وَالَّذِىۡۤ اَطۡمَعُ اَنۡ يَّغۡفِرَ لِىۡ خَطِٓیْـئَـتِىۡ يَوۡمَ الدِّيۡنِ ۞- سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 82
sulemansubhani نے Thursday، 18 June 2020 کو شائع کیا.
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَالَّذِىۡۤ اَطۡمَعُ اَنۡ يَّغۡفِرَ لِىۡ خَطِٓیْـئَـتِىۡ يَوۡمَ الدِّيۡنِ ۞
ترجمہ:
اور جس سے مجھے امید ہے کہ وہ میری (بہ ظاہر) خطائوں کو قیامت کے دن معاف فرما دے گا
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی خطا کا ذکر کرکے مغفرت طلب کی، اس کی توجیہات
اور جس سے مجھے امید ہے کہ وہ میری (بہ ظاہر) خطائوں کو قیامت کے دن معاف فرمادے گا۔ (الشعرائ : ٦٨ )
حضرت ابراہیم علیہ السکام نے دعا میں یوں کہا مجھے امید ہے کہ وہ معاف فرمائے گا، یوں نہیں کہا میری خطائوں کو معاف فرمادے۔ اس کی وجہ ادب ہے اور یہ بتانا ہے کہ بندہ کو خوف اور امید کے درمیان رہنا چاہیے، اور اللہ تعالیٰ کے کرم پر متنبہ فرمانا ہے، کیونکہ کریم سے جب کوئی امید رکھی جائے تو وہ اسکو پورا کردیتا ہے۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) مغفور اور معصوم ہیں پھر انہوں نے اپنی خطا کا کیوں ذکر کیا اور ان کی مغفرت کیوں طلب کی اس کے حسب ذیل جوابات ہیں :
(١) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی ظاہری خطائون پر معافی طلب کی، مفسرین نے کہا ہے کہ ظاہری خطائوں سے مراد وہ تین باتیں ہیں جو بہ ظاہر جھوٹ تھیں لیکن حقیقت میں جھوٹ نہ تھیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے ان کے بتوں کو خود توڑ دیا اور جب قوم نے اس سے متعلق پوچھا تو حضرت ابراہیم نے کہا :
بل فعلہ کبیر ھذا (الانبیائ : ٣٦) بلکہ یہ کام ان کے اس بڑ نے کیا ہے۔
یہ بہ ظاہر جھوٹ تھا حقیقت میں جھوٹ نہ تھا کیونکہ حضرت ابراہیم کا منشا یہ تھا کہ اس بڑے بت کی پرستش کو باطل کرنے اور اس کو ذلیل و خوار کرنے اور اس کے عجز کو ظاہر کرنے کے سبب سے میں نے اس کو توڑ ڈالا، کیونکہ اگر یہ واقعی خدا ہوتا تو مجھے ان بتوں کو توڑنے سے روک دیتا اور جب یہ ان بتوں کو ضرر پہنچنے سے نہیں بچا سکا تو معلوم ہوا کہ یہ خدا نہیں ہے اور اس کی پرستش کرنا جائز نہیں ہے۔ پس ان کا یہ کلام بہ ظاہر جھوٹ تھا حقیقت میں جھوٹ نہ تھا۔
دوسری بات یہ تھی کہ جب قوم ان کو میلے میں لے جانے کے لئے آئی تو انہوں نے کہا :
انی سقیم (الصفت : ٨٩) میں بیمار ہوں۔
حالانکہ حضرت ابراہیم بیمار نہ تھے، حضرت ابراہیم نے بہ ظاہر یہ کہا تھا کہ میں بیمار ہوں لیکن ان کی مراد یہ تھی کہ میری قوم روحانی بیمار ہے کہ وہ گمراہی اور بت پرستی میں ڈوبی ہوئی ہے آپ نے بیماری کا صراحۃً اسناد اپنی طرف کیا لیکن اشارۃً آپ کا اسناد اپنی قوم کی طرف تھا سو یہ کلام بہ طور تعریض ہے بہ ظاہر یہ جھوٹ ہے لیکن حقیقت میں جھوٹ نہیں ہے۔
اور تیسری بات یہ تھی کہ حضرت سارہ آپ کی بیوی تھیں لیکن جب ظالم بادشاہ کے کارندوں نے آپ سے پوچھا تو آپ نے کہا یہ میری بہن ہے آپ کی مراد یہ تھی کہ یہ میری دینی بہن ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث ٤٨٠٥، ٧٨٣٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٣٣)
آپ کا یہ کلام بھی بہ ظاہر جھوٹ تھا حقیقت میں جھوٹ نہیں تھا۔
آپ کی یہ تینوں باتیں تبلیغی مقاصد سے تھیں اور برحق تھیں لیکن چونکہ ان کا ظاہر جھوٹ تھا اس لئے آپ نے اپنے بلند مقام اور مرتبہ کے اعتبار سے ان کو بھی خطا قرار دیا اور یہ طمع کی کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ آپ کی اس ظاہرہ خطا کو بھی معاف فرمادے، اور ہرچند کے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) معصوم اور مغفور تھے لیکن آپ نے اپنی عبودیت اور بندگی کا اظہار کرنے کے لئے اس پر معافی طلب کی۔
(٢) حضرت ابراہیم نے اپنی باتوں کو خطا قرار دے کر ان پر معافی چاہی اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ بندہ اس کے سامنے اپنی خطا کا اعتراف اور اقرار کرکے اس سے مغفرت کرے، حدیث میں ہے :
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! بن جدعان رشتہ داروں سے میل جول رکھتا تھا اور مسکینوں کو کھانا کھلاتا تھا کیا یہ عمل اس کو نفع دے گا ؟ آپ نے فرمایا : یہ عمل اس کو نفع نہیں دے گا ! اس نے ایک دن بھی یہ نہیں کہا : اے میرے رب میری خطا کو قیامت کے دن بخش دینا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤١٢، المستردک ج ٢ ص ٥٠٤، المسترد رقم الھدیث : ٦٢٥٣، صحیح ابن حبان ج ٢ ص ٩)
ابن جدعان کافر تھا، اور اس نے قیامت کا اقرار نہیں کیا تھا، کیونکہ جو قیامت کا اقرار کرتا ہے وہ قیامت کے دن اپنی خطا کی مغفرت کا طالب ہوتا ہے اور منکر قیامت کو اس کا عمل نفع نہیں دیتا۔ اس کا پورا نام عبداللہ بن جدعان تھا۔ یہ حضرت عائشہ (رض) کا عم زادہ تھا، یہ ابتداء میں فقیر تھا، پھر اس کو خزانہ مل گیا تو یہ غنی ہوگیا یہ اس خزانے سے نیکی کے کاموں میں خرچ کرتا تھا۔
اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو یہ پسند ہے کہ بندہ اپنی خطا کا ذکر کرے اور اللہ سے اس کی مغفرت طلب کرے، تو ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے اس کا پسندیدہ عمل کیا اور اپنی (ظاہری) خطا کا ذکر کرکے اس سے مغفرت طلب کی۔
(٣) اس کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اس دعا سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی امت کو یہ تعلیم دی ہے کہ وہ گناہوں سے اجتناب کریں اور ڈریں اور اگر ان سے کوئی گناہ سرزد ہوجائے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس گناہ کی مغفرت کو طلب کریں اور طلب مغفرت میں ان کی اقتداء کریں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اللہ سے ڈرنے والوں کے لئے امام ہوجائیں، جس طرح عباد الرحمن نے یہ دعا کی تھی :
واجعلنا للمتقین اماما (الفرقان : ٤٧) اور ہم کو متقین (اللہ سے ڈرنے والوں) کا امام بنادے۔
(٤) مغفرت کی دعا کی چوتھی وجہ یہ ہے کہ حسنات الابرار سیئات المقربین نیک لوگوں کی نیکیاں بھی مقبولان بارگاہ الوہیت کے نزدیک گناہ کا حکم رکھتی ہیں، اور وہ اپنے انتہائی بلند مرتبہ کے پیش نظر عام نیکیوں کو بھی گناہ قرار دیتے ہیں تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اس خطا سے ہماری طرح کے گناہ مراد نہیں ہیں، بلکہ نیک لوگوں کی نیکیاں مراد ہیں جو ان کے نزدیک گناہ کا حکم رکھتی ہیں۔
(٥) اس کی پانچویں وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم جس مرتبہ کے نبی تھے اور اللہ کے پسندیدہ بندے تھے اس کا تقاضا یہ تھا کہ ان کی رہ ساعت اور ہر لحظہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کے ذکر میں گزرے لیکن بشریٰ تقاضوں سے وہ سوتے بھی تھے، کھاتے پیتے بھی تھے، قضاء حاجت اور طہارت بھی کرتے تھے۔ لوگوں سے تبلیغی امور میں باتیں بھی کرتے تھے، اپنی زوجہ کے حقوق بھی ادا کرتے تھے۔ حصول وزق کے لئے کسب معاش بھی کرتے تھے، ہرچند کے یہ امور بھی فی نفسہا عبادت ہیں اور نیکی میں شمار ہوتے ہیں لیکن ان امور میں مشغولیت کے وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کرسکتے تھے تو آپ اپنی بلند نظر کے اعتبار سے اس کو بھی خطا قرار دیتے اور اس پر بھی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتے کہ میری اس تقصیر طاعت پر قیامت کے دن مجھے معاف کردینا۔
(٦) طلب مغفرت کی چھٹی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتیں غیر متناہی ہیں، قرآن مجید میں ہے :
ان تعدو انعمت اللہ لا تحصوھا (ابراہیم : ٤٣) اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کرسکتے۔
اور ہر نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا واجب ہے، اور جس زبان سے وہ اللہ کا شکر ادا کرے گا وہ بھی نعمت ہے پھر اس نعمت کا شکر ادا کرنا واجب ہوگا اور یوں عمر تمام ہوجائے گی اور اس کی ایک نعمت کا بھی شکر ادا نہ ہوسکے گا، تو غیر متناہی نعمتوں کا شکر کیسے ادا ہوگا پس انسان کی قدرت اور استطاعت میں یہ نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی کسی ایک نعمت کا بھی شکر ادا کرسکے تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اس فطری تقصیر پر اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن مغفرت طلب کی۔
مئوخر الذکر دونوں وجہوں کو اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ نے بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ذنب کے اطلاق کی بحث میں ذکر کیا ہے :
اعلیٰ حضرت امام رضا فاضل بریلوی متوفی ٠٤٣١ ھ لکھتے ہیں :
یعنی اللہ عزو جل نے آپ پر اور آپ کے اصحاب پر جو نعمتیں فرمائیں ان کے شکر میں جس قدر کمی واقع ہوئی اس کے لئے استغفار فرمائیے، کہاں کمی اور کہاں غفلت نعمہائے الٰہیہ ہر فرد پر بیشمار حقیقتاً غیر متناہی بالفعل ہیں ماحقۃ المفتی ابن السعود فی ارشاد العقل السلیم، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : وان تعدو انعمۃ اللہ لاتحصوھا اگر اللہ کی نعمتیں گننا چاہو نہ گن سکو گے۔ جب اس کی نعمتوں کو کوئی گن نہیں سکتا تو ہر نعمت کا کون شکر ادا کرسکتا ہے تو ہر نعمت کا پورا شکر کون ادا کرسکتا ہے۔
ازدست و زباں کہ برآید کز عہدہ شکرش بدرآید
شکر میں ایسی کمی ہرگز بمعنی معروف نہیں بلکہ لازمہ بشریت ہے نعمائے الہیہ ہر وقت ہر لمحہ ہر آن ہر لمحہ میں متزاید ہیں خصوصاً خاصوں پر خصوصاً ان پر جو سب خاصوں کے سردار ہیں اور بشر کو کسی وقت کھانے پینے سونے میں مشغولی ضرور اگرچہ خاصوں کے یہ افعال بھی عبادت ہی ہیں مگر اصل عبادت سے تو ایک درجہ کم ہیں اس کمی کو تقصیر اور اس تقصیر کو ذنب فرمایا گیا۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٥٧، مطبوعہ دارالعلوم امجدیہ، کراچی)
(٧) اس کا ساتواں جواب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے تعلیم دین اور تکمیل دین کے لئے جو بہ ظاہر خلاف اولیٰ کام کئے ان کو خطا سے تعبیر فرمایا اور خلاف اولیٰ یا مکروہ تنز یہی کا ارتکاب گناہ نہیں ہوتا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا نے تصریح کی ہے کہ خلاف اعلیٰ اور مکروہ تنز یہی گناہ نہیں ہوتا۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں :
مکروہ تنزیہی میں کوئی گناہ نہیں ہوتا وہ صرف خلاف اولیٰ ہے نیز حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیان جواز کے لئے قصداً ایسا کیا اور بنی قصداً گناہ کرنے سے معصوم ہوتا ہے، اور گناہ میں مبتلا کرنے والی چیز کا ارتکاب جائز نہیں ہوتا تو بیان جواز کے کیا معنی ! پھر یہ (مکروہ تنز یہی) اباحت کے ساتھ مجتمع ہوتا ہے جیسا کہ اشربہ ردالمتحاد میں ابا السعود سے ہے اور معصیت اباحت کے ساتھ مجمتع نہیں ہوتی ہے۔ پھر علماء اس کی تعبیر نفی باس سے کرتے ہیں اور گناہ سے بڑھ کر کون باس عظیم ہوگا اور اس لئے کہ گناہ گار بنانے والی چیز واجب الترک ہے اور جس چیز کا ترک واجب ہو اس کا فعل حرام کے قریب ہوگا، اور یہی معنی کراہت تحریم ہے ہیں اور اس لئے بھی کہ فقہاء نے تصریح کردی ہے کہ مرکوہ تنز یہی کے فاعل پر بالکل گناہ نہ ہوگا، جیسا کہ تلویح میں ہے اس کے ساتھ ہی ہم یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ اللہ چھوٹے سے چھوٹے جرم پر سزا دے سکتا ہے بحمد اللہ یہ سات دلائل ہیں جن سے معلوم ہوا کہ بعض ابناء زمانہ نے رسالہ شرب الدخان میں مکروہ تنزیہی کو صغائر سے بتا کر فاحش غلطی اور خطاء عظیم کی ہے۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٠٥٤ (طبع جدید) مطبوعہ رضاء فائونڈیشن لاہور، اپریل ٦٩٩١ ئ)
اعلیٰ حضرت نے تلویح کا جو حوالہ دیا ہے اس کی عبارت یہ ہے :
علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی متوفی ١٩٧ ھ مکروہ تنزیہی کی تعریف میں لکھتے ہیں :
انہ لایعاقب فاعلہ لکن یثاب تارکہ ادنی ثواب
مکروہ تنزیہی کے مرتکب کو عذاب نہیں ہوگا لیکن اس کے ترک کرنے والے کو ادنیٰ درجہ کا ثواب ہوگا۔ (توضیح تلویح ص ٣٢، مطبوعہ مطبع نور محمد اصح المطابع، کراچی)
ہم نے جو ساتواں جواب دیا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جس خطا کا ذکر کیا ہے اس سے مراد مکروہ تنزیہی یا خلاف اولیٰ کا ارتکاب ہے اس جواب علامہ القومولی نے بھی ذکر کیا ہے، وہ فرماتے ہیں :
اس اعتراض کا صحیح جواب یہ ہے کہ اس آیت میں خطا کو ترک اولیٰ پر محمول کیا جائے اور انبیاء کے حق میں ترک اولیٰ جائز ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٨ ص ٣١٥، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ٥١٤١ ھ)
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی نے بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ذنب کے اطلاق کی بحث میں یہ جواب دیا ہے وہ لکھتے ہیں :
جتنا قرب زائد اسی قدر احکام کی شدت زیادہ ہے جن کے رتبے ہیں سوا ان کو سوا مشکل ہے۔
بادشاہ جبار جلیل القدر ایک جنگلی گنوار کی جو بات سن لے گا، جو برتائو گوارہ کرے گا۔ ہرگز شہریوں سے پسند نہیں کرے گا، شہریوں میں بازاریوں سے معاملہ آسان ہوگا اور خاص لوگوں سے سخت اور خاصوں میں درباریوں اور درباریوں میں وزراء ہر ایک پر بار دوسرے سے زائد ہے، اس لئے وارد ہوا حسنات الابرار سیئات المقربین نیکوں کے جو نیک کام ہیں مقربوں کے حق میں گناہ ہیں وہاں ترک اولیٰ کو بھی گناہ سے تعبیر کیا جاتا ہے حالانکہ ترک اولیٰ ہرگز گناہ نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٧٧، (طبع قدیم) مطبوعہ دارالعلوم امجدیہ کراچی)
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا میرے لئے میری خطا معاف فرما اس کی توجیہات
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا میں فرمایا میرے لئے میری خطا کو بخش دے گا۔ اس مقام پر میرے لئے کیوں فرمایا اس کی حسب ذیل توجیہات ہیں :
(١) جب باپ اپنے بیٹے کو معاف کرتا ہے یا مالک اپنے نوکر کو یا خاوند اپنی بیوی کو معارف کرتا ہے تو عموماً وہ حصول ثواب کے لئے معاف کردیتا ہے یا عذاب سے بچنے کے لئے یا دنیا میں اپنے حلم اور صبر کی تعریف اور تحسین کے لئے یا پھر اس لئے کہ اس قصور وار کے معافی مانگنے سے اس کا دل پگھل جاتا ہے تو اپنے دل سے اس رقت کو زائل کرنے کے لئے معاف کرتا ہے، لیکن اللہ تعالیٰ جو قصور وار بندہ کو معاف فرماتا ہے تو اس کا مقصود کسی چیز کو حاصل کرنا ہوتا ہے نہ کسی چیز کو زائل کرنا، اللہ سبحانہ جب کسی قصور وار بندے کو معاف فرماتا ہے تو صرف اور صرف اس بندے کی وجہ سے معاف فرماتا ہے اس لئے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا اور جس چیز کی میں امید رکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ قیامت کے دن میرے لئے میری خطائوں کو معاف فرمادے گا۔
(٢) حضرت ابراہیم ععلیہ السلام نے پہلے اللہ تعالیٰ کی یہ صفت بیان کی کہ اس نے مجھے پیدا کیا پھر یہ کہا کہ مجھے امید ہے کہ وہ میرے لئے میری خطا کو معاف فرمادے گا، اس میں یہ بتایا کہ جب اس نے مجھے پیدا کیا تو پیدا ہونے سے پہلے مجھے پیدا ہونے کی خواہش تھی نہ پیدا ہونے کی احتیاج تھی تو اس نے مجھے پیدا کردیا اور پیدا ہونے کے بعد جب کہ مجھے مغفرت کی خواہش بھی ہے اور مغفرت کی احتیاج بھی ہے تو اب میں اس بات کے زیادہ لائق ہوں کہ تو مجھے معاف فرمادے۔
(٣) بعض روایات میں ہے کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں پھینکا جارہا تھا تو ان کے پاس حضرت جبریل (علیہ السلام) نے آکر کہا آپ کو کوئی حاجت ہو تو مجھ سے بیان کریں۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فرمایا مجھے تم سے کوئی حاجت نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بحر توحید میں اس قدر زیادہ مستغرق تھے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی واسطے اور وسیلہ کی طرف نظر نہیں کرتے تھے گویا کہ انہوں نے کہا میں صرف تیرا بندہ ہوں اور محض تیرا بندہ ہونے کی وجہ سے تجھ سے سوال کرتا ہوں اور صرف تیرا محتاج ہوں اور صرف تجھ سے رابطہ رکھتا ہوں تو صرف میرے لئے میری خطا کو معاف فرمادے، نہ یہ کہ تو کسی شفاعت کرنے والے کی وجہ سے مجھے معاف فرما۔
دوسرے نبیوں کو مانگنے سے عطا فرمانا اور ہمارے نبی کو بےمانگے عطا فرمانا
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی :
رب اشرح لی صدری۔ (طہ : ٥٢) اے میرے رب ! میرے لئے میرا سینہ کھول دے۔
اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا :
الم نشرح لک صدرک۔ (الم نشرح : ١) کیا ہم نے آپ کے لئے آپ کا سینہ نہیں کھول دیا۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا کی :
رب ارنی انظر الیک (الاعراف : ٣٤١) اے میرے رب مجھے اپنی ذات دکھا میں تیری طرف دیکھوں گا۔
اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا :
الم تر الی ربک (الفرقان : ٥٤) کیا آپ نے اپنے رب کی طرف نہیں دیکھا۔
حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا کی :
ولا تخزنی یوم یبعثون۔ (الشعرائ : ٧٨) جس دن لوگوں کو (محشر میں) جمع کیا جائے گا مجھے شرمندہ نہ کرنا۔
اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے فرمایا :
یوم لایخزی اللہ النبی والذین امنوامعہ (التحریم : ٨) جس دن اللہ نہ اس عظیم نبی کو شرمندہ کرے گا اور نہ اس کے ساتھ ایمان لانے والوں کو۔
اور زیر تفسیر آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا ہے :
والذی اطمع ان یغفرلی خطیئتی یوم الذین۔ (الشعرائ : ۸۲) اور جس سے مجھے امید ہے کہ وہ میری (بہ ظاہر) خطائوں کو قیامت کے دن معاف فرمادے گا۔
اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے متعلق فرمایا :
ان فتحنا لک فتحا مبینا۔ لیفرلک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تاخر ویتم نعمتہ علیک و یھدیک صراطا مستقیما۔ (الفتح : ٢۔ ١) بیشک ہم نے آپ کو واضھ فتح عطا فرمائی۔ تاکہ اللہ آپ کے اگلے اور پچھلے بہ ظاہر خلاف اعلیٰ سب کام معاف فرمادے اور آپ پر اپنی نعمت مکمل کردے اور آپ کو صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے۔
ذنب کا ترجمہ گناہ کرنے کے متعلق مصنف کا موقف
بعض اکابر علماء نے اس آیت میں ذنب کا ترجمہ گناہ کردیا ہے :
شاہ ولی اللہ دہلوی متوفی ٦٧١١ ھ لکھتے ہیں :
ھر آئینہ ماحکم کردیم برائے توبفتح ظاھر عاقبت فتح آنست کہ بیا مرزد تراخدا آنچہ کہ سابق گزشت از گناہ تو وآنچہ پس ماندہ۔
شاہ رفیع الدین متوفی ٣٣٢١ ھ لکھتے ہیں :
تحقیق فتح دی ہم نے تجھ کو فتح ظاہر تاکہ بخشے واسطے تیرے خدا جو کچھ ہوا تھا پہلے گناہوں تیرے سے اور جو کچھ پیچھے ہوا۔
شاہ عبدالقادر متوفی ٠٣٢١ ھ لکھتے ہیں :
ہم نے فیصلہ کردیا تیرے واسطے صریح فیصلہ تا معاف رے تجھ کو اللہ جو آگے ہوے تیرے گناہ اور جو پیچھے رہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی کے والد ماجد شاہ نقی علی خاں متوفی ٧٩٢١ ھ لکھتے ہیں :
ہم نے فیصلہ کردیا تیرے واسطے صریح فیصلہ تا معاف کرے اللہ تیرے اگلے اور پچھلے گناہ اور پورا کرے تجھ پر اپنا احسان۔ (انوار جمال مصطفیٰ ص ١٧، مطبوعہ شبیر برادرز اردو بازار، لاہور)
شیخ عبدالحق محدث دہلوی متوفی ٢٥٠١ ھ ایک حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ذنپ کے نسبت کے ترجمے میں لکھتے ہیں :
پس مے آیند عیسیٰ راپس مے گوید عیسیٰ من نیستم اھل ایں کار و لیکن بیائید محمد را (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کہ بندہ ایست کہ آمر زیدہ است مر اور اھرچہ پیش گزشتہ ازگناھان وے وھرچہ پس آمدہ (اشعۃ اللمعات ج ٤ ص ٦٨٣، مطبوعہ مطبع یتج کمار لکھنو)
علامہ فضل حق خیر آبادی متوفی ١٦٨١ ء اس حدیث کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :
پس بیایند برعسیٰ (علیہ السلام) پس بگوید برائے شفاعت نیستم لیکن برشما لازم است کہ بروید بر محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اوبندہ ایست کہ آمر زیدہ است خدا ے تعالیٰ مر اورا ا ازگناھان پیشین وپسیں او۔ (تحقیق الفتویٰ ص ١٢٣۔ ٠٢٣، متکبہ قادریہ لاہور۔ ٩٩٣١ ھ)
اور مولانا غلام رسول رضوی متوفی ٢٢٤١ ھ اس حدیث کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :
لوگ عسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آئیں گے وہ کہیں گے میں اس پوزیشن میں نہیں کہ تمہاری شفاعت کروں، تم محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اگلے پچھلے سب گناہ معارف کردئیے ہیں۔ (تفہیم البخاری ج ٠١ ص ٨٤، الجدہ پر نٹرز)
اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی نے بھی ایک کتاب میں محمد : ١٩ کے ترجمہ میں اسی طرح ترجمہ کیا ہے، وہ لکھتے ہیں :
قال الرضایہ بھی ابو الشیخ نے روایت کی اور خود قرآن عظیم میں ارشاد ہوتا ہے واستغفر لذنبک واللمومنین والمومنات، مغفرت مانگ اپنے گناہوں کی اور سب مسلمان مردوں اور سب مسلمان عورتوں کے لئے۔ (ذیل امدعالا حسن الوعاء (فضائل دعا) ص ٦٢، مطبوعہ ضیاء الدین پبلی کیشنز، کراچی)
امام بغوی نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے واقعہ کے ضمن میں حضرت حسن بصریٰ (رح) کا قول نقل کیا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کے گناہوں کا ذکر عاردلانے کے لئے نہیں بلکہ اپنے انعامات کے اظہار کے لئے فرمایا، نیز یہ بتانے کے لئے کہ کوئی شخص اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ (معالم التنزیل)
امام احمد رضا بریلوی اس کے حاشیہ میں لکھتے ہیں : ذنوب انبیاء (علیہم السلام) سے مراد صورت گناہ ہے ورنہ حقیقت گناہ سے انبیاء کرام (علیہم السلام) نہایت دور اور منزہ و مبرا ہیں۔ (تعلیقات رضا ص ٥٢، مطبوعہ رضا اکیڈمی، ممبئی، ٨١٤١ ھ)
اس عبارت میں امام احمد رضا فاضل بریلوی نے انبیاء (علیہم السلام) کی زلات پر صورت گناہ کا اطلاق فرمایا ہے۔ ہمارے نزدیک انبیاء (علیہم السلام) کی زلات پر خصوصاً سید الانبیاء سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بہ ظاہر خلاف اولیٰ افعال پر حقیقۃً یا صورۃً گناہ کا اطلاق کرنا غیر مستحسن ہے، اس لئے کہ علماء تو جانتے ہیں کہ یہ اطلاق سہو، خلاف اولیٰ یا حسنات الابرار سیئات المقربین کے اعتبار سے ہے، لیکن جب اردو خواں عوام ذنب کا ترجمہ گناہ پڑھیں گے تو وہ ان باریکیوں تک نہیں پہ نچ سکیں گے وہ تو صاف اور سیدھے سادے طور پر یہی سمجھیں گے کہ نبی سے بھی گناہ صادر ہوتے رہتے ہیں اور جب عام لوگوں کے ذہنوں میں نبی کے لئے بھی گناہ ثابت ہوجائیں تو انہیں نیکی پر کیسے آمادہ کیا جاسکے گا، اسی طرح جب مستشرقین اور غیر مسلم معترضین کے ہاتھوں میں یہ تراجم پہنچیں گے تو کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گناہ گار ثابت کرنے کے لئے ان مسلم علماء کے تراجم اور ان کی عبارات کافی نہیں ہوں گی !
ہماری رائے یہ ہے کہ ان اکابر علماء کی توجہ اس پہلو کی طرف مبذول نہیں ہوئی ورنہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے گناہ یا صورۃً گناہ کا لفظ نہ لکھتے اور یقیناً ان اکابر علماء کے دلوں میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عقیدت اور محبت اور تعظیم و تکریم بہت زیادہ تھی۔
القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 82
ٹیگز:-
خطائوں , القرآن , معاف , اعلیٰ حضرت امام رضا فاضل بریلوی , سیدہ عائشہ صدیقہ , خطا , شاہ نقی علی خاں , شیخ عبدالحق محدث دہلوی , علامہ فضل حق خیر آبادی , Tibyan ul Quran , مولانا غلام رسول رضوی , قیامت , ابن جدعان , Allama Ghulam Rasool Saeedi , اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی , ذکر , مصنف , Quran , امام احمد رضا بریلوی , امام بغوی , علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی , حضرت ابراہیم , سورہ الشعراء , توجیہات , گناہ , دن , ذنب , تبیان القرآن , ترجمہ , شاہ ولی اللہ دہلوی , حضرت عائشہ , شاہ رفیع الدین , اعلیٰ حضرت امام احمد رضا , مغفرت , شاہ عبدالقادر