیامت کے دن اس کی سفارش کی حتیٰ کہ قیامت کے دن جب ان کو یقین ہوگیا کہ یہ کفر پر مرا تھا تو اس سے بےزار ہوگئے۔
آزر کو دوزخ میں ڈالنے پر خلف وعد اور خلف وعید کے اعتراض کا جواب
علامہ کرمانی نے یہ اعتراض کیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی عرفی باپ کو دوزخ میں ڈال دیا تو ان کو رسوا کردیا کیونکہ قرآن مجید میں ہے ربنا الک من تدخل النار فقد اخریتۃ (آل عمران 192) اے ہمارے رب بیشک تو نے جس کو دوزخ میں ڈالا اس کو رسوا کردیا اور باپ کی رسوائی بیٹے کی رسوائی ہے پس خلف وعد لازم آگیا اور یہ محال ہے اور اگر اس کو دوزخ میں نہیں ڈالا تو خلف وعیدلازم آگیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ان اللہ حرمھما علی الکافرین (الاعراف 50) اللہ نے جنت کے پانی اور جنت کے رزق کو کافروں پر حرام کردیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اگر آزر کو اس کی اصل صورت میں دوزخ میں ڈالا گیا ہوتا تو حضرت ابراہیم کے لئے باعث رسوائ تھا اور جب وہ بڑے بالوں والے نر بجو کی شکل میں دوزخ میں ڈالا گیا تو آزر رسوا ہوا نہ حضرت ابراہیم لہذا خلف وعد لازم آیا نہ خلف وعد دوسرا جواب یہ ہے کہ آزر کے دوزخ میں ڈالے جانے سے حضرت ابراہیم اس وقت رسوا ہوتے جب انہوں نے اسکے لئے دعا کی ہوتی اور اس کے باوجود اس کو دوزخ میں ڈال دیا جاتا اور جب انہوں نے اس کے لے دعا نہیں کی اور وہ اس سے بیزار ہوگئے تو پھر وہ رسوا یا شرمندہ نہیں ہوئے اور کئویخ رابی عینی خلف وعد یا خلف وعید لازم نہی ایٓا (فتخ الباری)
حافظ جلال الدین سیوطی متوفی 911 ھ لکھتے ہیں
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے آزر کی جو سفارش کی اس پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو علم تھا کہ اللہ تعالیٰ کافروں کو نہیں بخشے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے اس عہد کے خلاف نہیں کرے گا پھر اہوں نے کیوں آزر کی سفارش کی ؟ اس کا یہ جواب ہے کہ جب انہوں نے آزر کو دیکھا تو ان پر شفقت اور رحمت غالب آگئی اور وہ اس کے لئے سوال کئے بغیر نہ رہ سکے (التولشیخ علی الجامع)
وضو کے بعد حضرت ابراہیم کی اس دعا کو پڑھنے کا ثواب
امام ابن ابی الدنیا اور امام ابن مردویہ نے اپنی سندوں کے ساتھ حضرت سمرہ بن جندب (رض) سے روایت کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمیا ا جب بندہ فرض نماز کے لئے وضو کرے اور پورا پورا وضو کرے پھر اپنے گھر سے نماز پڑھنے کے ارادہ کے لئے نکلے اور نکلتے وقت یہ پڑھے بسم اللہ الدی خلقنی فھوبھدین (اللہ کے نام سے جس نے مجھے پیدا کیا سو وہی ہدایت دیتا ہے) تو اللہ اس کو صحیح بات کی ہدایت دے گا، اور امام ابن مردویہ کی روایت میں ہے اس کو صحیح کاموں کی ہدایت دے گا، پھر پڑھے والذی وبطعمنی وبسقین (جو مجھے کھلاتا ہے اور پلاتا ہے) تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے طعام سے کھلائے گا اور جنت کے مشروب سے پلائے گا پھر پڑھے واذامرضت فھویشفین (اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ مجھے شفاء دیتا ہے) تو اللہ تعالیٰ اس کو شفاء دیتا ہے اور اس کی بیماری کو اس کے لئے کفارہ بنا دیتا ہے پھر پڑھے والذی بمیتی ثم بحین ( اور جو میری روح قبض کرے گا، پھر مجھ کو زندہ کرے گا) تو اللہ تعالیٰ اس کو نیک بختوں کی حیات کے ساتھ زندہ کرے گا اور اس کو شہداء کی موت کے ساتھ موت دے گا پھر پڑھے والذی اطمع ان بغفرلی خطیتی یوم الدین (اور جس سے مجھے یہ ایمد ہے کہ وہ قیامت کے دن میری خطائوں کو بخش دے گا) تو اللہ تعالیٰ اس کی تمام خطائوں کو بخش دے گا خواہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہوں، پھر پڑھے رب ھب لی حکما والحنی بالصلحین (اے میرے رب مجھے حکم (صحیح فیصلہ) عطا فرما اور مجھے نیک لوگوں کے ساتھ ملا دے) تو اللہ اس کو صحیح فیصلہ کی قوت عطا فرماتا ہے اور اس کو گزرے ہوئے یا موجودہ نیک لوگوں کے ساتھ ملا دیتا ہے، پھر پڑے واجعل لی لسان صدق فی الخرین (اور بعد میں آنے والے لوگوں میں میرا ذکر خیر جاری رکھ) تو ایک سفید ورق میں یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ فلاں بن فلاں صادقین میں سے ہے، پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ اس کو سچ بولنے کی توفیق دیتا ہے، اس کے بعد پڑھے واجعلنی من ورثۃ جنۃ النعیم (اور مجھے نعمیت والی جنتوں کے وارثوں میں سے بنا دے) تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں محالات بنا دیتا ہے، اور حسن بصری اس کے بعد یہ دعا بھی پڑھتے تھے واغفر لوالدی کماربانی صغیر (میرے ماں باپ کو بخش دے جیسا کہ انہوں نے بچپن میں میری پرورش کی) (الدا المثورج)
علامہ اسماعیل حقی متوفی 1137 اور علامہ سید محمودآلوسی ۱۲۷۰ نے بھی اس دعا کو نقل کیا ۔
القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 86